تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     11-12-2017

ٹرمپ کا امریکہ

میں نے گزشتہ سال دورۂ امریکہ کے دوران‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری 20 جنوری 2017ء کو ٹی وی پر براہِ راست دیکھی تھی اور اس منظر پر تبصرہ بھی لکھا تھا۔ 20 جنوری 2018ء کو ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ اس پر تقریباً اتفاقِ رائے ہے کہ ٹرمپ کا طرزِ تکلُّم، باڈی لینگویج اور بات بات پر ٹویٹ کرنے کا انداز ایک سپر پاور کے صدر مملکت کے شایانِ شان نہیں ہے۔ باشعور امریکی شہر ی ایک گونہ ندامت محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ سی این این ٹیلیویژن پر ایک خاتون تبصرہ کر رہی تھیں کہ بعض اوقات ٹرمپ کا انداز ایک چھ سالہ ضدی بچے کی طرح ہوتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا غیر سنجیدہ شخص امریکہ کا صدرکیسے بن گیا جس کی معمولی سی لغزش یا جذباتیت امریکہ سمیت پوری دنیا کو ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کا ایندھن بنا سکتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جمہوریت کی خرابیوں میں سے ایک ہے کہ ایک غیر سنجیدہ اورغیر محتاط شخص‘ نفسیاتی حربے استعمال کر کے عوام کے لاشعور میں پیوست عصبیت اور سفلی جذبات کو ابھار کر‘ دنیا کی سپر پاور کا صدر بن سکتا ہے۔ دوسری جانب جمہوریت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر جمہوری عمل کا تسلسل کسی انقطاع کے بغیر جاری ہو، جمہوری روایات اور ادارے مستحکم ہوں، ریاست کے مختلف اداروں اور اقتدار کے ستونوں کے درمیان تقسیم کا ایک واضح آئینی نظام موجود ہو، اعلیٰ عدالتیں طاقت کے کسی ایک مرکز کی حلیف یا آلۂ کار نہ بنیں بلکہ دستور کے محافظ کا کردار ادا کریں تو ممکنہ تباہی کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ کسی غیر متوازن مقتدر شخص یا ادارے کو اعتدال میں لایا جا سکتا ہے اور آئندہ کسی مثبت اور بہتر تبدیلی تک نظام کو چلایا جا سکتا ہے۔ جھٹکے تو آتے رہیں گے لیکن بڑے پیمانے پرشکست و ریخت نہیں ہو گی۔ وقت کا مُقتدر پھر بھی راہِ راست پر نہ آئے تو اسے دستوری نظام کے اندر رہتے ہوئے مؤاخذے کے ذریعے گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ امریکہ ایسے تجربات سے گزرتا رہا ہے اور آج بھی گزر رہا ہے۔ الغرض جمہوری نظام بھی صحیح ٹریک پر رواں دواں ہے اور کسی بند گلی میں پہنچنے کی صورت میں ممکنہ مؤاخذے کا عمل بھی خاموشی اور حزم و احتیاط کے ساتھ جاری ہے۔ اس کے برعکس جمہوری روایات کے عدم تسلسل، اداروں کے عدمِ استحکام، کسی مقتدر ادارے کی دراندازی یا اداروں کے غیر مرئی گٹھ جوڑ کے باعث پاکستان ایسے ممالک میں 16؍دسمبر 1971ء جیسے اذیت ناک لمحے بھی آجاتے ہیں۔ ایسے المیوں کے وقوع پذیر ہونے میں مہم جو اور ہوسِ اقتدار کے حریص سیاست دانوں کا بھی پورا عمل دخل ہوتا ہے، ہٹلر اور مسولینی ایسے آمر بھی جمہوریت ہی کی پیداوار تھے۔ سیماب صفت ٹرمپ کے لیے اپنی من پسند اور منتخب ٹیم کے ساتھ چلنا بھی دشوار ہو رہا ہے اور رسوا کن تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔
حالیہ دورے میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں جانے کا موقع ملا، اس دوران پاکستانی امریکیوں سے تبادلۂ خیال کرتا رہا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور طبقات کے ساتھ رابطے کا موقع ملے تاکہ آگہی حاصل ہو، فارسی دانشورکا قول ہے: شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ۔ یعنی سنی سنائی بات براہِ راست مشاہدے کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دنوں میں جو ایک انجانا سا خوف اور اندیشہ ہائے دوردراز پاکستانیوں اورمسلمانوں کے ذہنوں پر مسلّط رہے، اب وہ زائل ہو رہے ہیں، معاملات معمولی فرق کے ساتھ چل رہے ہیں، البتہ امیگریشن سے متعلق امور قدرے سست روی کا شکار ہیں، لیکن چل رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ صورتحال بالکل بدل گئی ہو اورمشرقِ وسطیٰ کے کچھ ممالک کی طرح غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پکڑکر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہو، ملک بدر کیا جا رہا ہو یا روزگار سے بے دخل کیا جا رہا ہو۔ بعض ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر ٹرمپ نے جو پابندیاں عائد کی تھیں، امریکی سپریم کورٹ نے اس حکمنامے کو اکثریتی فیصلے کے ساتھ جائز قرار دیا ہے اور اب اسے قانونی تحفظ حاصل ہے، البتہ بعض صدارتی شعبوںمیں صدر نے خود تخفیف کر دی ہے۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ یہود اور کفار موت سے بہت ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کرتوتوں کے سبب آخرت میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ اس لیے وہ اس دنیا میں لمبی زندگی کی آرزو رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''آپ کہیے: اگر دارِ آخرت اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے بجائے صرف تمہارے لیے خاص ہے‘ تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو اوراپنے پہلے کرتوتوں کے سبب وہ موت کی ہرگز تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔ اور آپ ضرور دیکھیں گے کہ وہ اور لوگوں اور مشرکین سے بھی زیادہ زندگی کے دلدادہ ہیں، ان میں سے ہر شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ کاش اس کی عمر ہزار سال ہو اور اگر اس کو درازیٔ عمر بھی مل جائے تو یہ اس کو عذاب سے دور کرنے والی نہیں ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اس کو اللہ خوب دیکھنے والا ہے۔ (البقرہ:94-96)‘‘
(2) ''آپ کہیے: اے یہود! اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر اللہ صرف تمہارا دوست ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو اور وہ اپنے پہلے کرتوتوں کے سبب کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ آپ کہیے: جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ تمہیں ضرورپیش آنے والی ہے۔ (الجمعہ:6-8)‘‘۔ اس لیے موت سے ڈرا کر اہل مغرب کو کسی بھی صورتحال کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جو سبز باغ دکھائے تھے، وہ سَراب ثابت ہوئے، میکسیکو کی سرحد پر انہوں نے یہ کہہ کر دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا کہ اس کا خرچ میکسیکن حکومت سے لیا جائے گا، ظاہر ہے میکسیکن فاتر العقل تو نہیں ہیں کہ اپنے مالی وسائل صَرف کر کے اپنے ملک کو اپنے ہی عوام کے لیے جیل بنائیں۔ چونکہ میکسیکن باشندے کافی تعداد میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے یا امریکی سرحدی اہلکاروں کو رشوت دے کر تلاش روزگار کے لیے امریکہ آتے جاتے رہتے ہیں، وہ تعمیراتی صنعت میں اہل امریکہ کی ضرورت بھی ہیں، محنت و مشقت کے سارے کام وہی کرتے ہیں۔ ٹرمپ پالیسی کے نتیجے میں ملک بدر ہونے کے خوف کے سبب امریکہ میں مقیم بہت سے میکسیکن باشندوں نے اپنی جمع پونجی اپنے وطن منتقل کرنا شروع کردی اور اس طرح امریکہ سے سرمائے کا انخلا شروع ہو گیا جو امریکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ دوسری جانب امریکی کانگرس نے سرحدی دیوار کی تعمیر کے لیے مطلوبہ رقم کی منظوری بھی نہیں دی، اس لیے تاحال یہ منصوبہ معرضِ التوا میں ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے صنعت سازی کو واپس امریکہ لانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، تاحال یہ خواب بھی اپنی تعبیر کا منتظر ہے۔ جہاں تک معاشی بحالی کا تعلق ہے، سو جو معاشی زوال 2007ء سے عالمی سطح پر شروع ہوا تھا، وہ صدر اوباما کے دوسرے دور میں‘ 2014ء سے بحالی کے مرحلے میں داخل ہو چکا تھا اور یہ رجحان تاحال جاری ہے۔ اس میں ٹرمپ پالیسیوں سے زیادہ مغرب اور عالمی معاشی محرکات و عوامل کا عمل دخل ہے۔ ٹرمپ نے ٹیکس ریفارمز کے نام پر بالائی طبقات کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکس کی شرح میں تخفیف اور زیریں طبقات کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے کا جو پیکج کانگرس کو پیش کیا ہے، وہ ابھی منظور نہیں ہوا اور اس کے التوا کا سبب یہ ہے کہ 2018ء میں ریاستی گورنروں اور کانگرس کا وسط مدتی انتخاب ہونا ہے اور ریپبلکن اراکین کو احساس ہے کہ اس سے ان کی پارٹی کو ہزیمت ہو سکتی ہے۔ اوباما ہیلتھ کیئر بل کے تاحال منسوخ نہ ہونے کاسبب بھی یہی ہے؛ اگرچہ حکومت اس کے لیے فنڈ جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، الغرض کشمکش جاری ہے۔ شمالی کوریا کے صدر بھی اپنے بیلسٹک میزائل منصوبے جاری رکھ کر ٹرمپ کی رعونت کو زَک پہنچا رہے ہیں۔ سو جنرل پرویز مشرف کے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کی طرح ٹرمپ کا ''سب سے پہلے امریکہ ‘‘ کا نعرہ بھی ایک بہلاوا ہی ثابت ہو رہا ہے۔
جہاں تک پاکستان امریکہ تعلقات کا مسئلہ ہے، اس میں گاجر اور چھڑی والا کھیل جاری رہے گا۔ پاکستان کا تزویراتی محل وقوع الحمدللہ! ایسا ہے کہ اسے امریکہ و یورپ بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے، لہٰذا پاکستان کبھی اُن کی ضرورت اور کبھی مجبوری بنا رہے گا اور گلشن کاکاروبار یونہی چلتا رہے گا۔ مد و جزر آتے رہیں گے، مکمل ڈیڈ لاک ان شاء اللہ نہیں آئے گا۔ لیکن جیساکہ بش دور میں امریکہ نے پاکستان کودھمکی دی تھی کہ فیصلہ کرو ''تم ہمارے دوست ہو یا دشمن‘‘، تیسرا آپشن کوئی نہیں ہے۔ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بارے میں ایسا مؤقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، دوسری بڑی مارکیٹ ہے، چین کو دبائو میں رکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی ضرورت ہے، اس کی معیشت مستحکم ہے، عالمی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے، عالمی قوتوں کی اسلام دشمنی اس کے لیے ایک وجہِ ترجیح ہے، عالمی اداروں اور امریکی سیاست میں اس کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ چین اور پاکستان کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک کو اُس نے اپنے زیرِنگیں رکھا ہوا ہے۔ اُن ممالک کی خارجہ پالیسی بھی بھارت کے زیر اثر ہے اور بعض کا انحصار بھارت پر ہے۔ الغرض مؤثر خارجہ پالیسی چلانے کے لیے پاکستان کا داخلی امن، یکجہتی اور معاشی و سیاسی استحکام نہایت اہم ہے اور اس کے لیے دانش مندانہ فیصلوں اور ترجیحات میں قومی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا حامل ہونا اور بروقت درست فیصلے کرنے اور انہیں روبہ عمل لانے کی اہلیت بھی ضروری ہے، ورنہ حال یہ ہوتا ہے ''یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد‘‘۔ یعنی ایک لمحے کی غفلت قوموں کو مسابقت کی دوڑ میں سو سال پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے فیصلہ سازوں کوراستیِ فکر سے مالا مال فرمائے۔ میرا یہ تجزیہ میری فہم اور فکری دیانت کے مطابق ہے، خواہشات پر نہیں بلکہ حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔
(نوٹ: یہ کالم 4دسمبر2017ء کو لکھا گیا)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved