تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     13-12-2017

شہسواروں کے پاس لگتا ہے کوئی پلان نہیں!

خواہشات کے قطب مینار ہیں۔ یہ ہو جائے وہ ہو جائے لیکن جسے کہتے ہیں باقاعدہ پلان‘ تمام آثار بتاتے ہیں کہ وہ کوئی نہیں۔ بس توّکل سے کام چل رہا ہے کہ خواہشات پوری ہو جائیں اور من پسند سیاسی نتائج حاصل ہوں۔ نواز شریف ہٹ چکے، ہو سکتا ہے نیب کیسوں میں سزا یافتہ بھی ہو جائیں‘ لیکن اس کے بعد کیا؟ (ن) لیگ کی حکومتیں قائم ہیں‘ اور سوائے اِکا دُکا پنچھیوں کی اڑان کے جماعت کی دونوں اکثریتیں، مرکز اور پنجاب میں، جُوں کی تُوں مضبوط ہیں۔
خواہشات کے مطابق اب تک (ن) لیگ میں بڑے پیمانے پہ توڑ پھوڑ ہونی چاہیے تھی۔ بغاوت کے عَلم بلند ہونے چاہئیں تھے‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہاں یہ بھی دُرست ہے کہ نواز شریف کی خواہشات کے مطابق جی ٹی روڈ کے ارد گرد (ن) کے ووٹر اٹھ کھڑے نہیں ہوئے اور عدالتوں پہ یلغار نہیں کی‘ لیکن اُلٹی بات بھی نہیں ہوئی کہ نااہلی کے فیصلے کے بعد (ن) لیگ کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ شورش پیدا ہو کہ نواز شریف کو ہٹا کے شہباز شریف پارٹی کی قیادت کریں۔ پارٹی پہ قبضہ مکمل طور پہ نواز شریف کا ہے‘ اور شہباز شریف پرانی تنخواہ پہ آنیاں جانیاںدکھا رہے ہیں۔
ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ بیت گیا پاناما کے قصّے کو اٹھے ہوئے۔ قوم و ملک کے اور اصطبل کیا صاف ہونے تھے، صرف نواز شریف ہی جزوی طور پہ فارغ ہوئے ہیں۔ جزوی یوں کہ وزارت عظمیٰ سے گئے‘ لیکن جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے سیاست اور پارٹی قیادت پہ بدستور قائم ہیں۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ ساری جستجو سے حاصل کیا ہوا سوائے ایک جزوی اور آدھے سر کے؟ ایک آدھ دھرنا بھی ہو گیا، فیصل آباد میں سیالوی اِکٹھ ہو گیا، ماڈل ٹاؤن رپورٹ بھی آ گئی۔ ہر بار دھواں ضرور اُٹھا اور ہم جیسوں نے‘ جو چینلوں پہ چھریاں تیز کرتے ہیں‘ بھاری اور سنسنی پھیلانے والے تبصرے کیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تغیّر کی موجیں تیز ہوتیں‘ لیکن اُس کے برعکس ایک ساکت صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ قدم تو اُٹھ رہے ہیں لیکن ایک ہی جگہ پر۔ حالات آگے کی طرف نہیں جا رہے۔ افراتفری ہے لیکن اتنی نہیں کہ کوئی چیئرمین ماؤ کہہ سکے کہ "There is great disorder under the heavens and the situation is excellent" یعنی آسمانوں کے نیچے خرابی بہت ہے اور حالات بہترین ہیں۔ یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ نیب عدالت کے عزت مآب جج جناب محمد بشیر کے کندھوں پہ ڈالا ہوا ہے کہ اُن کے فیصلے آئیں گے‘ اور پھر کوئی بات بنے گی۔
اس سے تو اچھا تھا کہ نواز شریف وزیر اعظم رہتے اور روزمرّہ کی بنیاد پہ پاناما پیپرز کے حوالے سے اُن کی چینلوں پہ لے دے جاری رہتی۔ اقتدار میں رہتے لیکن بے اَثر اور ناتواں حیثیت میں۔ نااہل ہونے کے بعد اُن کا انداز قدرے جارحانہ یا defiant ہو گیا ہے‘ جس سے اُنہیں سیاسی فائدہ پہنچا ہے۔ شہباز شریف یا چوہدری نثار بن جاتے تو نقصان ہوتا۔ یہ اداروں سے ٹکر والی بات نہیں۔ وہ کیا ٹکر لے رہے ہیں؟ جی ٹی روڈ پہ ریلی ضرور نکالی لیکن اُس کے بعد ایک دو جلسے ہی کیے۔ باقی وہ اپنی استدعا پیش کر رہے ہیں کہ اُن کے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ایسی بات کرنے کا اُنہیں حق پہنچتا ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو والا معاملہ نہیں کہ 302 کا مقدمہ ہو اور انجام تختہ دار ہو۔ بھٹو کے خلاف تو سخت یا hard کُو (coup) ہوا تھا۔ نواز شریف کے خلاف بہت ہی نرم (soft) قسم کی کارروائی ہو رہی ہے لیکن اِس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے‘ چنداں واضح نہیں۔ 
شہسواروں کا مسئلہ یہ ہے کہ کرنا بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن چلمن کے پیچھے سے۔ یعنی کریں بھی بہت کچھ لیکن ہاتھ نظر نہ آئیں۔ ثقافت کی مخصوص عمارتوں پہ تو ایسی حرکات چل جاتی ہیں‘ لیکن سیاست کے میدان میں ایسی آنکھ مچولی کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ یا تو فوری الیکشن کرائے جاتے اور ایسی عبوری حکومتیں تشکیل دی جاتیں جو احتساب کے عمل کو اس طریقے سے آگے لے جاتیں کہ سب کچھ کا صفایا ہو جاتا۔ ایسا نظام کار بنایا جاتا کہ مقدمات جلد منطقی انجام کو پہنچتے۔ حدیبیہ ریفرنس دوبارہ سے کھولا جاتا، ماڈل ٹاؤن کیس میں جان پیدا کی جاتی اور سب کچھ آئینی مدت ساٹھ (60) دن میں ہوتا اور فوراً بعد الیکشن کروائے جاتے۔ اُن میں جو پارٹی جیتتی اُسے اقتدار سونپا جاتا‘ بیشک وہ جماعت (ن) لیگ ہی ہوتی۔ جنرل یحییٰ یا جنرل ضیاء والا ڈرامہ قطعاً نہ ہوتا کہ من پسند نتائج ہوں تو پھر ہی انتخابات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ افواج ایسی کارروائیاں کریں جن کا اور کوئی بڑا مقصد نہ ہو سوائے سویلین ڈھانچے کو کمزور کرنے کے۔ ایسی سیاسی حکمت عملی قوم کے مفاد میں کہاں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ 2014ء کے دھرنوں کا مقصد تبدیلی ہرگز نہ تھا۔ صرف یہ مقصد تھا کہ سویلین حکومت کمزور ہو۔ کس لئے، کس بڑے مقصد کے حصول کیلئے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری اُن دھرنوں میں استعمال ہوئے۔ عمران خان بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ چابی چلانے والے حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ دونوں کو مایوسی اور سُبکی ہوئی۔ اس لئے قطعاً حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ اس بار ڈاکٹر طاہرالقادری پھونک پھونک کے قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ گردن آگے کریں اور پھر استعمال ہو جائیں۔ یہ احتیاط بجا ہے کہ شہسواروں کے پلان کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں۔ یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا پلان ہے بھی یا نہیں۔ سب کچھ ہوا میں ہے۔ کشتی دریا بُرد ہے لیکن دُورکنارہ آنکھوں سے اُوجھل۔
ہم جیسے تو ہر ہلہ شیری میں شامل ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم چارپائیوں کے مجاہد ہیں، چاہتے ہیں کہ چیزیں آگے کو جائیں، تبدیلی آئے، دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی لہریں ساکت نہ ہوں۔ یہ ہم ٹھیک سمجھتے تھے کہ 30-35 سال کی ایک ہی طرز کی حکمرانی ملک و قوم کیلئے اچھی نہیں۔ جنرل ضیاء کو گئے ایک عرصہ بیت چکا‘ لیکن اُن کی پیدا کردہ سیاسی اولاد ملک کی قسمت پہ اب تک براجمان ہو‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ خوش نصیب ٹولہ بیس سال اور اقتدار میں رہے تو وہی کر سکتا ہے‘ جو پہلے کیا۔ وہ کیا انگریزی کا محاورہ ہے کہ پرانے بندروں کو نئے کرتب نہیں سکھائے جا سکتے۔ جب پاناما پیپرز کی پاداش میں شور اُٹھا تو اُسے غنیمت سمجھتے ہوئے بُہتوں نے جس حد تک ممکن ہو سکا اپنا حصہ ڈالا۔ صرف اس لئے کہ کچھ تو ہو، کچھ تو ملکی حالات تبدیلی کی طرف چلیں۔ مسئلہ بھی ایسا تھا، کسی ISI کا بنایا ہوا نہیں بلکہ آسمان سے گرا ہوا۔ اس سے کچھ تو نکلنا چاہیے تھا۔ نکلا بھی کیونکہ وزیر اعظم کی نااہلی چھوٹی بات نہیں لیکن اُس کے بعد حالات کی رفتار سست ہو چکی‘ جس سے یہ خیال تقویت پکڑتا ہے کہ جن ذہنوں میں ایک خاص نقشہ ہونا چاہیے تھا، نہیں ہے۔ معجزات کا انتظار ہے اور ڈھیلی ڈھالی اُمیدوں پہ تکیہ کیا جا رہا ہے۔ کیا اسے مثالی صورتحال کہا جا سکتا ہے؟
سب سے بھونڈی تجویز لمبے عرصے کی عبوری حکومت کی ہے۔ یہ دُرست ہے کہ مملکت کے کاروبار میں دانائی اور سوچ کی کمی ہے۔ لیکن اگر موجودہ حکومتی انتظام میں نقائص ہیں اور افواج کی سوچ محدود ہے تو یہ کمی ہمالیہ سے اُترے ہوئے کون سے سقراط پوری کریں گے؟ ہماری تاریخ میں نام نہاد ٹیکنوکریٹ پہلے بھی رہے ہیں۔ اُنہوں نے کیا کارنامے سرانجام دئیے؟ جنرل مشرف کی ٹیم میں بھی بہت سے ٹیکنوکریٹ تھے۔ شوکت عزیز اسی قماش کے تھے اور اُن سے بڑا فنکار اور چرب زبان کون تھا؟ فوجی اَدوار بھی ہم دیکھ چکے۔ الیکشن کا متبادل کچھ نہیں۔ ہاں اچھی عبوری حکومت ہو اور اس میں تگڑے آدمی ہوں جو محدود عرصے میں ملکی حالات کو سہارا دیں۔ لیکن پھر فوری الیکشن ہوں چاہے اُن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved