تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     09-03-2013

تحریک انصاف‘ تازہ ایڈیشن

ٹنل وژن کے عجلت پسند موقع پرست تھے جو تحریک انصاف چھوڑ گئے اور پاکستان خان کا ردعمل بھی بہت دلچسپ تھا کہ ایسوں کے چھوڑ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وقت بتائے گا کہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور وقت بھی دور نہیں… 23 مارچ کا جلسہ عادی جعلسازوں کے سارے انجینئرڈ سرویز کو بے ستر اور بے نقاب کر دے گا۔ رہی سہی کسر الیکشن‘ اگر ہو گئے تو‘ پوری کر دیں گے… اگر ہو گئے! پی پی پی اور ن لیگ عملاً ہتھیار پھینک چکی ہیں۔ خصوصاً ن لیگ کی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اپنے عروج پر ہے۔ ہر للّو پنجو کو ساتھ ملانے کے علاوہ لیپ ٹاپ تا سولر لیمپ ان کے کیمپ میں بھگدڑ کی نشانیاں ہیں۔ انتہا یہ کہ پانچ سال سوئے رہے اور اب اچانک ایک لاکھ سرکاری ملازم کنفرم کر دیے جو ’’پری پول رگنگ‘‘ کی بدترین، بے حیا اور ننگی ترین مثال ہے لیکن آزاد الیکشن کمیشن کی پہنچ سے بہت دور کہ گوالمنڈی گروپ ٹیکنیکل دھاندلیوں کا ایکسپرٹ ہے۔ یہ ساری حرکتیں اس سچ کی زندہ گواہیاں ہیں کہ ان لوگوں کو اپنا ووٹ بینک لُٹنے کا احساس ہو گیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ پرلے درجہ کے ’’کھوچل‘‘ لوگ ہیں۔ برف خانہ سے بادشاہت تک جانے والوں کی جانکاری اور فنکاری کو بھلا کون چیلنج کر سکتا ہے لیکن اللہ پاک کی لاٹھی پر سائیلنسر لگا ہوتا ہے۔ اس بے آواز لاٹھی نے پرویز مشرف کی شکل میں اک ’’جدہ جھلکی‘‘ دکھائی تھی لیکن عادتیں سعودی عرب نہیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں۔ سو جاتی عمرے کو اک اور جھٹکا درکار ہے جو اس بار کسی اور شکل میں نمودار ہوگا۔ فر سٹریشن کی اس سے بڑی انتہا کیا ہوگی کہ ’’برادران‘‘ ٹانگہ کیا سائیکل پارٹیوں کے ساتھ بھی فلرٹ کر رہے ہیں اور حضرت مولانا فضل الرحمن سے بھی امان چاہتے ہیں۔ رعونت جب رئیسانی کی میزبانی کے مزے لینے لگے تو نام نہاد اصولوں کی سیاست کا پروپیگنڈا کسی ڈبہ پیر کا تعویذ گنڈا دکھائی دیتا ہے لیکن ان کے نزدیک تو عوام وہ جانور ہیں جنہیں یہ جدھر چاہیں ہانک سکتے ہیں لیکن اب یہ ممکن نہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ سچ یہ ہے کہ مک مکا کے تحت انہوں نے زرداری کو ڈی ریل ہونے سے بچایا لیکن ملک اور عوام کو بُری طرح ڈی ریل کر دیا۔ کہتے ہیں اکثریت نہیں تھی تو پھر بھی ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی کے لیے ہاتھ پائوں تو مارتے، کوئی جھوٹی سچی کوشش تو کرتے لیکن سچ یہ کہ ’’ن لیگ اینڈ برادرز اینڈ سنز‘‘ اس جرم میں برابر کی شریک تھی اور تاریخ اس پر انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ایک اور آوارہ سی بات‘ بکائو سرویز کے حوالہ سے کہ آپ میں سے جو‘ جہاں بھی یاروں‘ رشتہ داروں‘ دوست احباب کے ساتھ بیٹھا ہے… وہیں ووٹنگ کرالے کہ کس نے کس کو ووٹ دینا ہے۔ اس ’’پرائیویٹ الیکشن‘‘ کا نتیجہ ہی اصل نتیجہ سمجھیں‘ باقی سب بکواس ہے۔ آخر پر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر بھی بات ہو جائے جس کے نتائج پر سیاپے کی نائنیں پیٹ رہی ہیں اور تو اور وہ بھی سنگ زنی پر اتر آئے جو جیتنے والوں کے ساتھ خود کئی ’’شامیں‘‘ گزار چکے۔ رشید بھٹی ہنستا ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن دراصل پاکستان کے عام انتخابات کا ہی صحیح اور سچا عکس ہیں۔ جو کچھ جنرل الیکشن میں ہوتا ہے وہی کچھ یہاں نظر آیا تو ماتم کس بات کا؟ جمہوریت کے مامے چاچے بنتے ہو تو خوشدلی سے قبول کرو کہ یہی آج تک کا آخری سچ ہے۔ کیا یہ آخری سچ نہیں کہ الیکشن میں دھن، دھونس، دھاندلی، ذات برادری، فرقہ، مفاد، مجبوری کھل کھیلتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کے الیکشن مریخ پر ہو رہے ہیں اور جن کے درمیان ہو رہے ہیں ان کا ’’ڈی این اے‘‘ آسمان سے اترا ہے؟ سمجھو کہ انٹرا پارٹی الیکشن بذات خود اک عظیم تبدیلی ہے جو بتدریج باقی تبدیلیوں کو جنم دے گی۔ عمران خان لیڈر ہے جادوگر نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ’’سوئچ آف اون‘‘ کا کھیل ہے۔ دھیرج حضور! ’’اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے‘‘ کہ ’’بیم اِن بیم آئوٹ‘‘ کا دور ابھی دور ہے۔ GIVEN CONDITIONS میں لاہور کے ووٹرز کا فیصلہ بہترین ہے۔ رہ گیا رشید بھٹی تو وہ ’’ایم اے جیالوجی‘‘ نہیں، ایم ایس سی جیالوجی ہے اور میں نے بلھے شاہؒ اور شاہ حسینؒ سے لے کر وارث شاہؒ اور بابا فریدؒ تک اسی سے پڑھا اور سمجھا ہے‘ قتلوں کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں‘ صرف اتنا تو جان لو کہ ’’قتلوں کے جھوٹے کیس کن کے ادوار میں بنے؟ اصل قاتل کیسے پکڑے گئے؟ اور پھر یہ کیس کیسے ریورس ہوئے‘ سوائے ایک فیملی مرڈر کیس کے کہ قتل کا کیس تو میں بھی بھگت چکا ہوں۔ میرے سگے چھوٹے بھائی نوید نثار کو 1988ء میں مرڈر کیس میں ملوث کرکے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ حسین حقانی تب کسی اور کلّے پر بندھا تھا۔ جب اس نے مجھے فون پر یہ ’’اطلاع‘‘ دی کہ اسے اس بات پر ’’افسوس‘‘ ہے کہ نوید نثار کا کیس سپیڈی کورٹ میں پہنچ گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ عدالتوں کے کام عدالتوں کو اور ووٹروں کے کام ووٹرز کو ہی کرنے دیے جائیں تو بہتر ہے۔ جمہوریت پر لعنت بھیجو یا جمہور کے فیصلوں کا احترام کرو۔ وقت ہے دو مین سٹریم مافیاز کے خلاف متحد ہونے کا‘ اسی لیے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ لاہور میں جیتنے والے ہارنے والوں کے پاس چل کر جائیں‘ انہیں گلے لگائیں کہ مقابلہ بھیانک ترین مافیاز کے ساتھ ہے۔ گھر کی لڑائی گھر تک ہی رہے تو گھر کی عزت ہے۔ باقی رہ گئے ’’پارسا‘‘ تو بھائی ہم تو گنہگار بھی ہیں‘ بدنام زمانہ رند بھی لیکن منافق نہیں… میچ پڑ گیا تو مایوس نہیں کریں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved