تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-03-2013

بات تو اچھی کرنی چاہیے

اس وقت ملک میں سب سے بڑا کنفیوژن یہ ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ کوئی شخص انتخابات کے التوا کا خواب بھی نہ دیکھے۔ سپہ سالار کا بیان ہے کہ ہم جمہوری عمل کے تسلسل پر یقین رکھتے ہیں اور کسی غیر جمہوری قدم کی حمایت نہیں کریں گے۔ ساری اپوزیشن جمہوریت اور جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے یک زبان ہے۔ حکومت بھی وقت پر الیکشن کروانے کے لیے نہ صرف زبانی طور پر تیار ہے بلکہ ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے اب اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کرتی نظر آ رہی ہے۔ اسمبلیوں کی رخصتی کا دن اب بظاہر محض ایک ہفتے کے فاصلے پر ہے۔ درمیان میں اُٹھنے والے مشکوک شوشے اپنی موت آپ مر چکے مگر ان تمام مثبت باتوں کے باوجود الیکشن کا بروقت انعقاد آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک کے تمام مقتدر حلقے، سٹیک ہولڈر اور ظاہری حالات، تمام کے تمام بروقت انتخابات کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تمام تر حالات انتخابات کے لیے سازگار ہیں مگر چند نہیں بلکہ بے شمار صاحب علم، سیاسی شعور رکھنے والے اور اڑتی چڑیا کے پر گننے کے دعویدار ٹائپ دانشور اس سلسلے میں صرف شکوک و شبہات کا شکار ہی نہیں بلکہ بڑے تیقن سے کہہ رہے ہیں کہ بروقت انتخابات کا انعقاد ’’مشکل‘‘ ہے۔ کسی کے پاس کوئی دلیل، کوئی ٹھوس ثبوت یا کوئی منطقی بات نہیں۔ بس چھٹی حس کے گھوڑے پر چڑھ کر اندازوں کی تلوار چلا رہے ہیں۔ دلائل و براہین کا یہ عالم ہے کہ جب کوئی بات نہیں بنتی تو فرماتے ہیں کہ اب دیر کتنی رہ گئی ہے؟۔ چند روز کا معاملہ درمیان میں ہے آپ کو خود پتہ چل جائے گا۔ یہ بات وہ اتنے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ بندے کا ’’تراہ‘‘ نکل جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ میں لاہور کے ایک ہوٹل کی لابی میں کھڑا تھا۔ وہاں اور اخبار نویس بھی موجود تھے۔ میں اور مشتاق منہاس آپس میں کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اسلام آباد کے ایک اخبار کا مالک ہمارا دوست بھی آ گیا۔ ہمارا یہ اسلام آبادی صحافی دوست خاصی پہنچی ہوئی چیز ہے۔ اندرونی حلقوں تک رسائی رکھتا ہے اور چیزوں کو سمجھتا ہے۔ چند منٹ تو اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر اچانک انتخابات کا ذکر آ گیا۔ مشتاق منہاس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا خیال ہے۔ الیکشن وقت پر ہوں گے یا نہیں؟۔ میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ میرے خیال میں انتخابات وقت پر ہو جائیں گے۔ مشتاق منہاس نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بھی یہی خیال ہے۔ ہمارا اسلام آباد کے اخبار کا مالک دوست بڑے وثوق سے کہنے لگا کہ انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ میں ہنسا اور اسے مخاطب کرکے کہا کہ حضور! پتہ ہمیں بھی نہیں ہے اور پتہ آپ کو بھی نہیں ہے مگر کم از کم ہم نے بات تو اچھی کی ہے۔ اس بات پر بڑا زوردار قہقہہ پڑا۔ میں نے کہا یہ موضوع بڑا ثقیل اور بدمزہ سا ہے اور اس پر ہر روز بے شمار مرتبہ گفتگو کرنے کے باوجود بات ذاتی اندازوں سے آگے نہیں جاتی۔ ایسی صورت میں جب ہم میں سے کسی کے پاس کوئی ٹھوس دلیل، کوئی ثبوت یا کوئی پکی شہادت نہیں ہمیں اس کنفیوژن کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے اور مثبت سوچ کے تحت مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے کم از کم بات ضرور اچھی کرنی چاہیے جیسا کہ محبوب قریشی کے ’’چچا‘‘ نے کی تھی۔ ’’محبوب قریشی ہمارا دوست ہے۔ مظفر گڑھ کے ایک قریبی قصبے سے تعلق رکھتا ہے اور انجینئر ہے۔ پیشے کے برعکس ادب دوست آدمی ہے اور سرائیکی سپیکنگ ہونے کے باوجود بڑی مسجع و مقفع اردو بولتا ہے کہ اس کی زبان کی نوک پلک ابو الفضل صدیقی کی کتابوں کو حفظ کرنے کے باعث مثالی ہو چکی ہے۔ ایک دن پرانا قصہ سنانے لگا کہ ان کے گائوں میں چچا فلاں (میں نام بھول گیا ہوں) افیون کھاتا تھا۔ گائوں کی روایت کے مطابق ہر بزرگ شخص آپ کا چچا ہوتا ہے لہٰذا یہ افیونی بزرگ بھی سارے گائوں کا چچا تھا اور لازمی امر ہے کہ وہ اس لحاظ سے محبوب قریشی کا بھی چچا تھا۔ ساری عمر افیون کھاتے گزر گئی تھی اور اب اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور محال تھا۔ تمام معاملات ٹھیک جا رہے تھے۔ افیون کا ٹھیکہ خان گڑھ میں تھا جو ان کے گائوں سے زیادہ دور نہیں تھا لہٰذا زندگی جو پہلے ہی مزے میں تھی افیون کے طفیل اور بھی مزے سے گزر رہی تھی لیکن بقول محبوب قریشی ’’چرخ ناہنجار کو چچا کا سکون اور اطمینان ایک آنکھ نہ بھایا اور ایک ناگہانی آفت بمثل سکائی لیب چچا پر آن گری۔‘‘ مصیبت یہ آن پڑی کہ حکومت نے افیون پر پابندی عائد کر دی۔ افیون کے ٹھیکے منسوخ کر دیے اور دکانوں کو تالا لگا دیا گیا۔ چچا پر بیٹھے بٹھائے آفت ٹوٹ پڑی۔ زندگی بے رنگ و بے رونق ہو گئی۔ دنیا کی تمام دلچسپیاں ماند پڑ گئیں اور ساری خوشیاں رخصت ہو گئیں۔ (یہ سارا محبوب قریشی کا بیان ہے)۔ چچا ہمہ وقت اداس و غمگین تھا۔ پچھلے چار پانچ عشروں سے افیون کے موبل آئل کی چکناہٹ سے رواں رہنے والی چچا کی جسمانی گاڑی کے کل پرزے مکمل جام ہو چکے تھے اور چچا جو کہ بڑا بذلہ سنج اور زندہ دل تھا، غصیل لڑاکا اور چڑچڑا ہو گیا۔ گائوں کے تمام لڑکے اور نوجوان جو چچا سے ہنسی مذاق اور شغل میلہ کرتے تھے، چچا کو جا کر چھیڑتے مگر جواباً اب چچا خاموش رہتا یا ڈانٹ دیتا۔ حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور زندہ دلی رخصت ہو چکی تھی۔ دوپہر گھر کے باہر چارپائی پر اداس و غمگین چچا بھلے وقتوں کو یاد کرتا تھا اور اس دور کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتا جب خان گڑھ میں افیون کا ٹھیکہ چلا کرتا تھا اور چچا وہاں دیگر افیونیوں سے افیون کی اقسام، اس کی خوبیوں کے استعمال کے مثبت اثرات اور افیونیوں کے اقوام عالم پر کیے گئے احسانات جیسے اعلیٰ موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد چچا نے حکومت اور حکمرانوں کی شان میں تبرا کرنا شروع کر دیا اور نہایت خلوص کے ساتھ ان کی بربادی کی دعا بھی کی۔ باآواز بلند گالیاں دے دے کر جب چچا کا گلا بیٹھ گیا تو ایک لڑکے نے چچا کو کہا کہ چاچا! ملتان اچ ہفیم دا ٹھیکہ کھل گیا۔ اتھاں ہفیم عام وکدی پئی اے۔ (چچا! ملتان میں افیون کا ٹھیکہ کھل گیا ہے اور وہاں افیون کھلے عام بک رہی ہے)۔ چچا نے یہ خوشخبری سن کر لرزتے ہاتھوں سے جیب سے ایک روپے کا سکہ نکالا (تب ایک روپیہ اور وہ بھی گائوں میں۔ اچھی خاصی معقول رقم تھی) اور نوجوان کو انعام میں عطا کیا اور اس کی درازی عمر کی دعا بھی کی۔ لڑکا روپیہ لے کر چمپت ہو گیا۔ محبوب قریشی کہتا ہے ہم نے کہا چچا! یہ لڑکا تمہیں لوٹ کر لے گیا ہے۔ اس نے تم سے جھوٹ بول کر ایک روپیہ مار لیا ہے۔ چچا مسکرایا اور کہنے لگا۔ محبوب پوترا تیڈا کیا خیال ہے میں ہندوستان اچ راہناں؟ میکوں سب پتہ اے کہ پورے ملک اچ ہفیم بند ہے۔ ملتان کوئی جاپان وچ کے نئیں کہ اتھاں ہفیم کھلی ہووے تے اتھاں خان گڑھ اچ بند ہووے۔ تیڈا خیال اے میں کوئی پاگل آں؟۔ کوئی بال آں؟۔ (محبوب بیٹا! تمہارا کیا خیال ہے میں کوئی ہندوستان میں رہتا ہوں؟۔ مجھے سب پتہ ہے کہ پورے ملک میں افیون بند ہے۔ ملتان کوئی جاپان میں نہیں وہاں افیم کا ٹھیکہ کھلا ہو اور یہاں خان گڑھ میں بند ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے میں کوئی پاگل ہوں یا کوئی بچہ ہوں؟) چچا مسکرایا اور کہنے لگا۔ مجھے سب پتہ ہے۔ میں نے اسے ایک روپیہ صرف اس بات پر دیا ہے کہ اس نے کم از کم بات تو اچھی کی ہے۔ جب بات محض اندازوں پر قائم ہو تو اندازے مثبت ہونے چاہئیں اور بات تو کم از کم اچھی کرنی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved