تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-03-2013

ڈی پی او صاحب تو بہت اچھے ہیں!!

تھانہ ڈنگہ ضلع گجرات سے ایک بوڑھا باپ محمد انور پرانی خاندانی دشمنی کے ہاتھوں اپنے اکلوتے بیٹے(جس کی شادی ایک ماہ قبل ہوئی تھی) اور بھانجے کے قتل کی داستانِِ غم مجھے سنا چکا کہ کیسے ان کے پانچ قاتلوں کو پولیس نے چند دن گرفتار رکھ کر پیسے لے کر چھوڑ دیا تھا، تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا پاکستانی پولیس کیسے تباہ ہوئی؟ پچاس ہزار روپے تفتیشی افسر نے لیے اور قاتل بھی چھوڑ دیے تو پچاس ہزار ایک مقامی صحافی نے خبر لگانے کے اس غم زدہ باپ سے لے لیے؛ تاہم وہ ہر بات پر یہ کہنا نہ بھولتا کہ جناب پھر بھی ہمارے ضلع کے ڈی پی او بشارت صاحب بہت اچھے ہیں !! مجھے خوف محسوس ہوا شاید اس کے سفارشی‘ جو اسے مجھ تک لے آیا تھا، نے بھی کہیں پیسے نہ پکڑ لیے ہوں کیونکہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں خدا کی مہربانی کے علاوہ کوئی چیز مفت میں نہیں ملتی۔ ابھی اُس کی کہانی لکھنے کا سوچا ہی تھا کہ خبر آئی کہ پشاور میں ایک اور دھماکہ ہو گیا اور کئی لاشیں گر گئیں، کچھ مزید گھروں میں صف ماتم بچھ گئی اور پھر سیاستدانوں کے مذمتی بیانات۔ صدر سے لے کر وزیر اعظم، وزراء، سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر تک سب تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب دھماکہ ہو اور وہ بیان جاری کریں۔ صرف رحمن ملک ہیں جو رات کو چین کی نیند سوتے ہیں کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ آج کہاں دھماکہ ہونا ہوتا ہے اور وہ ہو کر رہتا ہے۔ پانچ سال گزر گئے اور بینظیر بھٹو کے قتل سے جو کام شروع ہوا تھا وہ آج تک نہیں رک سکا ۔ لاشیں گرتی رہیں اور مذمتی بیانات جاری ہوتے رہے۔ اب تو ان بیانات میں کوئی لفظ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ سب نے اس بربادی میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور اب سبھی اپنے آپ کو فرشتے ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ نواز شریف فرماتے ہیں: ان کے دور میں خودکش حملے نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت امریکہ میں نوگیارہ والے حملے بھی تو نہیں ہوئے تھے۔ شاید وہ بھول گئے رائے ونڈ جاتے ہوئے انہیں بم دھماکے سے اڑانے کی کوشش اس وقت ہوئی تھی جب وہ وزیر اعظم تھے۔ جن کالعدم تنظیموں کے ساتھ آج کل دوستی کا الزام ان پر لگتا ہے اس وقت وہ ان کی جان کے درپے تھیں۔ ان کے دور میں ہی تباہی کا آغاز ہو چکا تھا اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ عروج پر تھا۔ صدر زرداری فرماتے ہیں کہ اب دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو پولیس افسر کام نہیں کر سکتا وہ گھر چلا جائے۔ پانچ سال بعد آرمی چیف سے ملاقات کے بعد اچانک انہیں یاد آیا کہ دہشت گردوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پہلے اجازت لی جائے اور پھر دہشت گردی کی جائے ورنہ… ورنہ کیا؟ ورنہ کچھ نہیں۔ آپ اپنے کام پر لگے رہیں اور ہمارا کام بیانات جاری کرنا ہے، وہ ہم کرتے رہیں گے! نواز شریف فرماتے ہیں: پانچ سالوں میں بم دھماکوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ کیسے نہ ہوتا۔ بڑا جی چاہتا ہے کسی دن اُن کے چہیتے بیوروکریٹ جیون خان کی آپ بیتی ’’جیون دھارا‘‘ میں سے وہ باب کالم میں چھاپ دوں کہ کیسے وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے انہوں نے پولیس نوکریوں، اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار کی نوکریوں کو رشوت کے طور پر استعمال کیا تھا تاکہ ایم پی ایز کو خریدا جا سکے اور آج وہ سب تناور درخت بن چکے ہیں۔ یہی کام کراچی میں پی پی پی کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کیا۔ وہ فورس جس میں دنیا کے ذہین اور قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سب سفارشی پیسے دے کر بھرتی ہوئے اور اب ہم ان ’’گیڈروں‘‘ سے مایوس ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے سامنے شیر کیوں نہیں بنے۔ ایک رشوت دے کر بھرتی ہونے والا کیسے شیر بن سکتا ہے؟ اپنی جان تو وہ دے سکتا ہے جس میں کوئی اَنا ہو۔ جن پولیس افسروں میں کچھ اَنا تھی اُنہیں مشرف دور میں بینظیر بھٹو حکومت دور کے آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے کراچی میں چُن چُن کر قتل کیا گیا اور اب ایم کیو ایم کہتی ہے کہ کراچی میں طالبان سے لڑنے کے لیے کوئی نہیں بچا۔ کیسے بچتے؟ نواز شریف کی وزرات اعلیٰ بچانے کی قیمت پنجاب آج تک چُکا رہا ہے جہاں جرائم کا ریٹ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں یہ کام سندھی وزیروں نے کھل کر کیا اور پولیس کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کر کے بیڑا غرق کر دیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ ایک صاحب کے ساتھ پچاس پولیس اہلکار اور پچیس گاڑیاں ہوتی ہیں۔ شہباز شریف خاندان کے پاس ایک ہزار سے زیادہ ایلیٹ فورس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جس دن اسمبلی کا اجلاس ہو تو سرکاری گاڑیوں اور محافظوں کی وہ بھیڑ ہوتی ہے کہ آپ کا سانس گھٹنے لگتا ہے۔ ان سب نے عوام کے پیسوں سے اپنی حفاظت خرید لی ہے۔ اس طرح یہ معاشرہ اور وہ خود محفوظ نہیں ہوں گے۔ معاشرے کو وہ بھلا کیا محفوظ بناتے‘ الٹا ان ارکان اسمبلی نے لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ کے لائسنس عوام کو جاری کر دیے۔ کوٹہ‘ سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا اور جیسے نوکریاں بک رہی تھیں، ویسے ہی ممنوعہ بور کے لائسنسوں کی بھی لوٹ سیل لگا دی گئی۔ پولیس کے پاس وہ اسلحہ نہیں جو اب ایک عام آدمی کے پاس آ چکا ہے اور معاشرے میں قتل وغارت حد سے بڑھ چکی ہے۔ ہمارے منہ کو بھی لہو لگ گیا ہے۔ اسلحہ رکھنا ایک فیشن اور کلاس بن گیا ہے۔ جب تک معاشرے سے غیریقینی اور تشدد کی فضا کو ختم نہیں کیا جائے گا، اس ملک سے رشوت اور قتل عام بند نہیں ہو گا۔ جب تک سرکاری افسروں، ملازمین اور عام لوگوں کو یہ یقین نہیں ہو گا کہ ریاست ان کے بنیادی حقوق تعلیم، صحت اور روزگار کا بندوبست کرے گی، وہ کبھی پیسے کمانے سے باز نہیں آئیں گے۔ غیریقینی صورتحال ایسی ہے کہ صدر، وزیر اعظم، وزراء اور وفاقی سیکرٹری تک اس کا شکار ہیں۔ یہ چیز اُنہیں مستقبل کے بارے میں پریشان کرتی ہے اور وہ کرپشن کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں کہ پیسہ ہو گا تو سب کچھ خریدا جا سکے گا۔ جس ملک میں صدر اور وزیر اعظم تک اس مرض کا شکار ہوں گے وہاں ایک عام آدمی کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔ مغربی معاشروں نے کرپشن اور امن و امان کی صورت حال پر اس طرح قابو پایا ہے کہ انہوں نے اپنے شہریوں کے اندر سے غیریقینی صورت حال کو ختم کیا۔ اب وہاں سب کو علم ہے کہ ریاست ان کی ماں کی طرح ہے اور اگر انہیں کچھ ہو بھی گیا تو اس کے بچے بھوکے نہیں مریں گے۔ وہاں پولیس میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے جو سینے پر گولی کھا لیں گے لیکن بھاگیں گے نہیں۔ سیاستدان اس ملک میں کرپٹ اور نااہل پولیس بھرتیوں کے ذمہ دار ہیں اور اب پورا معاشرہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ اب ان سیاستدانوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ گاجر مولی کی طرح کٹتے عوام کے لیے مذمتی بیان جاری کرتے رہیں اور پولیس میں مزید سفارشی بھرتیاں اور علاقے کے تھانے کا انچارج کرپٹ اور غلام قسم کا شخص لگواتے رہیں۔ اکلوتا بیٹا اور بھانجا قتل کرانے کے بعد بھی بوڑھا باپ کہہ رہا تھا کہ ضلع کا ڈی پی او تو بہت اچھا ہے۔ یہ سُن کر مجھے لگا میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوں جو صدیوں قبل ایک رومن جنرل مارک انطونی کی جولیس سیزر کی خون آلود لاش پر بھرائی ہوئی آواز میں شہریوں سے تقریر سن رہا ہو کہ سب سے تکلیف دہ زخم تو وہ ہے جو سیزر کے دوست بروٹس نے اپنے خنجر سے اسے لگایا تھا، لیکن کیا کریں بروٹس کو بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو روم کے لیے انتہائی قابل احترام ہے۔۔۔!!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved