کوئی سوا سات سو صفحات پر مشتمل اس جریدے کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے جسے ملک کے محبوب ادیب انتظار حسین کے لیے ایک شایان شان شمارہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں مُلک کے نامور ادیبوں کی طرف سے مرحوم کو نظم و نثر میں خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ اُن کی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جو مرحوم کی مختلف اوقات میں اور مقامات پر لی گئی تصاویر سے بھی مزین ہے۔ آغاز میں مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی کا خصوصی پیغام ہے جس میں درج یہ تاریخی جملہ بجائے خود ایک خصوصی اعتراف حقیقت ہے کہ ایک اور انتظار حسین کے لیے ہمیں صدیوں انتظار کرنا ہو گا‘ اور اس میں چیئرمین اکادمی ڈاکٹر قاسم بگھیو اور ان کے رفقائے کار کو اس بیش قیمت کاوش پر مبارکباد پیش کی گئی ہے۔ سرورق بلیک اینڈ وائٹ میں مرحوم کی تصویر سے مزین ہے۔ ابتداء مرحوم ہی کے ایک مضمون ''میری کہانی‘‘ سے کی گئی ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی اور فن پر مختصر گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد ''انتظار حسین شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر مستنصر حسین تارڑ‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ مبین مرزا‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ ڈاکٹر انور احمد اعجاز‘ منزہ مبین‘ رابعہ اقرا‘ اور ''یادیں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر انور سدید‘ منو بھائی‘ عبدالقادر حسن‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ مسعود اشعر‘ عطاء الحق قاسمی‘ امجد اسلام امجد‘ تنویر ظہور‘ فریدہ حفیظ‘ سلطان کھاروی‘ شیراز فضل داد‘ تسنیم کوثر‘ ڈاکٹر سائرہ علوی اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کی تحریریں ہیں۔ اس کے بعد انتظار حسین بطور ناول نگار کے عنوان سے ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں‘ سلمی افتخار احمد‘ ڈاکٹر فائز شہزاد‘ ڈاکٹر سلیم سہیل‘ نوشین توقیر‘ ڈاکٹر محمد افضال بٹ‘ نبیل مشتاق‘ عارف حسین اور انتظار حسین بطور افسانہ نگار کے عنوان سے ڈاکٹر اقبال آفاقی‘ محمود احمد قاضی‘ محمد حمید شاہد‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ حنیف باوا‘ ڈاکٹر نثار ترابی‘ محمد عاصم بٹ‘ زاہد حسن‘ ڈاکٹر عباس رضا نیر‘ ڈاکٹر ناہید قمر‘ ظہیر بدر‘ ضیاء المصطفیٰ ترک‘ ڈاکٹر صابر حسین جلیسری‘ ذوالفقار احسن‘ محمد عباس‘ اویس محسن‘ سعدیہ بشیر‘ غلام فرید حسینی‘ سعید ساعی‘ بشری اقبال ملک‘ نازیہ خلیق عباس‘ ڈاکٹر تحسین بی بی کی تحریریں اور اس کے بعد انتظار حسین بطور تنقید نگار کے عنوان کے تحت ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر آصف فرخی‘خالد فیاض اور ڈاکٹر محمد امجد عابد کے مضامین ہیں جبکہ مکالمات انتظار حسین کے تحت مرحوم کے انٹرویوز ہیں جو ڈاکٹر آصف فرخی‘ مبین مرزا‘ مشکور علی نے لیے ہیں اور خطوط میں حنیف رامے بنام انتظار حسین اور انتظار حسین بنام مبین مرزا شامل ہیں۔ اس کے بعد نذرِ انتظار حسین کے عنوان سے محمود احمد قاضی‘ سید ضیاء الدین نعیم‘ حسن عباس رضا‘ جان کاشمیری‘ محمد آصف مرزا‘ سلطان کھاروی‘ مشتاق آثم‘ تبسم صدیقی‘ فرخندہ شمیم‘ راکب راجا‘ یونس صابر‘ میر اسلم حسین سحر‘ اور الیاس بابر اعوان نے مرحوم کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مرحوم کے حوالے سے انگریزی میں لکھے گئے مضامین میں صفدر میر کے مضمون کا ترجمہ سہیل ممتاز خان‘ الوک بھلہ کا ترجمہ رضی مجتبیٰ اور طارق عالم کے مضمون کا ترجمہ رضیہ طارق نے کیا ہے۔ اس کے بعد انتخاب انتظار حسین کے عنوان کے تحت مرحوم کی جن کہانیوں کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے اُن میں آخری آدمی‘ زرد کتا‘ کایا کلپ‘ شہرِ افسوس‘کچھوے‘ اور مورنامہ شامل ہیں، آخر میں ''آخری تحریر‘‘ کے عنوان سے خورشید رضوی پر عربی زبان کے شناور کے عنوان سے مرحوم کا مضمون شامل ہے۔ اس کے بعد آخر میں مرحوم کے تین کالم بزبان انگریزی شامل کئے گئے ہیں۔ اس اہم پیشکش پر ہماری طرف سے بھی اس ادارے کو مبارکباد۔
دنیا زاد‘ کتابی سلسلہ 45
یہ شمارہ اس قدر تاخیر سے آیا ہے کہ ڈر تھا کہیں اسے بند ہی نہ کر دیا گیا ہو کہ اس معیار اور ذرائع کے جریدے روز روز کہاں میسر آتے ہیں۔ موجودہ شمارہ‘ خدا کرے یہ آخری نہ ہو‘ نظم کی تلاش کے عنوان کے تحت ترتیب دیا گیا ہے اداریہ کے بعد شمس الرحمن فاروقی کے دو مضمون ہیں جو انہوں نے ماضی کے ایک گم شُدہ شاعر منشی مظفر علی اسیر اور خلیل الرحمن اعظمی گزشتگان سے آئندگان تک کے عنوان سے رقم کئے ہیں۔ اس کے بعد مضامین کا جو سلسلہ ہے‘ اس میں شب ہراس کے عنوان سے حسن منظر‘ ستر سال کی دوری کے عنوان سے مسعود اشعر‘ گداہن کے عنوان سے ذکیہ مشہدی‘ حکایات جدید ومابعد جدید کے عنوان سے ناصر عباس نیر‘ چوڑھا کے عنوان سے خورشید حسنین کے افسانے ہیں۔ اس کے علاوہ مڑھی کا دیپ کے عنوان سے گردیال سنگھ اور اس مصنف کے افسانے اور مضمون کا ترجمہ انعام ندیم کے قلم سے ہے۔ اس سے پہلے اپنے بیگانے کے عنوان سے شمیم حنفی کا مضمون شامل ہے۔
اس کے بعد انور شعور‘ اکبر معصوم‘ عرفان ستار‘ کاشف حسین غائر اور محمد علی منظر کی غزلیں ہیں۔ بعدازاں باصر سلطان کی غزل اور باصر کاظمی کی شاعری کے عنوان سے انور شعور کا مضمون ہے۔ اس کے بعد زہرا نگاہ‘ کشور ناہید‘ افضال احمدسید‘ سید سلمان ثروت اور ارفع اعزازی کی نظمیں ہیں اور بینا سرکار کی نظموں کا ترجمہ اسد علوی کا پیش کردہ ہے۔ اس کے بعد خالدہ حسین سے گفتگو کے عنوان سے نجیبہ عارف کا لیا ہوا انٹرویو ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں وفات پا جانے والے صاحبِ طرز افسانہ نگار نیر مسعود پر یادِ یارِ مہرباں...نیئر مسعود کے عنوان سے اصغر ندیم سید کا مضمون ہے جس کے بعد نیر مسعود کے افسانے پر محمد حمید شاہد نے گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد لاطینی امریکی ناول نگار اور شاعر ڈیرک والکوٹ کی نظم ''محبت بعد از محبت‘‘ کا انگریزی سے ترجمہ ہے جو انعام ندیم نے کیا ہے۔ اس کے بعد اس ادیب پر ناصر عباس نیر کا مضمون ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں انتقال کر جانے والے افسانہ نگار تصدق سہیل ''پرطوطے والی سرکار‘‘ کے عنوان سے آصف فرخی کا مضمون ہے‘ پھر سلمیٰ اعوان کا سفرنامہ شام کی خانہ جنگی‘ شاعری اور نثر نگاری کے عنوان سے ہے جسے ایک باقاعدہ اور مفصل مضمون بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ناصر عباس نیئر کا مضمون بعنوان ''شاعر قاری کو مسرت نہیں‘ ذمہ داری دیتے ہیں‘‘ شامل ہے جس کے بعد کھنڈال کا پیڑ‘ کے عنوان سے آصف فرخی کا افسانہ اور نوبل انعام کا حقدار کے عنوان سے کاز واوا اشیگرو پر مضمون ہے۔
اُمید ہے اس بے مثل جریدے کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا!
آج کا مقطع
محبت سر بسر نقصان تھا میرا‘ ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا‘ مگر ہونے دیا میں نے