تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-12-2017

آپ کے خواب

مریم نواز
کیا دیکھتی ہوں کہ میں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے اور اپنے میڈیا سیل کے جملہ اراکین سے حلف لے کر اُنہیں مختلف وزارتوں کے قلمدان سپرد کر دیئے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے تاکہ وہ ناراض کارکنوں کے غیظ و غضب سے محفوظ رہیں۔ ابھی ابھی والد صاحب سے ملاقات کر کے آئی ہوں جن کے لیے نہاری‘ روغن جوش اور پائے بطور خاص بنوا کر لے گئی تھی جو انہوں نے خود بھی ذوق و شوق سے کھائے اور قیدیوں میں بھی تقسیم کئے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ اکیلے کھاتے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ چُورن اور پھکی کے ڈبے بھی ہمراہ لے کر گئی تھی جو انہوں نے قیدیوں میں بھی تقسیم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ چھٹی کے دن جب میں باہر نکلتا ہوں تو باہر سارے قیدی میرے منتظر ہوتے ہیں جو مجھے دیکھتے ہی نعرے لگانے لگتے ہیں کہ دیکھو دیکھو کون آیا‘ شیر آیا‘ شیر آیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں قیدیوں میں بیحد مقبول ہوں بلکہ میرے ساتھ کورس میں یہ ترانہ بھی گایا ''مجھے کیوں نکالا‘ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ قیدی فرمائش کر کے مجھ سے گانے بھی سنتے ہیں‘ پتا نہیں انہیں کسی نے بتا دیا کہ میں گانا بھی خوب گاتا ہوں اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ قوم میں موسیقی کا ذوق و شوق تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ میری کوششوں سے دیگر معاملات کے علاوہ میوزک نے بھی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ میں نے جیل میں ایک کتاب بھی لکھنا شروع کر دی ہے کیونکہ اگر جاوید ہاشمی جیل میں کتاب لکھ سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں لکھ سکتا۔ کتاب کا نام ہو گا ''میں بھی باغی ہوں‘‘ پہلے تو میں نے اس کا نام 'ہیں جی؟‘ رکھنا چاہا کیونکہ یہ میرا ماشاء اللہ تکیہ کلام بھی ہے جسے ساری دنیا خوب اچھی طرح سے جانتی ہے‘ پھر سوچا کہ یہ نام اس کے بعد والی کتاب کا رکھ لوں گا کیونکہ جتنی مہلت میرے پاس موجود ہے میں پندرہ بیس کتابیں تو لکھ سکتا ہوں۔ چھٹی والے دن تمام قیدی میرے ساتھ مل کر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بددعائیں بھی مانگتے ہیں‘ اور یہ کام اُن کے خلاف لگائے جانے والے نعروں کے علاوہ ہے۔
آتے وقت‘ یعنی میرے واپس آتے وقت‘ انہوں نے تاکید کی کہ اپنے رشتہ داروں کا خاص خیال رکھنا۔ اتنے میں ایک قیدی نے میرے کان کے قریب آ کر ''قدم بڑھائو نواز شریف‘‘ کا نعرہ اتنے زور سے لگایا کہ میری آنکھ کھُل گئی۔
عمران خاں
کیا دیکھتا ہوں کہ ساری نواز لیگ اندر ہو چکی ہے اور میں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے اور ساتھ ہی شیخ رشید احمد کو نائب وزیراعظم کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے جنہیں میں نے کہا تھا کہ اگر گورنر پنجاب لگنا ہے تو وہ لگا دیتا ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ میرے لیے دونوں عہدے مناسب رہیں گے کیونکہ حصہ بقدر جثہ کا خیال رکھنا بھی بقول ان کے ضروری ہے‘ چنانچہ اب وہ دونوں عہدوں پر کام کریں گے۔ کابینہ کے باقی عہدے بھی میرے حساب سے تقسیم کرنے کے علاوہ‘ مولانا فضل الرحمن اور عائشہ گلالئی کو 16 ایم پی او کے تحت 90 روز کے لیے اندر کر دیا ہے اور یہ تاکید بطور خاص کی ہے کہ سب کو اکٹھے نہیں بلکہ الگ الگ جیلوں میں رکھا جائے۔
ملک میں ''تبدیلی آ گئی ہے‘‘ کے بڑے بڑے بورڈ لکھوا کر ہر شہر کی نمایاں جگہوں پر آویزاں کر دیئے گئے ہیں اور میرے وزیراعظم بننے کے بعد قوم کو کسی اور تبدیلی کی ضرورت بھی کیا ہے۔ بزرگوار ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان کا عالمی سفیر مقرر کیا گیا ہے اور وہ دنیا بھر میں ہمارے گشتی سفیر کے طور پر کام کریں گے۔ لفظ ''گشتی‘‘ پر اُنہیں اعتراض تھا جسے ''موبائل‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں زیادہ رہنا پسند بھی نہیں کرتے۔ مزید برآں چاروں صوبوں سے کارکنوں کی فہرستیں طلب کر لی گئی ہیں تاکہ انہیں مناسب عہدے سونپ دیئے جائیں۔ ترین صاحب سے روزانہ ملاقات کے لیے علیم خاں صاحب کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے کہ ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے‘ جنہوں نے نہایت خوش دلی سے اپنے ہوائی جہاز کی بھی پیشکش کر دی ہے حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ بنی گالہ والے گھر کو اپنے کیمپ آفس میں تبدیل کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں جو مسلم لیگی زعماء اندر ہونے سے رہ گئے ہیں۔ اُن کی فہرستیں بھی طلب کر لی گئی ہیں تاکہ نیب سے کہا جائے کہ اللہ کا نام لے کر ان کی فائلیں بھی کھول دیں کیونکہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
اسی دوران سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے درخواست بھجوائی ہے کہ انہیں بی کلاس کی سہولتیں دی جائیں جسے میرے دفتر سے اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ موصوف کے شناختی کارڈ کی کاپی نہیں ہے کیونکہ میرے عہد میں ہر کام ضابطے کے مطابق ہو گا‘ میرے حلف اُٹھاتے ہی ملک سے کرپشن فوری طور پر ختم ہو گئی ہے۔ ابھی ابھی شیخ صاحب نے کھانا کھا کر اس زور کا ڈکار لیا کہ میری آنکھ کھل گئی!
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر اس ہفتے کی تازہ غزل :
دل پر جو انحصار ہے دُنیا بھی کم نہیں
خالی خلا تو ہے ہی‘ تماشا بھی کم نہیں
ہنگامہ گرم آپ نے بھی کر رکھا تو ہے
دیکھیں اگر تو کام ہمارا بھی کم نہیں
کچھ اِس طرف بھی تیری توجہ ہوئی تو ہے
کچھ رنج ہم نے تیرا اُٹھایا بھی کم نہیں
رہتی ہے‘ سچ کہوں‘ کسی تقریب کی تلاش
ویسے تو میں اُدھر سے گزرتا بھی کم نہیں
دُنیا میں رہ کے دیکھنا تو چاہیے ضرور
چاروں طرف بُرا ہے تو اچھا بھی کم نہیں
سب کچھ لُٹا کے بیٹھے ہوئے ہیں یہاں‘ مگر
یہ بھی تو ہے کہ ہم نے کمایا بھی کم نہیں
تخریب کار بھی ہمیں کہتے رہو‘ مگر
توڑا ہے بے شمار‘ بنایا بھی کم نہیں
سننے‘ سمجھنے کو کوئی تیار ہی نہ تھا
حالانکہ ہم نے شور مچایا بھی کم نہیں
لپٹی ہوئی ہے اب بھی ظفرؔ دل سے اُس کی یاد
ویسے تو ہم نے اُس کو بھُلایا بھی کم نہیں
آج کا مطلع 
نہیں کہ اونچی ہوا میں کبھی سفر نہ کیا
نظر زمیں پہ رکھی‘ نازِ بال و پر نہ کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved