عزیزی نواز شریف!
السلامُ علیکم‘ آپ کو عالم بالا سے پہلے بھی ایک خط کے ذریعے مشورہ دیا تھا کہ آپ حکومت چھوڑ دیں مگر آپ نے میری بات نہیں مانی اور اب دنیا بھر سے پوچھتے پھرتے ہیں ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ یہاں پہنچنے والی خبروں کے مطابق آپ کو اب تک اس سوال کا وہ جواب نہیں مل سکا جو آپ کی تشفی کر سکے۔ اگلے روز میں نے یہی تذکرہ جنرل ایوب خان کے سامنے کیا تو انہوں نے سگار کا گہرا کش لگا کر کہا، ''حسین شہید سہروردی، چودھری محمد علی اور فیروز خان نون کو بھی یکے بعد دیگرے جب وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تھا تو ان میں سے ہر ایک بار بار یہی پوچھتا تھا کہ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ میں نے اس پر انہیں بتایا کہ ذوالفقارعلی بھٹو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکنے سے چند گھنٹے پہلے تک جیلر سے یہی پوچھ رہے تھے۔ جنرل صاحب میری بات پر کافی دیر تک ہنستے رہے‘ پھر مجھے ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگانے پر شاباش دی اور فرمایا، ''وہ بہت ذہین تھا لیکن بہت اکڑفوں تھا، تم نے اسے بہت اچھے طریقے سے ہینڈل کیا‘‘۔ آپ کو یہ سن کر شاید خوشی ہو گی کہ آپ کا یہ سوال ہماری مجلسوں میں تفنن طبع کا باعث ہے۔ مہینہ بھر پہلے جنرل یحییٰ خان لڑکھڑا کر شہد کی نہر میں گر گئے، غلام اسحٰق خان قریب ہی بیٹھے تھے انہوں نے لپک کر جنرل صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں باہر نکلنے میں مدد دی تو وہ اپنی دھن میں یہی پوچھتے رہے، ''مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا‘‘۔ انہوں نے آپ کا یہی فقرہ اتنی بار اور اتنے مختلف طریقوں سے دہرایا کہ شام تک حور و غلمان کی زبانوں پر بھی آپ کا یہ پُرمغز جملہ کسی مقبول گیت کی طرح چڑھ چکا تھا۔ خیر معاف کیجیے گا‘ بات دوسری طرف نکلتی جا رہی ہے۔ اس خط کا مقصد آپ کو کچھ نئے زمینی حقائق سے روشناس کرانا ہے‘ اور آپ کے والد سے میرے تعلقات کا تقاضا ہے کہ جب آپ کچھ غلط کر رہے ہوں تو میں آپ کو نہ صرف سمجھانے کی کوشش کروں اور اگر ضرورت پڑے تو ہلکی پھلکی گوشمالی بھی کر دوں۔
عزیزم! جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان تو آپ کو براہ راست نہیں جانتے مگر ان تک آپ کے حوالے سے جو کچھ باتیں پہنچتی ہیں، ان کی روشنی میں وہ یکسوئی سے آپ کو ناقابل برداشت قرار دے چکے ہیں۔ میں، غلام اسحٰق خان اور جنرل آصف نواز تو آپ کو براہ راست جانتے ہیں‘ تو ہماری بھی سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ پاکستان کو اب آپ کی ضرورت نہیں۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ہم سب نے جنرل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کا چلتے رہنا ہی مناسب ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت مثبت نتائج پیدا کرے۔ مثبت نتائج سے مراد ہے کہ جو پارٹی بھی زیادہ ووٹ لے کر آئے وہ حکومت بنائے لیکن اس سے پہلے اپنے ناپسندیدہ عناصر سے نجات پا لے۔ جو سیاسی جماعت ایسا نہیں کر پائے گی تو ملکی نظام اس کے خلاف حرکت میں آئے گا اور قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔ مجھے کوئی بتا رہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بات کسی ذریعے سے آصف علی زرداری تک بھی پہنچا دی ہے اور ان کا رویہ بتا رہا ہے کہ انہیں اس طرح کے بندوبست پر کوئی اعتراض نہیں۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ذمے لگایا گیا ہے کہ وہ عمران خان سے کوئی رابطہ کریں اور انہیں عالم بالا میں ہونے والے اس فیصلے سے آگاہ کر دیں۔
میرے عزیز میاں صاحب! مثبت نتائج کبھی بھی بغیر قربانی دیے پیدا نہیں کیے جا سکتے اور چونکہ آپ تین بار پاکستان کے منتخب وزیر اعظم رہ چکے ہیں‘ اس لیے آپ کو قربانی بھی سب سے زیادہ دینا ہو گی۔ یہاں پر ہونے والے فیصلوں اور اپنے تجربات کے پیش نظر میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی ملکی سیاست یا حکومت میں واپسی مثبت نتائج نہیں دے سکتی۔ آپ کے خلاف زمینی اور آسمانی نظام میں اتنی نفرت پیدا ہو چکی ہے کہ میں اپنی تمام تر محبت کے باوجود بھی کسی کو آپ کی واپسی پر مائل نہیں کر سکا۔ ان حالات میں آپ سے یہی امید ہے کہ آپ خاموش ہو کر لندن یا پاکستان‘ جہاں آپ کا دل چاہے‘ بیٹھ جائیں اور حالات بدلنے کا انتظار کریں۔ میرے لیے ذاتی طور پر تو آپ کی اقتدار سے مستقل علیحدگی کا فیصلہ ہی قابل افسوس تھا، مگر مجھے ہدایت ہے کہ میں آپ کو مریم بیٹی کے حوالے سے بھی ایک تلخ فیصلے سے آگاہ کر دوں اور وہ یہ کہ مریم بیٹی دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن نہیں لڑیں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو یہ سن کر شدید صدمہ ہو گا مگر آپ یہ سوچ کر دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ ان کو صرف دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے ہی دور رکھا گیا ہے، پانچ سال بعد وہ اطمینان سے الیکشن لڑیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کو یہ فیصلہ بہت برا لگے گا اور کچھ لوگ آپ کو اکسائیں گے‘ مگر آپ اگر یہ فیصلہ قبول کر لیں گے تو یقین مانیے آپ کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں گی‘ اور مریم بی بی کے لیے بھی حالات ٹھیک ہونے کا راستہ نکلنے کی امید پیدا ہو جائے گی۔ جس طرح غیب سے مشکلات آپ پر برسی ہیں‘ اسی طرح غیب کے انتظامات سے سہولیات بھی پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ میں ایک باپ کے طور پر آپ کا رنج بخوبی سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنی نورِ چشم کے بارے میں بہت کچھ سوچ رکھا ہو گا‘ مگر میں زیادہ تفصیل میں جائے بغیر آپ کو صرف اتنا یاد دلانا چاہوں گا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو اپنی زندگی میں وزیر اعظم بنانے کا خواب دیکھا تھا لیکن اس خواب کا انجام کیا ہوا؟ دنیا کا ہر باپ اپنی بیٹی کے لیے خوبصورت خواب ہی دیکھتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر خواب کی تعبیر بھی اتنی ہی خوبصورت ہو۔
میرے پیارے نواز شریف! آپ کی تابعداری اور بزرگوں کی تکریم کا میں بہت قائل ہوں۔ مجھے کئی بار غلام اسحٰق خان اور جنرل آصف نواز جنجوعہ نے بتایا ہے کہ میرے عالم بالا چلے آنے کے بعد آپ نے تابعداری کا معیار گرا دیا ہے‘ لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ میرا دل کہتا ہے کہ آپ میری بات اسی خشوع و خضوع سے مانیں گے جیسے انیس سو اسی سے لے کر میری شہادت تک مانتے رہے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر چند دن کی خاموشی اختیار کرکے یہ پیغام دیں‘ تاکہ میں یہاں عالم بالا میں اپنے سینئرز کے سامنے سرخرو ہو سکوں۔ ممکن ہے آپ کے بدخواہ آپ کی خاموشی پر کسی ڈیل کی پھبتی کسیں‘ لیکن آپ ان کی باتوں میں آنے کی بجائے چودھری نثار علی خان ، عزیزی شہباز شریف اور برخوردار حمزہ شہباز سے مشاورت کریں گے تو آپ کے ذہن کی گرہیں کھلنے لگیں گے۔ میں آپ پر یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بات نہ ماننے کی صورت میں آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا‘ جو آپ سے دیرینہ تعلق کی وجہ سے میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گا۔ ہاں یاد آیا‘ مریم بیٹی کو میری طرف سے پیار دیجیے گا اور یہ بھی سمجھا دیجیے گا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ وہ جو باتیں دوسروں کے بارے میں اپنی مجلس میں بیٹھ کر کرتی ہیں وہ بتمام و کمال یہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔ مجھے کوئی بتا رہا تھا کہ آج کل آمریت کی باتیں کرتے ہوئے دو چار بار انہوں نے میری بھی مثال دے ڈالی، مجھے یہ سن کر دکھ ہوا مگر امید بھی بندھی کہ آپ انہیں اپنے اور میرے تعلقات کے بارے میں اچھی طرح سمجھا دیں گے۔ اس خط کو میرا آخری خط ہی سمجھیں، آئندہ کے رابطے آپ کے رویے پر منحصر ہیں۔
آپ کا خیر خواہ‘ جنرل ضیاء الحق
پس نوشت: میں نے سنا ہے کہ آپ جاوید ہاشمی کو واپس اپنی جماعت میں لے رہے ہیں۔ اگر آپ اس طرح کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں لائیں گے تو پھر میں کسی ڈیل کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ ض ح