چوہدری نثار علی نگران وزیراعظم کے لیے دیئے گئے تین ناموںکے معاملے میں کچھ زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ انہیں ضد ہے کہ جو نام انہوں نے دیئے ہیں‘ وہ سب اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ ان پر اعتراض کرنے والوں کو ڈانٹتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ’’کیا ہم جہانگیربدر اور کائرہ کے نام دیں؟‘‘ پیپلزپارٹی کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ جس طرح چوہدری صاحب کو جہانگیربدر اور کائرہ کے نام‘ غیرموزوں لگتے ہیں‘ اسی طرح پیپلزپارٹی والوں کو بھی مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ نام‘ مخالف پارٹی کے جہانگیربدر اور کائرہ لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ ناموںپر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ نام دینے کا مقصد پیپلزپارٹی کو مخمصے میں ڈالنا ہے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔ پیپلزپارٹی واقعی مخمصے میں ہے۔ وہ رسول بخش پلیجو کا نام قبول کرتی ہے‘ تو اسے ہر طرح کے خطرات کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے۔ پلیجوصاحب کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ ایک ہی اعلان میں پاکستان کی فیڈریشن کو کنفیڈریشن بنا کے رکھ دیں یا ملک کی ساری قومیتوں کو آزادی عطا فرما دیں۔ وہ محض سیاستدان نہیں‘ ایک مفکر بلکہ سیاسی فلسفی ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ آئین کیا پابندیاں لگاتا ہے؟ یا نگران وزیراعظم بننے کے لیے انہوں نے کیا حلف اٹھایا ہے؟ وہ اپنے تصورات کی دنیا میں رہتے ہیں اور یہ وہ دنیا ہے‘ جس پر انسان اپنی مرضی سے حکم چلاتا ہے اور اس حکم کی تعمیل کرنا ‘ تصورات کی دنیا میں پائے جانے والے ہر کردار کا فرض ہوتا ہے۔ پلیجو صاحب سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ شام کے زرخیزلمحات میں‘ اپنے ملک ہی کو ایک تصوراتی حقیقت سمجھتے ہوئے سارے کرداروں کو بھی خیالی سمجھ لیں اور پھر جس کے ساتھ جو سلوک مناسب سمجھیں کرتے رہیں۔ اس معاملے میں نوازشریف‘ آصف زرداری اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ آصف زرداری اگر چاہیں تو پلیجو صاحب کے نام پر اتفاق کر کے‘ نوازشریف کومصیبت میں ڈال سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود ان کامصیبت میں پھنس جانے کا پورا امکان ہے۔ دیگر جن دو حضرات کے نام دیئے گئے ہیں‘ وہ ایک قابلِ احترام پیشے سے وابستہ رہے ہیں اور اس پیشے کی روایتی دیانت کا تقاضا ہے کہ دونوں حضرات خود ہی یہ پڑھ کر کہ ان کے نام نگران وزیراعظم کے لیے پیش کئے گئے ہیں‘ یہ منصب قبول کرنے سے انکار کر سکتے تھے۔ انہیں ایسا کرنا ہی چاہیے تھا۔ کیونکہ نگران وزیراعظم کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح غیرجانبدار ہو۔ کسی بھی ایک فریق کے ساتھ اس کا تعلق یا جھکائو نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو یہ شک ہونا چاہیے کہ مجوزہ شخصیت‘ کسی بھی تعلق کی بنا پر‘ اس کے مخالفین کی طرف مائل ہو سکتی ہے۔ اس معیار پر اگر جسٹس ناصر اسلم زاہد کو پرکھا جائے‘ تو انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے‘ مبینہ حملے کے کیس کی سماعت کی تھی اور تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچا تھا۔ وہ سارے کردار جو ٹیلیویژن کی فٹیج میں واضح طور سے حملہ آوروں میں دکھائی دے رہے تھے‘ ان میں سے نمایاں افراد بچ گئے جبکہ وہ کارکن جو پارٹی کے اندر اعلیٰ پوزیشن نہیں رکھتے تھے‘ قربانی کے بکرے بنا دیئے گئے۔ اسی طرح ناصر اسلم زاہد‘ اس ٹریبونل کے بھی سربراہ تھے جو کراچی میں فائرنگ سے مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت کی انکوائری کر رہا تھا۔ بے نظیر شہید اور آصف زرداری‘ دونوں ہی اس ٹریبونل کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے۔ ایک ایسے شخص کو جو بے نظیر شہید کے بھائی کی ہلاکت کے معاملے کی تحقیقات پر مامور‘ ٹریبونل کا سربراہ رہا ہو اور وہ ٹریبونل اصل قاتلوں کی نشاندہی بھی نہ کر پایا ہو‘ اسے آصف زرداری ایک غیرجانبدار نگران وزیراعظم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ یہ تو بالکل ایسے ہے‘ جیسے پیپلزپارٹی چوہدری پرویزالٰہی کا نام بطور نگران وزیراعظم پیش کر کے‘ نو ازشریف سے یہ امید رکھے کہ وہ انہیں قبول کر لیں گے۔ دوسرا نام منظوروٹو کا دیا جا سکتا ہے ۔ن لیگ نے دوسرا نام ایک سکالر کی حیثیت سے رسول بخش پلیجو کا دیا ہے۔ جواب میں پیپلزپارٹی‘ شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کا نام بطور سکالر پیش کر سکتی ہے۔ پلیجو صاحب نے تو ابھی الیکشن سے الگ رہنے کا اعلان نہیں کیا۔ ہمارے شیخ الاسلام تو واضح طور سے کہہ چکے ہیں کہ وہ خود انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ ناموں میں تیسرے جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا اصرار ہے کہ انہیں بھی غیرجانبدار سمجھا جائے۔ لیکن ان کا ماضی دیکھ کر بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے خلاف کئی مقدمات کی سماعت کی‘ جن کی وجہ سے حکومت دبائو میں رہی اور سپریم کورٹ پر جانبداری کے الزامات بھی عائد کئے گئے۔ان مقدمات میں حکومت کی جانب سے جسٹس میاں ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے علاوہ‘ حکومت کی طرف سے ممکنہ طور پر ججوں کی بحالی کا نوٹس واپس لینے سے متعلق ازخود نوٹس پر کارروائی شامل ہے۔ سابق جسٹس شاکر اللہ جان ‘ این آر او کو کالعدم قرار دینے والے بنچ میں بھی شامل رہے ہیں۔ اس کیس کے دوران غیر رسمی تبصروں میں صدر زرداری کو جس طرح ہدف بنایا گیا اور حکومت کی طرف سے وکالت کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ اسے پیپلزپارٹی والے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ اگر مقدمے کی کارروائی کو دیکھا جائے اور اسے سننے والے جج حضرات کی باتوںکو یاد کیا جائے‘ تو واضح ہوتا ہے کہ صدر کے وکیلوں کو صدارتی استثنیٰ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی راستہ نہیں دیا جا رہا تھا۔ لیکن آخر میں کیا ہوا؟ سپریم کورٹ نے خود ہی سوئس عدالت کو خط لکھنے کا حکم دے کر ہدایت کی کہ خط کا مسودہ اسے دکھایا جائے۔ خط کا مسودہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس میں صدر کے استثنیٰ کا ذکر موجود تھا۔ سپریم کورٹ نے خط کا یہ مسودہ پاس کر دیا۔ وہ خط لکھ دیا گیا اور معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اس مقدمے کو طول دینے سے حکومتی کارکردگی پر جو اثرات پڑے اور ملک و قوم کو اس کے جو نتائج بھگتنا پڑے‘ ان کا حساب کسی سے نہیں مانگا جا سکتا۔ جسٹس شاکراللہ جان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جیسے ہی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا‘ تو جسٹس شاکراللہ جان نے جو اس وقت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تھے‘ بلاتاخیر یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس طرح انہیں نااہلی کے خلاف اپیل کر کے‘ اس کے فیصلے تک وزارت عظمیٰ بچانے کا موقع نہیں دیا۔ اس طرح کا متنازعہ اور مبنی برعناد نوٹیفکیشن جاری کرنے والے شخص کو پیپلزپارٹی تو کیا؟ کوئی بھی صاحب فہم شخص غیرجانبدار نہیںسمجھ سکتا۔ چوہدری نثار علی صاحب نے انہیں بھی غیرجانبدار قرار دیتے ہوئے‘ نگران وزیراعظم کے لیے منتخب کیا اور انہیں یہ اصرار بھی ہے کہ ان کے نامزد کردہ تینوں حضرات ‘ نگران وزیراعظم کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے چوہدری صاحب نے خود ہی پیپلزپارٹی کو اشاروں کنایوں میں مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے نام تجویز کر دیں‘ جیسے خود چوہدری صاحب نے تجویز کئے ہیں۔ یعنی جہانگیر بدر اور قمر زمان کائرہ۔ تیسرا نام وہ چھوڑ گئے‘ جو صابر بلوچ یا شرجیل میمن کا ہے۔ دونوں طرف کے مذکورہ تین تین نام سامنے رکھے جائیں‘ تو واضح ہو جاتا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں قومی معاملات کو کتنی سنجیدگی سے دیکھتی ہیں؟ ابھی تحریک انصاف کی طرف سے ایک نام آنا ہے۔ بہتر ہو گا اگر چوہدری نثار علی خان کو جاوید ہاشمی کا نام بھیج دیا جائے۔میں اپنی طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے ایک نام پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ لیکن وہ اگلی نشست میں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved