تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     12-12-2017

معرکۂ احد کی ایمان افروز جھلکیاں!

آنحضوؐر کی سیرت میں معرکۂ احد خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ابتلا و آزمایش اور عزیمت و استقامت کی بہترین مثال! ستّر صحابہ کرامؓ کی شہادت اور جنت کی بشارت! ان شہداء کی قبریں آج بھی ایمان افروز واقعات کی غماز ہیں۔ آنحضوؐر نے شہداء کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی جانب کوچ کا حکم دیا۔ یہ منظر بڑا عجیب تھا۔ لوگوں کے دل بھی زخمی تھے اور جسم بھی۔ آنحضوؐر اپنے لشکر کے آگے آگے تھے اور کبار صحابہؓ آپؐ کے دائیں بائیں اور پیچھے چل رہے تھے۔ اکثر زخمیوں کو اونٹوں پر بٹھا دیا گیا تھا جبکہ بعض کو ان کے احباب نے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
صحابہ کرامؓ کو آنحضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی، اس کی کوئی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ قرآن کے الفاظ میں نبیؐ کی ذات مومنین کے لیے‘ ان کی اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہے اور حدیثِ رسولؐ میں ایمان کو اس بات سے مشروط کیا گیا ہے کہ مومن اپنی جان، اولاد، والدین غرض ہر چیز سے زیادہ محبوبِ خدا سے محبت کرے۔ زخمیوں کا یہ قافلہ اپنے قائد کی قیادت میں اپنے شہر کی طرف رواں دواں تھا اور ادھر اہل مدینہ تک جنگ کی پریشان کن خبریں پہنچ چکی تھیں۔ مدینہ میں رہ جانے والے اہلِ ایمان میں سے اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ خواتین اسلام اپنے گھروں سے احد کی جانب نکل کھڑی ہوئیں۔ بنو دینار کی ایک صحابیہ (حضرت خنسائؓ) بھی ان خواتین میں شامل تھیں۔ انہیں راستے ہی میں بتایا گیا کہ ان کے والد، ان کا خاوند، ان کا بھائی اور ان کا بیٹا میدان جنگ میں شہید ہوگئے ہیں۔ ان سب کی شہادت پر انہوں نے اِنّا لِلّٰہ پڑھا اور بے قراری سے پوچھا: رسول اﷲؐ کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا: وہ بخیریت ہیں۔ انہوں نے کہا ''مجھے ایک نظر آنحضوؐر کو دیکھ لینے دو تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے‘‘۔ چنانچہ اس عظیم خاتون کو آنحضوؐر کے پاس لایا گیا۔ آنحضوؐر کو دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا ''یارسول اﷲﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو اس معرکے سے زندہ سلامت ہمارے پاس بھیج دیا ہے۔ اب مجھے کسی چیز کا کوئی غم نہیں‘‘۔
راستے ہی میں آنحضوؐر کی پھوپھی زاد بہن‘ حضرت حمنہ بنت جحشؓ آپ سے ملیں۔ آپؐ نے انہیں دیکھتے ہی کہا ''اے بہن! جو مصیبت آئی ہے‘ اﷲ تعالیٰ اس پر تجھے اجر عطا فرمائے‘‘۔ انہوں نے پوچھا ''یارسول اﷲ! کیا ہوا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ''تیرے ماموں حمزہؓ شہید ہوگئے‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے انّا لِلّٰہ پڑھا اور کہا: اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، انہیں شہادت مبارک ہو۔ آپؐ نے پھر فرمایا ''اﷲ تجھے اجر عطا فرمائے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ''کس کے بدلے میں؟‘‘ ارشاد ہوا ''تیرے بھائی عبداﷲ بن جحشؓ کے بدلے میں‘‘۔ اس پر بھی انہوں نے پہلے ہی الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد آپؐ نے پھر فرمایا ''اﷲ تعالیٰ تجھے اجر عطا فرمائے‘‘۔ پوچھا ''کس کے بدلے میں؟‘‘ تو فرمایا ''تیرے شوہر‘ مصعب بن عمیرؓ کے بدلے میں‘‘ یہ سن کر سیدہ حمنہؓ کی چیخ نکل گئی۔ آنحضوؐر پر بھی رقت طاری ہوگئی اور آپؐ نے فرمایا: ''عورت کے لیے اس کے نیک شوہر کا جو مقام ہے وہ کسی دوسرے کا نہیں ہو سکتا‘‘۔
رسول اﷲﷺ نے اس موقع پر اپنی پھوپھی زاد بہن کو تسلی دی اور جب وہ پُرسکون ہوئیں تو آپؐ نے پوچھا ''تمھاری یہ کیفیت کیوں ہوگئی تھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ''یارسول اﷲ مصعبؓ بہت عظیم اخلاق کے مالک تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں‘‘۔ آپؐ نے اپنی بہن اور ان کے بچوں کے حق میں دعائے خیر مانگی۔ حضرت حمنہؓ نے معروف صحابی حضرت طلحہ بن عبیداﷲؓ سے دوسری شادی کی۔ ان سے سیّدہ حمنہؓ کوحضرت محمد بن طلحہؓ جیسا عظیم سپوت اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ حضرت طلحہؓ بہت مالدار تھے اور مصعبؓ کے یتیم بچوں کے ساتھ ان کا سلوک اتنا کریمانہ تھا کہ لوگ اسے ضرب المثل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔
مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے سیّد الانصار حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ امِ سعدؓ نظر آئیں۔ اس وقت آنحضورؐ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت سعد بن معاذؓ نے گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اپنی والدہ کو دیکھ کر انھوں نے کہا ''یارسول اﷲﷺ! میری والدہ آ رہی ہیں‘‘۔ جب وہ قریب پہنچیں تو آنحضورؐ نے اپنا گھوڑا روک لیا، امِ سعدؓ کی تعظیم کی اور انہیں سلام کہنے کے بعد ان کے بیٹے عمرو بن معاذؓ کی شہادت پر ان سے تعزیت کی۔ عمرو بن معاذؓ شہادت کے وقت 32 سال کے تھے۔ انہیں ضرار بن خطاب نے شہید کیا تھا۔ قاتل نے ازراہِ تمسخر کہا تھا کہ چل نوجوان میں موٹی آنکھوں والی حور سے تیری شادی کروا دوں۔ آنحضورؐ نے اس بات کی گواہی دی کہ عمرو بن معاذؓ جنت میں پہنچ گئے ہیں جہاں حوریں ان کے استقبال کے لیے منتظر تھیں۔
امِ سعدؓ بھی کتنی عظیم خاتون تھیں۔ اپنے لختِ جگر کی شہادت پر کہا ''یارسول اﷲﷺ! یہ صدمہ تو بہت بڑا صدمہ ہے، مگر آپؐ کو اپنے سامنے زندہ دیکھ کر صدمہ بہت ہلکا ہو گیا‘‘۔ ام سعدؓ کی اس بات سے آنحضورؐ بہت متاثر ہوئے اور آپ نے جملہ شہدائے احد کے پسماندگان کے حق میں دعا کی۔ آپؐ نے فرمایا ''اے امِ سعد! مجھ سے یہ خوشخبری سن لے اور تمام شہداء کے اہل و عیال کو یہ خوشخبری سنادے کہ وہ سب وہاں اکٹھے ہیں اور خوش و خرم ہیں اور انہوں نے اپنے پسماندگان کے حق میں بھی اﷲ تعالیٰ سے شفاعت کی ہے‘‘۔ ام سعدؓ نے یہ سننے کے بعد کہا ''یارسول اﷲﷺ! ان بشارتوں کے بعد اب اپنے بچھڑنے والوں پر کیوں کوئی آنسو بہائے؟‘‘ آپؐ نے اس موقع پر دعا فرمائی تھی ''اے اﷲ! شہداء کے لواحقین کے غم دور فرما دے۔ ان کی اس مصیبت میں ان کا مددگار بن جا اور انھیں نعم البدل عطا فرما‘‘۔ 
3ھ کے ماہ شوال میں جنگ احد لڑی گئی تھی۔ جس روز آنحضوؐر مدینہ میں داخل ہوئے وہ شوال کی پندرہ تاریخ تھی۔ آپؐ زخموں سے چور تھے۔ آپؐ کو سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے گھوڑے سے اتارا۔ پھر آپؐ ان دونوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں آکر آپؐ نے اپنی تلوار اپنی بیٹی خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ کے حوالے کی اور فرمایا ''پیاری بیٹی! اسے دھو کر خون اتار دو۔ بخدا آج کے دن اس نے میرا خوب ساتھ دیا ہے‘‘۔ اسی دوران میں سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے بھی اپنی تلوار سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ کی طرف بڑھائی اور فرمایا ''اسے بھی صاف کردو بلاشبہ یہ قابلِ تعریف تلوار ہے۔ اس نے میرے دل کو خوب ٹھنڈا کیا ہے‘‘۔ کثرتِ قتال سے حضرت علیؓ کی تلوار ٹیڑھی ہوگئی تھی۔ انہوں نے اس کی جانب اشارہ کیا تو آنحضوؐر نے برجستہ فرمایا ''اے علی! بلاشبہ تو نے اپنی تلوار کے خوب جوہر دکھائے، مگر سہل بن حنیفؓ، ابودجانہؓ ، عاصم بن ثابتؓ اور حارث بن صمہؓنے بھی شمشیر زنی کا حق ادا کیا ہے‘‘۔
جنگ کے بعد ہر گھر میں میدان جنگ کے واقعات زیرِ بحث تھے، بعض لوگ حیران تھے کہ یہ سارا کچھ کیسے ہو گیا۔ اس جنگ پر جامع ترین تبصرہ خود خالق کائنات نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ ان شاء اﷲ وہ تبصرہ آیندہ نذرِ قارئین کیا جائے گا۔ جب آنحضوؐر کے گھر میں تلواریں دھوئی جا رہی تھیں اور زخمیوں کی شدتِ تکلیف اور شہداء کی جدائی کا غم ہر گھر میں موضوع گفتگو تھا تو آنحضوؐر نے حضرت علیؓ سے فرمایا ''ان شاء اﷲ مشرکین پھر کبھی ہمارے مقابلے پر ایسی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان پر فتح مبین عطا فرمائے گا‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ احد کے بعد پھر کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ کافروں کو صحابہ کرامؓ کے مقابلے پر برتری حاصل ہوئی ہو۔ آنحضورؐ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فتوحات پر فتوحات حاصل کیں اور جب آپؐ اپنے رفیق اعلیٰ کی جانب رختِ سفر باندھ رہے تھے تو جزیرہ نما عرب میں اسلام کے مدّمقابل کوئی قوت باقی نہیں رہ گئی تھی۔
ایک سال قبل جنگ بدر نے مکے کے ہر گھر میں صف ماتم بچھا دی تھی۔ اب جنگ احد کی وجہ سے مدینہ منورہ کا ہر گھرانہ سوگوار تھا۔ معرکہ بدر اہل کفر کے لیے اﷲ کی پکڑ اور اس کا عذاب ثابت ہوا جبکہ جنگ احد میں اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایش میں ڈالا۔ قرآن کے الفاظ میں اﷲ تعالیٰ اہل ایمان میں سے شہداء کی صورت میں کچھ بندوں کو اٹھا کر ان کے درجات بھی بلند کرنا چاہتا تھا اور اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی کا امتحان بھی لینا چاہتا تھا۔ اُحد میں ستّر مسلمان شہید ہوئے جبکہ بدر میں بھی ستّر کفار مارے گئے تھے۔ سورہ آلِ عمران کی آیت 165 میں اﷲ تعالیٰ نے اس جانب اشارہ کیا ہے۔
عددی لحاظ سے دونوں جنگوں میں فریقین کے علی الترتیب ستّر ستّر افراد قتل ہوئے مگر فوجی تناسب سے مسلمانوں کا جانی خسارہ دس فیصد تھا، جبکہ کفار کا خسارہ ۷ فیصد تھا۔ دونوں جنگوں کے بعد کی فوری صورت حال کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر دو فریقوں نے جنگ کے نتائج پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف رد عمل کا اظہار کیا۔ یہ بالکل فطری امر تھا۔ اہل اسلام کے نزدیک علی وجہ البصیرت زندگی اﷲ تعالیٰ کی امانت ہے اور مومن بطیب خاطر اسے اﷲ کے ہاتھ فروخت کر چکا ہے۔ لہٰذا جب یہ جان اﷲ کی راہ میں کام آ جائے تو بندہ مومن سمجھتا ہے کہ حق بحق دار رسید بلکہ بقول شاعر:
جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved