تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-12-2017

علماء اور مدارس

مدارس کو بدلنا ہو گا...اور اس طرح کہ اس میں سے جنرل اٹھیں‘ ظفر الطاف ایسے افسر اور صلاح الدین ایسے اخبار نویس۔ دوسرے شعبوں کے شہسوار بھی!
اب تو ایسی مخلوق مدارس پیدا کرتے ہیں دوسروں میں جو گھل مل ہی نہیں سکتی۔ ایک عشرہ ہوتا ہے‘ خلیل ملک مرحوم اور خورشید ندیم کے ساتھ ایک ملاقات میں‘ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا: دیوبند اصل میں ایک سیاسی تحریک ہے۔ دونوں باتوں کو ملا کر دیکھئے۔ کیا اس طرح معاشرہ تخریب کا شکار نہ ہوگا؟ پھر یہ کہ ایک مذہبی مکتبِ فکر اقتدار پر مسلّط ہونے کی کوشش کرے گا تو کیا دوسرے نہ کریں گے۔ درحقیقت پہلے سے کر رہے ہیں۔
مکتبِ دیوبند کی سیاسی جماعتیں ہیں تو اہلحدیث مکتب فکر کی بھی۔ اسی طرح فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کی بھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں بریلوی اندازِ فکر کی پارٹی مدتوں مؤثر رہی۔ مولانا خادم حسین رضوی کی قیادت میں اکثریت سے ہم آہنگ یہ گروہ‘ ایک بار پھر انگڑائی لے کر اٹھا ہے۔ اس طرح کہ در و دیوار اس نے ہلا کر رکھ دیئے۔ امکانات کی فصل لہلہاتی پا کر‘ بریلوی دنیا کے کچھ اور عمائد بھی اٹھے ہیں۔ خانقاہوں کے شیخ بھی۔ بعض اس قدر با رسوخ ہیں کہ پیر صاحب سیال شریف کی جیب میں نون لیگ کے ایک درجن ارکانِ اسمبلی کے استعفے رکھے ہیں۔ خادم حسین رضوی کی کامیابی نے اقتدار کی جنت ذہنوں میں اگا دی ہے۔ اقتدار ایسی کمزوری ہے کہ پیرِ فرتوت کو بھی جواں کر دے۔ وہ جو ساحر لدھیانوی نے جاگیردار کی زبان سے کہلوایا تھا:
ان کی محنت بھی مری‘ حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے‘ قوت بازو بھی مری
میں خداوند ہوں‘ اس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری‘ نکہتِ گیسو بھی مری
بار ہا عرض کیا کہ مذہب واقعی کارفرما ہو تو مذہبی طبقے کا وجود نہیں ہوتا۔ عہدِ زوال میں یہ اٹھتا ہے۔ ختم المرسلینؐ سے لے کر‘ جناب علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ تک‘ کہیں کسی مولوی کا ذکر نہیں۔ کوفہ میں کچھ واعظ ابھرے تو امیر المومنینؓ نے انہیں چلتا کیا۔ حکم صادر کیا اور ان کی زبان بند کر دی۔ اظہارِ ذات کے تمنائی یہ کم کوش اور کم علم لوگ تھے۔ انجیل مذہبی پیشوائوں کی ریاکاری کے ذکر سے بھری ہے‘ ریاکاری کیا‘ منافقت ''تم مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہو‘‘۔ ان کے باب میں قرآنِ کریم کا لہجہ اور بھی سخت ہے۔ یک قلم وہ انہیں مسترد کرتا ہے۔
کیا علماء کی ہمیں ضرورت نہیں؟ کیوں نہیں‘ سچّے عالم دین کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہی اخلاق کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ رحمۃ للعالمین کے وارث ہیں۔ سرکارؐ نے فرمایا: میری امت کے علماء بنو اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ علم کی دنیا میں وہ ہمارے رہبر اور ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ جب الجھ جائو تو ''راسخون فی العلم‘‘ کے پاس جائو۔ عمر فاروقِ اعظمؓ‘ جناب عبداللہؓ بن مسعود کو عزیز رکھتے۔ نمازِ شب کے بعد‘ عمرؒ بن عبدالعزیز دمشق کے اہلِ علم سے مکالمہ کرتے رہتے‘ حتیٰ کہ تھکاوٹ آ لیتی۔ امیر المومنین ہارون رشید سفیان ثوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا اور کبھی ان سے درخواست کرتا کہ انہیں فضیل بن عیاضؒ کے ہاں لے جائیں‘ سلاطین سے جو نفور تھے۔ علماء اور بادشاہوں میں غیر معمولی فاصلہ نہ ہوا کرتا۔ ہندوستان کے عظیم ترین شہنشاہوں میں سے ایک غیاث الدین بلبن نے اپنی بیٹی خواجہ فریدالدین شکرگنجؒ سے بیاہ دی تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن منظر وہ تھا جب دلّی سے ملتان جاتی سپاہ نے خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کی فرمائش کی۔ ایک لاکھ کی دلاور سپاہ‘ دنیا بھر میں جو اپنی نظیر آپ تھی‘ ایک فقیر کے سامنے سر جھکائے گزری۔ کہا جاتا ہے کہ اوّل تو خواجہؒ نے کچھ سے ہاتھ ملایا‘ پھر اپنا کُرتا اتار کر لٹکا دیا کہ چھوتے ہوئے گزر جائیں۔
اہلِ علم کے آستانوں پر تعویذ کے لئے وہ نہیں جایا کرتے تھے۔ تعویذ کا اسلام میں کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ بعد کی اختراع ہے۔ محض دعا کی خاطر بھی نہیں بلکہ رہنمائی اور مشورے کے لیے...اور وہ اس قابل تھے کہ مشورہ دے سکتے۔ جہان بانی کے رموز سے وہ آشنا تھے۔ آدمیوں اور قبیلوں کو وہ بادشاہوں سے زیادہ جانتے تھے کہ ان میں گھل مل کے رہتے۔ ہر کوئی اپنا دل ان کے سامنے کھول کے رکھ دیتا۔ اقتدار سے شغف تو دور کی بات ہے‘ مال و دولتِ دنیا سے انہیں واسطہ ہی نہ تھا۔ ایک بار‘ سونے کی آخری اشرفی فرید الدین شکرگنجؒ نے خواجہ معین الدین چشتیؒ کو عطا کردی تھی۔
علماء سر آنکھوں پر‘ مذہبی رہنما ہرگز نہیں۔ جمعیت علماء ہند اور احرار کو مسلم برصغیر نے مسترد کر دیا‘ درآں حالیکہ ان کے بعض رہنما‘ پہاڑوں ایسے بلند قامت نظر آتے۔ سید ابو الااعلیٰ مودودیؒ کے قلم نے جادو جگا دیا تھا کہ اقبالؔ بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ گھن گرج سے بے نیاز خطابت کا ایک الگ انداز کہ مجمع پر سکوت چھایا رہتا۔ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان۔ خوش لباس‘ خوش گفتار۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ بانٹ دیتے...اور خاموشی سے۔ اس کے باوجود قبول نہ کئے گئے۔ جہاں بانی ایک اور چیز ہے۔ جس کے لیے ہندی کا لفظ بڑا ہی جامع ہے ''راج نیتی‘‘ اگرچہ ہم مغرب کے مارے ''گورننس‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسلم عوام نے علماء کو اقتدار سونپنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ سید صاحب کے خلاف‘ سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی کہ وہ وہابی ہیں‘ حالانکہ ہرگز نہ تھے؛ اگرچہ رحیمی مکتبِ فکر اور اس کے وارث دیوبند سے یقینا متاثر تھے۔ دلچسپ یہ ہے کہ دیوبندی علماء کا احترام انہوں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا‘ مگر انہی نے سیّد کی سب سے زیادہ مخالفت کی‘ عناد کی حد تک!
افغانستان کے علماء سے اقبال کو بہت حسنِ ظن تھا۔
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
وقت آیا تو انہوں نے امیدوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے۔ ایرانی علماء پڑھے لکھے زیادہ ہیں‘ بظاہر مرتب اور مہذب۔ ان کی حکومت مگر آمرانہ ہے۔ اسمٰعیل صفوی اور رضا شاہ پہلوی سے کم‘ مگر آمرانہ ہی۔
مدارس سے کیا بیکار لوگ اٹھتے ہیں؟ کیا مسخ شدہ ذہن ان میں پیدا ہوتے ہیں؟ بالکل نہیں‘ بعض قابلِ رشک ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر‘ مدارس کے تعلیم یافتگان کی بعض ایسی تحریریں پڑھیں کہ دنگ رہ گیا۔ فصاحت بھی‘ استدلال بھی‘ بعض میں روحِ عصر کی پکار بھی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یاد دلایا ہے کہ ترکیہ کے غالب وکار آفرین صدر طیب اردوان نے ایک مدرسے میں تعلیم پائی تھی۔ اسلام آباد کے اُس مدرسے میں بارہا جانے کا موقع ملا‘ جس کے طلبہ جدید نصاب بھی پڑھتے ہیں۔ اسلام آباد ایجوکیشن بورڈ کی 20 اعلیٰ پوزیشنوں میں سے اکثر دس سے زیادہ وہ جیت لیتے ہیں۔ یاللعجب ہیں بھی وہ دیوبندی‘ زیادہ قدامت پسند جو سمجھے جاتے ہیں۔
مدارس کو اکھاڑ کر پھینکا نہیں جا سکتا۔ یہ اندازِ فکر ہی غلط ہے۔ ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ بتدریج اور مرحلہ وار۔ یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے اور حکومت کی بھی۔ ہمارے یہ بچے دوسروں سے کم ذہین نہیں‘ مگر کچھ عسرت کے مارے‘ کچھ واقعی روحانیت کے آرزو مند۔ حکومتیں بے نیاز ہیں۔ تئیس ہزار مدارس میں سے پانچ چھ ہزار کی رجسٹریشن ہی نہیں ہو سکی۔ شریف حکومت سوئی رہی۔ کیوں فوجی اور سول افسر ان میں پیدا نہیں ہو سکتے۔ اگر وہ انگریزی‘ ریاضی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تاریخ پڑھ سکیں؟ کیوں نہیں؟؟؟
فرقہ واریت سنگین مسئلہ ہے۔ علماء کے مشورے سے اس کا تدارک چاہئے۔ مجبوری آن پڑے تو سختی سے کام بھی لینا ہو گا۔ سپاہِ صحابہ نے انہی مدارس میں جنم لیا۔ دہشت گرد البتہ صرف ان میں پیدا نہیں ہوتے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی۔ ویسے شمال میں ان کی اکثریت نیم خواندہ ہے۔ سیاستدانوں میں دم خم نہیں۔ اس سلسلے میں ایک مربوط اور قابل عمل لائحہ عمل فوج ہی کو مرتب کرنا ہوگا‘ اس کی ایجوکیشن کور کو۔
علماء کو جبراً سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تاریخی عمل میں ہوگا اور ہو کر رہے گا۔ مدارس کو بدلنا ہو گا...اور اس طرح کہ اس میں سے جنرل اٹھیں‘ ظفر الطاف ایسے افسر اور صلاح الدین ایسے اخبار نویس۔ دوسرے شعبوں کے شہسوار بھی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved