تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-12-2017

ہمیں تو قید ہی رکھو …

گل و بلبل، غنچہ ہائے شگفتہ و ناشگفتہ، خار و خس، نشیمن و خرمن، لب و رخسار، چشم ہائے خنداں، زلفِ پیچاں، ہجر و وصال، غم ہائے جاناں، غم ہائے دوراں اور دوسرے بہت سے اندیشہ ہائے دور دراز جیسے جہان بھر کے بامعنی اور لایعنی موضوعات کے ساتھ ساتھ اسیری یعنی قید اور رہائی کے بارے میں ہمارے شعراء نے بہت کچھ کہا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس موضوع کو بھی اُنہوں نے پامال کرنے سے گریز نہیں کیا! جگرؔ مراد آبادی کہتے ہیں ؎ 
تم نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا 
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے! 
بالی وُڈ کی فلموں میں غیر معمولی مقام رکھنے والے نغمہ نگار حسرتؔ جے پوری نے، خالص فلمی انداز ہی سے سہی، خاصی کام کی بات کہی ہے ؎ 
تِری زلفوں سے جدائی تو نہیں مانگی تھی 
قید مانگی تھی، رہائی تو نہیں مانگی تھی 
اسد اللہ خاں غالبؔ نے بھی اسیری کو دورِ غنیمت قرار دیتے ہوئے یہ رائے دی ؎ 
نے تیر کماں میں ہے نہ صیّاد کمیں میں 
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے 
اسیری میں بعض پریشانیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ بہت سے دُکھڑے رونے اور تشویش میں مبتلا رہنے کی عادت یا مجبوری خود بخود دم توڑ دیتی ہے۔ مثلاً غالبؔ ہی کے بقول ؎ 
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم 
گِری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو! 
اسیری کا زمانہ طُول پکڑ لے تو انسان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے میں رہائی بھاتی نہیں۔ یہ کیفیت بیان کرتے ہوئے کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
صیّاد ابھی بابِ قفس بند نہ کرنا 
شاید ہمیں گلشن کی فضا راس نہ آئے! 
فلاحی ریاست کا تصور اگر ڈھنگ سے کہیں پروان چڑھا ہے تو یورپ میں، اور بالخصوص وسطی و مغربی یورپ میں۔ آسٹریا سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک ایسی جیل متعارف کرائی گئی ہے جس میں کچھ وقت گزارنے والے زندگی بھر قید کا مزا بھول نہیں پاتے۔ بات یہ ہے کہ جسٹس سینٹر لیوبین کے نام سے تعمیر کی جانے والی اس جیل میں فائیو اسٹار سہولتیں میسر ہیں۔ قیدیوں کو الگ الگ کمرے دیئے جاتے ہیں جن میں اٹیچڈ باتھ روم اور ٹی وی، میوزک سسٹم وغیرہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ صحت کا معیار بلند کرنے کے لیے جدید ترین سہولتوں سے آراستہ جم بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ جیل میں فراہم کی جانے والی خوراک بھی اعلیٰ ترین معیار کی ہے۔ قیدیوں کو علاج کی بہترین سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ 
اب آپ ہی بتائیے جب ایسی شاندار سہولتیں میسر ہوں تو کون احمق ہوگا جو رہائی پاکر آزاد معاشرے میں نارمل زندگی بسر کرنے کی آرزو کرے گا۔ جہاں رہائی سے اچھی اسیری ہو وہاں لوگ چھوٹے موٹے جرائم کرکے جیل جانے ہی کو ترجیح دیں گے۔ ع 
غمِ جہاں سے رہائی تمھارے درد نے دی 
ہمیں تو قید ہی رکھو، رہائی کیوں چاہیں؟ 
میرزا نوشہ زندگی بھر الجھنوں اور پریشانیوں سے دوچار رہے۔ ایک طرف تنگ دستی تھی اور دوسری طرف گھریلو محاذ پر عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے والے معرکے۔ یہ وہی کیفیت تھی جس کے لیے کبیر داس نے کہا ہے ع 
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے 
حالات کے ہاتھوں تنگ آکر میرزا نوشہ زندگی بھر تقدیر کا شکوہ کرتے رہے ؎ 
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں 
سِوائے خونِ جگر کے جگر میں خاک نہیں 
اے کاش کہ میرزا نے چوسر کھیلنے کی پاداش میں جو وقت دِلّی کے ایک زندان میں گزارا تھا وہی وقت آسٹریا کی فائیو اسٹار جیل میں گزارا ہوتا۔ یہ چند روزہ قید اُن کے سارے شکوے اور تمام دلدّر دور کردیتی۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِس کے بعد غالبؔ کی شاعری میں حالات کا شکوہ یا تو بالکل نہ ہوتا یا پھر اُس شدت کے ساتھ نہ ہوتا جو ہم آج نمایاں طور پر محسوس کرتے ہیں۔ 
آسٹریا میں فائیو اسٹار جیل متعارف کراکے ایک نئے تصور کو جنم دیا گیا ہے۔ یہ تصور ہے اسیری کے زمانے کو پُرتعیش انداز سے گزارنے کے دوران آئندہ زندگی کے لیے بہتر تیاری کا عزمِ صمیم اور جیل سے باہر آنے کے بعد دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش ثابت ہونے کی کوشش کر گزرنا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب جیل ہی میں انتہائی پُرتعیش زندگی بسر کرنے کا اہتمام کردیا جائے گا تو کون کافر باہر آنے کا سوچے گا! 
مرزا تنقید بیگ معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے اس خیال کے حامل ہیںکہ جس نے جرم کیا ہو اُسے ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ وہ آئندہ اُس جرم کے ارتکاب سے توبہ کرلے۔ ہم نے ایک بار اُن کی رائے سے اختلاف کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ شاید یہ بات اِس لیے کہہ رہے ہیں کہ ایک جُرم کی سزا پا رہے ہیں اور خوب پا رہے ہیں۔ ہمارا اشارا گھریلو زندگی کی طرف تھا۔ مرزا نے ہماری بات سمجھنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی اور مکمل اتفاقِ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''جب ہم اپنے کیے کی سزا پوری کی پوری پا رہے ہیں تو پھر دوسرے کیوں محفوظ و مامون رہیں!‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ آسٹریا کی فائیو اسٹار جیل کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان جرم کرنے کے بعد کچھ دن معاشرے سے کٹ کر گزارے، اپنے کرتوت یا کرتوتوں پر غور کرے، شرمندہ ہو، نئے سِرے سے ایسی زندگی بسر کرنے کا عزم کرے جو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش ہو اور جیل سے باہر آئے تو سیدھی راہ پر چلنے کے لیے پوری طرح تیار ہو۔ 
مرزا نے ''حسبِ عادت کے مطابق‘‘ ہماری بات ماننے سے صاف صاف انکار کرتے ہوئے پہلے تو ہماری سوچ پر تھوڑی بہت لعن طعن کی، پھر آسٹریا کے حکام کے بارے میں ذرا کھل کر اظہارِ مذمت کیا اور بولے ''اگر ایسی جیلیں ہوں گی تو لوگ گھر بار چھوڑ کر جیل کے مین گیٹ پر قطار بند ہوجائیں گے۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں کا دھندا چوپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ جیلیں اگر ایسی پُرتعیش ہوں تو ہمارے ہاں کے تسلیم شدہ شرفاء بھی شرافت کی زندگی بسر کرتے رہنے پر قید و بند کی 'صعوبتیں‘ جھیلنے کو ترجیح دیں گے! یورپ کے لوگ فلاحی ریاست کے تصور کو تراش خراش کر پتا نہیں اِس کے کون کون سے پہلو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ انسان کی اصلاح کے لیے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی لازم ہے۔ زمانے بھر کے مزے جیل میں جمع کردیئے جائیں تو 'قیدی‘ خود کو وی آئی پی تصور کریں گے اور اِس کے بعد سُدھرنے کے بجائے جیل ہی میں رہنے کو زندگی کا مقصد بنالیں گے۔‘‘ 
مرزا کی بات ایک حد تک تو درست ہے۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد ہمارے دل میں بھی یہ بات آئی تھی کہ کسی طور آسٹریا پہنچ کر کسی ایسے جرم کا ارتکاب کریں جس کی پاداش میں چار پانچ سال کی سزائے قید اِس فائیو اسٹار میں کاٹنے کا موقع مل جائے! اپنے ہاں آزاد زندگی کی صعوبتیں جھیلتے جھیلتے ہم اَدھ مُوئے ہوچکے ہیں۔ ایسے میں آسٹریا کی اِس فائیو اسٹار جیل کے زمانۂ اسیری کو ہم اپنے اِکّا دُکّا اعمالِ حسنہ کی جزا سمجھ کر بخوشی قبول کرلیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved