تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     11-12-2017

کرپشن اور سیاست

آصف زرداری اور طاہرالقادری کی ملاقات کچھ لوگوں کے لئے شاید حیرانی کا باعث بنی ہو لیکن عام لوگوں کے لئے یہ کوئی غیر معمولی خبر نہیں تھی۔ آج اِس تنزلی کے عہد میں اگر کچھ بظاہر حیران کن ہے تو یہ حقیقت کہ مروجہ مفکروں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے کہیں زیادہ بلند شعور محنت کش عوام رکھتے ہیں۔ یہ عوام اپنی معاشی بدحالی سے وقتی طور پر نڈھال ضرور ہیں لیکن سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور بہتوں کو پہچان چکے ہیں۔ مشرف کی نیم آمریت کے بعد ایک دہائی کی 'جمہوریت‘ نے انہیں اسی نتیجے پر پہنچایا ہے کہ دکھایا کچھ جاتا ہے اور ہوتا کچھ اور ہی ہے۔ فیصلے کوئی کرتا ہے اور کروانے والے کوئی اور ہی ہوتے ہیں۔ دھرنے بٹھانے اور پھر اُٹھانے کے فیصلے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ 
نواز شریف کو برطرف کرنے یا کروانے کے بعد اِس نام نہاد اپوزیشن کی سیاست کو کوئی نیا موضوع نہیں ملا۔ نواز لیگ ہی ایسا سافٹ ٹارگٹ ہے جس پر زیادہ تر سیاست اور صحافت ہو رہی ہے۔ یہ کلاسیکی طور پر سرمایہ داروں کی پارٹی ہے لیکن اِس پر زیادہ تر حملے دائیں بازو کی سیاست اور فکر سے ہو رہے ہیں۔ نواز لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی سنجیدہ تحریک اِس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی بنیاد پر ہی برپا ہو سکتی تھی، جس سے اِس پارٹی کی درمیانے طبقے میں موجود بنیادیں ہی اکھڑ سکتی تھیں۔ لیکن یہاں اپوزیشن بھی کرپشن کا ایشو بنائے ہوئے ہے اور اب شہباز شریف صاحب بھی دوسری پارٹیوں کے سکینڈلوں کے نام لے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے کرپشن کا شور جتنا بڑھا ہے، کرپشن میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ اِس شور کا مقصد اس نظام کو بچانا ہے کہ کرپشن جس کے بحران کی وجہ نہیں بلکہ ضرورت اور علامت ہے۔ کرپشن اِس نظام کے بیمار وجود کی ناگزیر پیداوار ہے۔ یہاں ہی نہیں پوری دنیا میں کرپشن کا شور ہے۔ پچھلے ایک سال میں چین کے 170 مرکزی و صوبائی وزیروں اور کمیونسٹ پارٹی کے 13 لاکھ چالیس ہزار اراکین کو صدر شی چن پنگ نے کرپشن کے الزام میں برطرف کیا ہے۔ ترکی میں طیب اردوان نے عدلیہ سے لے کر فوج اور پولیس تک ڈیڑھ لاکھ افسران اور ملازمین کو کرپشن کے الزام میں فارغ کیا۔ اِسی طرح سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے گیارہ شہزادوں اور درجنوں افسران کو اِسی الزام میں گرفتار کیا۔ لیکن کرپشن کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ مسئلہ نظام کا ہے۔ الزام تراش اور ملزمان ایک دوسرے سے بڑھ کر کرپٹ ہیں۔ 
حکمران طبقہ اتنا سفاک اور منافق ہے کہ اپنے نظام کو بچانے کے لئے اس نے نواز شریف جیسے اپنے ہی نمائندے کو فارغ کرانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام میں بے چینی بڑھتی ہے اور حکمران طبقات کو کسی تحریک کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی نظام کے کلیدی رہنمائوں کو ہٹانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ نواز شریف کی کم از کم جان تو بچ گئی ہے، کئی دوسرے ممالک میں تو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً چین میں چینگ کائی شیک نے خود سرمایہ داری کا محافظ ہوتے ہوئے 1930ء اور 40ء کی دہائی میں کئی بڑے سرمایہ داروں اور سیٹھوں کو قتل کیا تھا یا جیلوں میں پھینکا تھا۔ لیکن چین میں انقلاب کا راستہ وہ پھر بھی روک نہیں پایا۔ اِسی طرح سپین میں جنرل فرینکو نے اپنے اہم ترین جرنیلوں اور حامیوں کو مروا کر اِس ''دہشت گردی‘‘ کو 1930ء کی دہائی کی انقلابی تحریک کو کچلنے کا جواز بنایا تھا۔ 
آج پاکستان میں حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حاوی سیاست کی کسی پارٹی کے پاس اِس نظام کے خاتمے اور بدحال سماج کو اِس کے جبر و استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا منشور ہے نہ ارادہ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاستدان اس نظام کے حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے نمائندے ہیں۔ بلاول بھٹو نے حالیہ جلسے میں جو 'سوشل ڈیموکریسی‘ کا نعرہ لگایا ہے وہ اس استحصالی نظام کے خاتمے کا نہیں بلکہ اس کو بہتر بنانے کا اصلاح پسندانہ پروگرام ہے۔ لیکن اگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے، سوشل ڈیموکریسی ہر جگہ ذلت و رسوائی اور عوام کے استرداد کا شکار ہو رہی ہے تو پاکستان میں ٹونی بلیئر جیسی پالیسیاں کسی پارٹی کو کیسے بحال کر سکتی ہیں؟ یہاں سرمایہ دارانہ نظام اس قدر گل سڑ چکا ہے کہ معاشرے میں تعفن پھیلا رہا ہے۔ عمران خان کی پارٹی میں پہلے ہی کارپوریٹ سرمایہ دار براجمان ہیں۔ قوم پرست اور سیکولر پارٹیوں کا پروگرام بھی اِس نظام کی حدود و قیود سے آزاد نہیں‘ اور دوسری پارٹیاں بھی دولت کے ''جائز‘‘ اجتماع کو عین نیکی سمجھتی ہیں۔ ایسے میں معاشی پروگرام اور عوام کے حقیقی ایشوز کو سیاست اور صحافت کے موضوعات سے ہی بے دخل کر دیا گیا ہے۔ عوام کے مسائل کا ذکر جزوی اور سطحی طور پر کبھی کرنا پڑ جاتا ہے لیکن کسی کے پاس ان کے حل کا لائحہ عمل ہے نہ نیت۔ یہ حکمران بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس نظام میں یہ مسائل حل ہونے والے نہیں، لہٰذا ان کا ذکر نہ کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ لے دے کر سارا شور پھر کرپشن کا ہی مچایا جاتا ہے۔
کئی سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی کارپوریٹ مافیا کی ملکیت بن چکی ہیں، بالکل جیسے آئی پی ایل وغیرہ میں فنانسر‘ ٹیمیں خریدتے ہیں۔ یہ فنانسر نہ صرف ان پر جوا لگاتے اور لگواتے ہیں بلکہ کھلاڑیوں کی لین دین بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ یہ مالیاتی سرمایہ چاہے ''جائز‘‘ ہو یا ناجائز، کالا ہو یا سفید، محنت کش طبقات کا خون پسینہ نچوڑے بغیر جمع نہیں ہو سکتا۔ ہر دولت مند کسی غریب کا محتاج ہوتا ہے۔ جہاں تک روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات زندگی کا تعلق ہے یہ اِس نظام میں منافع بخش کاروبار بن چکی ہیں۔ علاج اور تعلیم کی جو برائے نام سہولیات سرکار فراہم کرتی تھی‘ اب ان کی بھی نجکاری کی جا رہی ہے۔ زخموں کی تجارت جاری ہے اور علاج جیسے زندگی موت کے مسئلے کو بھی منڈی کی جنس بنا دیا گیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں نجکاری اور 'بیرونی سرمایہ کاری‘ کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ جوں جوں محرومی اور غربت بڑھی ہے خیرات کا دھندہ بھی زور پکڑتا گیا ہے اور آج ٹیکس چوری کا باضابطہ طریقہ کار بن چکا ہے۔ کالے دھن کے سارے ان داتا ''مخیر‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ 
اِس نظام کے بحران کے ساتھ ذاتی بقا کی جدوجہد جس قدر شدت پکڑتی جا رہی ہے اِس سے نفسا نفسی، جرائم، تشدد اور فرقہ واریت جیسے ناسور بظاہر بڑھتے نظر آتے ہیں۔ لوگ روحانی اور نفسیاتی آسروں کی تلاش میں ہیں۔ لیکن آخر کب تک؟ ایسے تو سارا معاشرہ ہی بربریت کی کھائی میں غرق ہو جائے گا، تمدن ہی مٹ جائے گا۔ لیکن اِن سماجی و معاشی اذیتوں سے نجات کے لئے بھی تو ایک سیاست درکار ہے، جو پیسے کی اِس بدعنوان سیاست کے تسلط کا خاتمہ کر سکے جسے اس سماج میں انسانوں کی اکثریت نے مسترد کر دیا ہے۔ اِن کروڑوں استحصال زدہ انسانوں کی سیاست بھی ایک دن ابھرے گی، جسے سرمائے کے اِس سیاسی و سماجی جبر کو توڑنا ہو گا۔ سیاست معیشت کا ہی عکس ہوتی ہے۔ محنت کشوں کو اِس سرمائے کی سیاست سے نجات کے لئے سرمائے کے نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہو گی۔ منافع خوری پر مبنی سرمایہ داری کی جگہ انسانی ضروریات کی تکمیل پر مبنی سوشلسٹ معیشت، سیاست اور ریاست کی بنیاد رکھنی ہو گی۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved