انٹرنیشنل اکیڈمی آف لیٹرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب غضنفر ہاشمی کے پُر زور اصرار پر اس کے (غالباً) تاسیسی اجلاس میں شرکت کے لئے براستہ نیو یارک ہیوسٹن پہنچا، تو سینکڑوں پاکستانی نژاد امریکیوں سے بیک وقت ملنے کی سعادت حاصل ہو گئی۔ (ان میں نامور دانشور پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی، مودودی خاندان کے چراغ، حسین، ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری کے داماد ڈاکٹر اسامہ اور ڈاکٹر ریاض قدیر مرحوم کے فرزند ڈاکٹر آصف ریاض قدیر اور پاکستان کی قونصل جنرل محترمہ عائشہ جیسے جیّد لوگ شامل تھے)۔ نیو یارک میں برادرم ذاکر نسیم اور معوذ صدیقی صاحبان کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔ اکنا (ICNA) کے صدر دفتر میں گزرے زمانے کے طالب علم رہنما طارق شیلے کے (ظہرانے) اور آصف نور اور اختر محمود صاحبان کے عشائیوں میں ممتاز پاکستانی امریکیوں سے تبادلہ ٔ خیال کا موقع ملا۔ برادرِ عزیز عارف سونی نے ''مرچ مصالحہ‘‘ میں جو کہ تبسم بٹ صاحب کا پاکستانی دستر خوان ہے، ظہرانے کا اہتمام کیا، جس میں خالد منیر چودھری‘ جناب خالد مسعود کے ہمراہ فلاڈیلفیا سے چل کر آئے اور قلب و نظر کو مہکا دیا۔ ہر جگہ پاکستانی سیاست تعاقب کرتی رہی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی، پاکستان سے نکلے ہیں لیکن پاکستان ان کے (دِل سے) نہیں نکلا۔ وہ زیادہ شدت کے ساتھ اس کے معاملات میں اُلجھے رہتے ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ان کی بہت سی مشکلات آسان کی ہیں، تو بہت سی پیدا بھی کر دی ہیں۔ اب ان کو پاکستانی اخبارات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کھٹا کھٹ ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دور کے ڈھول ان کے لیے سہانے یوں نہیں رہے، کہ اب یہ قریب بجتے سنائی دیتے ہیں، اور بسا اوقات انہیں کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا پڑتی ہیں۔ وہ پاکستانی میڈیا کا موازنہ امریکی میڈیا سے کرتے، دہشت گردی اور مجرمانہ وارداتوں کی کوریج پر کانوں کو ہاتھ لگاتے چلے جاتے ہیں۔ امریکہ میں جو مناظر رات گئے نہیں دکھائے جا سکتے، ہمارے ہاں دن دیہاڑے سنائے اور دکھائے جاتے ہیں۔ اغوا اور قتل کی وارداتیں مرکزی بلیٹنز میں نمایاں نشر ہو کر ان کا دِل دہلاتی چلی جاتی ہیں۔ ہم پاکستان کے رہنے والے تو بد خبریوں کے عادی ہو چکے ہیں، میڈیا ملاوٹ سے بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں جس طرح غذا، اور دوا کی ملاوٹ سے، لیکن ان بھائیوں کی عادتیں ''خراب‘‘ ہو چکی ہیں، خالص دودھ آسانی سے نہیں مل پاتا تو خالص تجزیے کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں؟
اسلام آباد میں حضرت علامہ خادم حسین رضوی کے دھرنے کے اثرات سے ہمارے امریکی پاکستانی یا پاکستانی امریکی ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ انہیں یقین نہیں آ پا رہا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں جو کچھ ہوا، اور جس تحریری معاہدے پر حکومت رضا مند ہوئی، اس کے بعد بھی مضبوط دفاع کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ چند سو مظاہرین کے سامنے ڈھیر ہو جانے والی ریاست اپنی آزادی اور خود مختاری کا یقین دِلا سکتی ہے؟ ہر شخص کی زبان پر یہی سوال تھا کہ مستقبل میں کیا ہو گا، کیا اِسی طرح جتھے تقدیر کے فیصلے کیا کریں گے؟ کیا پارلیمنٹ اور عدالت میں بحث کے بجائے دھرنا دے کر ''احکامات‘‘ حاصل کیے جائیں گے۔ پوچھا جا رہا تھا کہ پاکستانی دستور کی کون سی شق کے تحت یہ روا ہے؟ اب عام انتخابات کے انعقاد کی ضرورت اور اہمیت کیا باقی رہ گئی ہے؟ سیاسی جماعتیں بنانے، اور ان کی تنظیم میں سر کھپانے کی ضرورت کیا ہے؟ بس اپنا جتھہ بنائیے، خوب صورت نعرے ایجاد کیجیے، مذہب کا جھنڈا اٹھائیے اور سڑکوں پر بیٹھ کر کاروبارِ زندگی معطل کر دیجیے... پولیس، رینجرز، فوج سب ہاتھ اٹھا لیں تو ریاست نام کی شے کو کہاں ڈھونڈا جائے گا؟
ہیوسٹن سے کانگرس کی رکنیت کے امیدوار طاہر جاوید نے تقریب سے اولین خطاب کیا، اور یہی نکتہ پورے شد و مد سے اٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مَیں ہر طرح کا خطرہ مول لے کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سیاست کو مذہب سے الگ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں نظر ثانی کرنا ہو گی، اور ''جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کو اس طرح بدلنا ہو گا کہ ''دین سیاست سے ملے تو چنگیزی آ جاتی ہے‘‘۔ اس پر مجھے عرض کرنا پڑا کہ، آپ کا اضطراب قابلِ قدر ہے، لیکن حل وہ نہیں ہے، جو آپ تجویز کر رہے ہیں۔ بھارت کا آئین سیکولر ہے، وہاں مذہب اور سیاست کو الگ الگ کر دیا گیا ہے، لیکن کیا عملاً بھی ایسا ہے؟ کیا گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں انسان قتل نہیں ہو رہے؟ گوشت کھانا یا ذبح کرنا تو الگ، صرف گائے کی خرید و فروخت جرم نہیں بن چکی؟ کیا بھارت سیکولر نعرے لگا کر ایک مثالی ریاست بن گیا ہے؟ اور کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ جو سر تا پا ایک سیکولر ریاست ہے، عراق پر غیر قانونی حملے کی مرتکب نہیں ہوئی؟ کیا اس کے اس اقدام کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی اور بے گھر نہیں ہوئے؟ کیا اسی کے اثرات نے شام، لیبیا اور دوسرے ممالک میں تباہی نہیں مچائی؟ سیکولر کا لفظ کوئی ایسا جادو نہیں ہے کہ جسے اپناتے ہی معاشرے میں امن اور سکون کا راج ہو جائے۔ پاکستان کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ مذہب کو ایک نجی معاملہ قرار دیتے ہی اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھے گا۔ مذہب کا استحصال کرنے والوں کو مذہب کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی وجہ مذہب نہیں سیاست ہے۔ اداروں کے درمیان کشمکش ہے۔ اس کا علاج ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اگر ادارے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے، اور ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کے در پے رہیں گے، تو پھر ڈیموکریسی کے بجائے ہر طرح کی کریسی دیکھنے کو ملے گی۔ ''دھرنا کریسی‘‘ ایک علامت ہے، بذاتِ خود مرض نہیں ہے۔ میری بات کتنے دوستوں کی سمجھ میں آئی، یہ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن اثبات میں ہلتے ہوئے سروں نے حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔ امریکہ سے واپس پہنچا ہی تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر کے اسرائیلی جارحیت پر اپنی مہر بھی لگا دی۔ دُنیا بھر میں اس پر احتجاج ہو رہا ہے، مسلمان ہی نہیں، ہر انصاف پسند شخص سراپا احتجاج ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اقوام متحدہ میں امریکی مندوب اقوام متحدہ پر برس پڑی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ، یعنی دُنیا بھر کی اقوام اسرائیل کی دشمن ہیں گویا، اسرائیل اور اس کا مربّی امریکہ دو نفری جمہوریت دُنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام عالم ایک طرف، اور یہ دونوں ایک طرف۔ یہی کٹ حجتی تو ''دھرنا کریسی‘‘ کی ماں ہے!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
بیرون ملک مقیم پاکستانی، پاکستان سے نکلے ہیں لیکن پاکستان ان کے (دِل سے) نہیں نکلا۔ وہ زیادہ شدت کے ساتھ اس کے معاملات میں اُلجھے رہتے ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ان کی بہت سی مشکلات آسان کی ہیں، تو بہت سی پیدا بھی کر دی ہیں۔ اب ان کو پاکستانی اخبارات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کھٹا کھٹ ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دور کے ڈھول ان کے لیے سہانے یوں نہیں رہے، کہ اب یہ قریب بجتے سنائی دیتے ہیں، اور بسا اوقات انہیں کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا پڑتی ہیں۔ وہ پاکستانی میڈیا کا موازنہ امریکی میڈیا سے کرتے، دہشت گردی اور مجرمانہ وارداتوں کی کوریج پر کانوں کو ہاتھ لگاتے چلے جاتے ہیں۔