دہلی کی تہاڑ جیل میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں ملوث کشمیر ی نوجوان محمد افضل گورو کی پھانسی کے بعد جموںکشمیر میں حالا ت مخدوش ہو گئے۔ کئی معصوم شہریوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں‘ کئی زخمی ہوئے‘ جن میں نو عمر لڑکوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ حالا ت اس حد تک خراب ہو گئے ہیں کہ وزیر اعلیٰ عمر عبد ا للہ یہ اعتراف کرنے پر مجبورہو گئے کہ وہ عام لوگوں کی جان و مال کو تختۂ مشق بنانے کی کارروائیوں کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ریاستی اسمبلی کے ایوان زیریں میں بارہ مولا کے ایک نہتے اور بے گناہ نوجوان کی ہلاکت کو موضوع بحث بناتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے جذباتی لہجہ میں کہا کہ ’’وہ بھی سوال کرتے ہیں کیوں گولی چلائی گئی‘‘۔ ظاہر بات ہے کہ اُن کا اشارہ نئی دلی کی جانب تھا، جو ریاست میں نافذ بد نام زمانہ قانون افسپا میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کے لئے ہر مرحلے پر مکرتی رہی ہے۔ اس قانون کے تحت کشمیر میں فوج کو بے انتہا اختیارات حاصل ہیں۔عمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا حد اختیار ایک دیہاڑی دار مزدور جتنا ہے‘ یعنی مکمل بے اختیار! ایوان اسمبلی کے فرش پر وزیر اعلیٰ کا یہ اعتراف کشمیر کی اُس بے بسی اور بے اختیاری کا رونا ہے، جہاں حکومت نئی دہلی کی دست نگری کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ اس اعتراف سے اگر یہ معنی اخذ کئے جائیں کہ جس خطہ کا حکمران بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہو وہاں کی رعایا کا کیا حال ہوگا۔عمر عبدا للہ جب وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر برا جمان ہوئے تھے، بھارت کے تمام اداروں نے دنیا بھر میں کشمیر میں جمہوری عمل کی واپسی کا بھرپور پروپیگنڈا کیا۔ اب پچھلے پانچ برسوں سے وزیر اعلیٰ سرینگر سے لیکر نئی دہلی تک چیخ رہے ہیں کہ ریاست کے اندر حالات اس قدر بہتر ہوئے ہیں کہ افسپا کو جزوی طور پر ہٹانے کے لئے اس میں ترمیم کی جائے۔ اتنا ہی نہیںبھارتی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے ایک ورکنگ گروپ اور مذاکرات کاروں نے بھی ریاستی عوام کے انسانی حقوق کی پامالی کے بنیادی سبب اس قانون میں ترمیم‘ عمل میں لانے کی سفارشات کی ہیں۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بارہ مولا میں فوج کے ذریعے ایک نوجوان کی ہلاکت کے حوالے سے برملا الفاظ میں کہا کہ افسپا کا قانون‘ فورسز کو ایک ایسی ڈھال فراہم کرتا ہے، جس کے ہوتے ہوئے کسی اہلکار کے خلاف کارروائی کرناممکن نہیں، اسی لئے وہ ہمیشہ اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ریاستی عوام کی نفسیات کو پامال کرنے اور انکی حکومت کی بے بسی کا یہ سلسلہ جب تک ختم نہ ہوگا‘ شاید ہی کشمیر میں امن قائم ہو گا۔ افضل گورو گو کہ مقبول بٹ کی طرح کوئی قد آور لیڈر نہیںتھا۔ مگر اسکی پھانسی نے کشمیر کو ایک تاریخی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ 1987ء کی انتخابی دھاندلیوں کے بعد یہ شاید پہلا واقعہ ہے‘ جس نے کشمیر کی عمومی نفسیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ نئی دلی نے جس طرح کسی ممکنہ مزاحمت سے بے نیاز ہو کر افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکا دیا اس سے اسکی انا اور ہٹ دھرمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۔بھارت کی من موہن سنگھ حکومت نے تو خود ہی اعتدال پسندی اور انتہاپسندی کے درمیان حائل سرحدوں کو ختم کر کے اہل کشمیر تک یہ واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ اس کے نزدیک نہ کوئی سخت گیر ہے، نہ کوئی اعتدال پسند اور نہ کوئی کشمیری گاندھی ہے اور نہ ہی کوئی دلی کا رشتہ دار بلکہ وہ سارے کشمیریوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ کشمیری سیاست میں بھی غالباً یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نواز،الحاق پاکستان کے حامی اور آزاد کشمیر کے متوالے غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک اسٹیج پر جمع ہیں ۔جس کا خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی کانگرسی حکومت افضل کی پھانسی کے بعد کشمیر میں ہونے والے ردعمل کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور فی الحال وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اس نے حالات کو اپنی مرضی کے تابع رکھا ہوا ہے۔ دراصل افضل کے جسد خاکی کو واپس لوٹانے میں ٹال مٹول کر کے وہ کشمیریوں کی قوت مزاحمت کا صحیح صحیح اندازہ لگانا چاہتی ہے۔ دلی کے پالیسی ساز جسدخاکی کی واپسی کے متعلق اٹھنے والی عوامی ناراضگی اور سیاسی تحریک سے آئندہ کے لئے بڑے معاملات کے حوالے سے ممکنہ ردعمل کے لئے خود کوتیار کر رہے ہیں۔عجب نہیں کہ ایک دن دلی کے حکمران پارلیمنٹ میں مسودہ قانون پاس کر کے رہی سہی دفعہ370 یعنی کشمیر کی خصوصی حیثیت کوآ ئین سے ہی خارج کردیں اور جموں و کشمیر کو بھارت کے وفاق میں پوری طرح سے ضم کرنے کا اعلان کرڈالیں۔ کشمیری حلقوں کو یہ بھی اب کی بار شاید احساس ہوگیا ہے کہ صرف پاکستان پر اپنا سارا بوجھ ڈالنا کسی بھی لحاظ سے دانشمندی نہیں۔ یہ تلخ حقیقت ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اہل کشمیر کی مخلص سیاسی قیادت نے اپنے ہر چھوٹے بڑے مقدمے کا سارا مختار نامہ پاکستان کے حوالے کر دیاتھا۔ پاکستان کے کشمیریوں کے تئیں خلوص میں اگرچہ کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن پاکستان کا پہلے اپنی سالمیت اور مفادات کے تئیں فکرمند ہونا فطری بات ہے اور موجودہ نامساعد حالات ، جنہوں نے پاکستان کو داخلی سطح پر مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، پاکستانی اپنی سرکار سے یہی تقاضا کرتے ہیں کہ اس کی پہلی ترجیح اپنے وجود کو قائم و دائم رکھنا ہے۔ لہٰذا افضل گورو کے معاملے میں بھی پاکستانی سرکارآواز نہیں اٹھا سکی ۔ نہ ہی فی ا لحال اہل کشمیر کے توقعات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان مضبوط اور مستحکم ہوتا تو شاید ہی بھارت افضل گورو کو پھانسی دینے کی جرأت کرتا۔ کیونکہ دلی کے حکمرانوں کو اس بات کا یقین ہے کہ کشمیر میں اٹھنے والی ہر تحریک کا پاکستان سے کوئی نہ کوئی رشتہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات اور کشمیر کے تئیں اسکی لاچاری سے یہ خدشہ پیدا ہونا لازم ہے کہ حالات سے شہ پاکر بھارت جموںکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ہی کالعدم نہ کردے۔ دیکھنا ہے کہ پاکستان کب تک اور کس طرح کشمیری سیاست کے اس اہم موڑ سے اپنے آپ کو لا تعلق رکھ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved