تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-12-2017

تلخ حقیقت

زندگی کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ انسانوں کی آزمائش کے لیے بنی ہے؛ لہٰذا اسے ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنانا جا سکتا۔ اگر آپ دنیا بھر کی دولت اکھٹی کر لیں، تب بھی نہیں۔ فرض کریں آپ نے دولت مند ماں باپ کے ہاں آنکھ کھولی۔ بہترین شکل و صورت اور اعلیٰ ذہنی صلاحیت آپ کے پاس موجود ہے۔ دنیا کی ہر آسائش آپ کو حاصل ہے۔ آپ بہترین تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر آپ کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے۔ آپ اپنے والدین کو اس شادی پہ رضا مند کر لیتے ہیں۔ شہر کے اعلیٰ ترین ڈیزائنر سے آپ اپنے عمدہ ترین عروسی ملبوسات تیار کراتے ہیں۔ شہر بھر کے رئیس آپ کی شادی میں شرکت کے لیے موجود ہیں۔ وصل کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ اچانک آپ کو مائیگرین کا سخت سر درد شروع ہو جاتا ہے ۔ مائیگرین کی جگہ فوڈ پوائزننگ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا یادگار ترین وقت ہے۔ آپ اپنی تمام تر دولت اور تمام تر نعمتوں کے باوجود اسے غارت ہونے سے بچا نہیں سکتے۔ خدا نے یہ دنیا بنائی ہی اس طرح ہے کہ آپ ایک خاص حد سے زیادہ اسے پُر لطف نہیں بنا سکتے۔ یہ دنیا جنت نہیں بن سکتی۔
فرض کریں! آپ کے پاس دولت کے انبار موجود ہیں۔ اس کے باوجود کیا آپ اپنے ایک ڈیڑھ سال کے بچّے کو بار بار گرنے اور چوٹ لگنے سے محفوظ بنا سکتے ہیں؟ کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا، چاہے اس کے پاس دنیا کے کتنے ہی وسائل کیوں نہ موجود ہوں۔ ہوتا یہ ہے کہ بچّے کے ذہن میں موجود تجسس اسے آنکھ، ناک، کان، جلد اور زبان کے ذریعے دنیا کے بارے میں ڈیٹا اکھٹا کر نے پر اکساتا ہے۔ اس عمل کے دوران بار بار وہ گرتا ہے، اسے چوٹ لگتی ہے تو لازمی طور پر ماں باپ کا دل بھی دکھتا ہے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود، ملازمین کی فوج ظفر موج کے باوجود، آپ اس عمل میں کوئی خاص مداخلت نہیں کر سکتے۔ جب تک اسے چوٹ نہیں لگے گی، وہ پوری طرح چلنا سیکھ ہی نہیں پائے گا۔ توازن برقرار رکھنا سیکھ نہ سکے گا۔ یہ چوٹ ہی دماغ کے لیے سب سے بڑے استاد کا کام کرتی ہے۔ آپ بچّے کو گود میں اٹھا کر جو مرضی سکھانے کی کوشش کرتے رہیں، جب تک وہ چلنے کی کوشش نہیں کرے گا، گرے گا نہیں، چوٹ برداشت نہیں کرے گا، تب تک اسے چلنا نہیں آئے گا۔
اس زمین پر جس قسم کا جسم اور دماغ ہمیں دیا گیا ہے، وہی زندگی کے ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بچّے کی پیدائش سے لے کر ایک بوڑھے کی موت تک، ہر عمل میں تکلیف موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تکلیف زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ ماں درد سے تڑپتی ہے، بچّہ تب جنم لیتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی وہ رونا شروع کر دیتا ہے۔ جب پہلی پہلی بار وہ دودھ پیتا ہے تو ا س کا نظامِ انہضام گڑبڑا جاتا ہے۔ بچّے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ دوا کے باوجود، یہ درد بچّوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔
زندگی ایک بہت ہی نازک چیز ہے۔ اس نیلے سیارے پر‘ بے شمار حفاظتی تہوں کے نیچے بھی‘ بار بار وہ بیمار ہوتی ہے۔ سب سے بڑا حفاظتی نظام ربِّ کائنات نے ہمارے جسموں کے اندر رکھا ہوا ہے، امیر و غریب کی تفریق کے بغیر۔ یہ جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام ہے۔ جسم جب کسی بھی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو یہی نظام اس کے خلاف لڑتا ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی تمام تر ادویات اس نظام کی مدد ہی کر سکتی ہیں۔ اصل جنگ بہرحال اسی نظام نے لڑنا ہوتی ہے اور وہ خدا کی طرف سے ہر جاندار کو دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ Qualified معالج کی بجائے نیم حکیم سے علاج کراتے ہیں، اکثر وہ بھی خود ہی لوٹ پوٹ کر آخر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، اس کے جسم میں قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ دل، دماغ، جگر، گردے، جلد یا کسی بھی عضو میں بیماری ہو تو زندگی بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
آپ کے پاس دنیا بھر کی دولت موجود ہو، صحت، عقل اور ہر اچھی نعمت، اس کے باوجود آپ کے مخالف کا ایک چبھتا ہوا طنزیہ جملہ‘ آپ کے دل میں ایک کانٹے کی طرح پیوست ہو جاتا ہے۔ آپ کا بس نہیں چلتا کہ اپنے نظریاتی مخالف کی جان لے لیں۔ ایسے چبھتے ہوئے جملے آپ کو زندگی میں بار بار سننا پڑیں گے، جن کے باعث لوگ آپ پر ہنس پڑتے ہیں۔ آپ کو غصہ آتا ہے اور کیوں نہ آئے۔ دماغ یا جسے ہم نفس کہتے ہیں، اس کی تشکیل ہی ایسی ہے کہ اسے اپنے آپ سے اختلاف گوارا نہیں ہوتا۔ اسے اس بات میں لطف آتا ہے کہ میری بات پر لوگ دوسروں پر ہنسیں۔ یہ کبھی بھی گوارا نہیں ہوتا کہ کسی کی بات پر لوگ مجھ پر ہنسیں۔ بچپن میں نفس کی یہ عادات بڑوں سے بھی پختہ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچّے کو پہلی پہلی بار ان چیزوں سے جب واسطہ پڑتا ہے تو اس کی کیفیات (غصہ، شرمندگی وغیرہ) بہت زیادہ شدید ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے انسان ان چیزوں سے گزرتا جاتا ہے، اس میں ایک قسم کا صبر آنے لگتا ہے۔ پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ انسان خود اپنے اوپر ہونے والی چوٹ سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔
پھر اولاد کی طرف سے جو دکھ انسان کو ملتے ہیں، ان کا آپ کیا کریں گے۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس ہر طرح کی دولت، جائیداد، تعلیم، صحت، اولاد اور دوسری تمام نعمتیں موجود ہیں اور بیوی کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی۔ پھر آپ کے ہاں ایک ذہنی اور جسمانی طور پر ایب نارمل بچّہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا آپ کی ساری دولت اور ساری صلاحیتیں اس صورتِ حال میں آپ کے کام آ سکتی ہیں؟ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا، جو آپ کی پوری زندگی پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا۔ زندگی میں صرف ایک شخص کو دیکھا کہ جس کے تین بیٹے ایب نارمل تھے اور وہ مکمل طور پر ایک نارمل زندگی گزار رہا تھا۔ ان کا نام جہانگیر ہے۔
اگر ان سب مسائل میں سے ایک بھی نہ ہو، تو اپنی کبھی ختم نہ ہونے والی خواہشات کا آپ کیا کریں گے۔ یہ قبر تک آپ کا پیچھا کرتی ہیں۔ ایک بادشاہ بھی دوسرے کی سلطنت ہتھیانے کی فکر میں دنیا سے چلا جاتا ہے۔ 
فرض کریں کہ آپ کی اولاد تندرست ہے۔ پھر بھی آپ جب یہ دیکھتے ہیں کہ دو بیٹوں میں سے ایک غبی ہے اور دوسرا ذہین ہے۔ غبی بیچارہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے تو اس صورتِ حال میں آپ کس حد تک مطمئن رہ سکتے ہیں؟ یا پھر آپ کی بیٹی طلاق لے کر، نواسے نواسیوں کو لے کر آپ کے پاس چلی آتی ہے۔ آپ اس زندگی کو کیسے Enjoy کر سکتے ہیں؟ کر سکتے ہیں مگر صرف اسی صورت میں کہ آپ کے پاس علم ہو، خدا سے آپ کا تعلق ہو۔ آپ کے اندر ایک صبر اور سکون پیدا ہوجائے گا۔ آپ آرام سے اس زندگی اور اس کے صدموں اور خوشیوں سے اعتدال کے ساتھ گزرتے چلے جائیں گے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved