دنیا بھر سے چوبیس گھنٹے طرح طرح کی خبریں آتی ہیں جنہیں پڑھ کر بسا اوقات کم مائیگی کا بہت شدت سے احساس ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا کہیں سے کہیں پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہے اور ہماری دوڑ چند ایسے معاملات تک محدود ہے جو دراصل معمولات کا درجہ رکھتے ہیں مگر ہم اُنہیں کچھ کا کچھ بنانے اور اپنے آپ کو مجموعۂ عجائب ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
سونا معمول ہے۔ دنیا بھر میں لوگ روزانہ سوتے ہیں اور تازہ دم ہوکر اٹھتے ہیں۔ ہم خیر سے سونے کے معمول کو بھی عجوبۂ روزگار بنانے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم زیادہ سوتے ہیں بلکہ اِس سے بھی کہیں زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ ہم بے وقت سوتے ہیں یعنی یہ کہ جب دنیا کے جاگنے کا وقت ہوتا ہے تب ہم بستر پر دراز ہوتے ہیں اور یوں محنت و جاں فشانی کا پورا وقت نیند کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔
جو حال نیند کا ہے اُس سے کہیں زیادہ بُرا حال کھانے پینے کا ہے۔ اہلِ جہاں زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں اور ہم، ایسا لگتا ہے، کھانے کے لیے زندہ ہیں۔ جاگنے کے فوراً بعد منہ ہاتھ دھونے، برش کرنے سے بھی پہلے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ناشتے میں کن کن چیزوں کا اہتمام کیا جائے۔ یہ تو ہوا گھر کا معاملہ۔ گھر سے باہر قدم رکھیے تو قدم قدم پر کھانے اور پینے سے متعلق ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ نظر شرمسار اور عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بظاہر پیٹ بھر کھا چکنے کے بعد بھی جب کوئی نئی یا من پسند چیز دکھائی دے جائے تو ''پلٹنا، جھپٹنا، پلٹ کر جھپٹنا‘‘ کی عملی تصویر بننے میں دیر نہیں لگاتے! اب اگر ضرورت اور گنجائش سے زائد ٹھونسنے کی صورت میں معدے کسی گڑبڑ کا شکار ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ جنہیں کھانے کا جنون کی حد تک شوق ہے وہ بہت کھالینے کے بعد متواتر ڈکاریں آنے پر بھی معدے ہی کو کوستے ہیں، اپنے رویّے اور رجحان پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
ضرورت اور گنجائش سے زائد کھایا ہوا محض خرابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ جسم کو جتنی توانائی درکار ہے اگر اُس سے زائد کا اہتمام کیجیے تو معاملہ ''بیک فائر‘‘ کر جاتا ہے! دنیا والوں کا یہ حال ہے کہ کھاتے ہیں اور تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ کھانے کے بعد ادھ مُوئے سے ہو جاتے ہیں! بعض احباب کو تو ہم نے اِس حالت میں بھی دیکھا ہے کہ کھاتے کھاتے بیزار سے ہو جاتے ہیں اور پھر ''بس یار، اب اور نہیں کھایا جاتا‘‘ کہتے ہوئے پلیٹ ایک طرف رکھتے ہیں! گویا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ جب تک کھایا جاسکتا ہو تب تک تو کھاتے ہی رہنا چاہیے! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے
ویسے تو خیر پورے ملک ہی میں کھانے پینے کا معاملہ حد سے کہیں بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد وغیرہ نے اب تک میدان مار رکھا ہے۔ اہلِ لاہور ''کھابوں‘‘ کے ایسے شوقین ہیں کہ اِس معاملے میں انکار کو اُنہوں نے کفر کے درجے میں رکھ کر اپنی سرشت سے نکال دیا ہے اور مکمل طور پر ''اقراریہ‘‘ قبیلے کے ہوکر رہ گئے ہیں! موسم کے تبدیل ہونے پر ممکنہ منفی اثرات سے بچاؤ کا سوچنے سے بہت پہلے کھابوں کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ سردی زیادہ پڑے تو نزلہ زکام، گلے کی خراش وغیرہ کی ادویہ کو پچھاڑ کر کڑاہی میں فرائی ہوتی ہوئی مچھلی ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے! گرمیوں میں (ایک بس غصے کے سِوا) حلق سے نیچے اتاری جانے والی ہر چیز دامن بچا بچاکر چلتی ہے کہ کہیں کوئی غٹاغٹ حلق سے نیچے نہ اُنڈیل لے!
گوجرانوالہ کی شناخت میں اور بھی بہت کچھ بھی شامل ہوگا مگر اب اس شہر کا نام سُنتے ہیں ذہن کے پردے پر صرف دو چیزیں ابھرتی ہیں ... عظیم الجُثّہ پہلوان اور، جی ہاں یقیناً، کھابے! کھانے پینے سے متعلق اِس شہر کی ''روایات‘‘ سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، حواس انٹا غفیل ہو جاتے ہیں!
خوش خوراک ہونا اچھی بات ہے۔ جو کچھ اللہ نے محض خلق ہی نہیں بلکہ ہمیں اُس سے نوازا بھی ہے اُس میں حلال و طیّب اشیاء سے مستفید ہونا ہم پر تقریباً فرض ہے مگر کھانے پینے کے معاملات کو بُھول بُھلیّوں میں تبدیل کرکے اُس میں اپنے وجود کو گم کردینا کہاں کی دانائی ہے؟ کھانا اور پینا یومیہ معمول ہے اور اِسے معمول کے درجے ہی میں رہنا چاہیے تاکہ زندگی کا توازن برقرار رہے۔ کھانے پینے کے حوالے سے جذبات اور حواس پر قابو پانے میں ناکامی زندگی کے بہت سے اہم معاملات میں خرابی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ذہن پر اگر ہر وقت کھابے سوار ہوں تو انسان اِسی منزل میں اٹک کر رہ جاتا ہے، آگے جانے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا۔
کینیڈا کے ایک بچے سے متعلق خبر پڑھ کر ہم پہلے تو حیران ہوئے اور پھر تاسّف کے سمندر میں غرق ہوگئے۔ میکائیل لوپیز صرف آڑو کھاتا ہے۔ خبر کی سُرخی پر نظر پڑتے ہی ہم یہ سمجھے کہ اُسے شاید آڑو بہت پسند ہیں اور کسی دوسری چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ خبر پڑھ کر اندازہ ہوا کہ میکائیل لوپیز کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شدید ترین فوڈ الرجی کا شکار ہے۔ آڑو کے سِوا کوئی بھی چیز اُس کے مزاج، منہ اور معدے کو راس نہیں! بے چارہ رات دن آڑو کھانے پر مجبور ہے۔
بات اگرچہ رنج و ملال کی ہے کہ ایک بچہ اِس عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہے مگر دوسری طرف سے دیکھیے تو یہ بھی خوب رہی۔ کہاں یہ بچہ کہ جس کا معدہ آڑو کے سِوا کوئی چیز قبول کرنے پر آمادہ ہی نہیں اور کہاں ہم کہ غم کے سوا کھانے کی اور غصے کے سوا پینے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے! ع
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
ہماری تو حسرت ہی رہی ہے کہ احباب کبھی کبھار کسی چیز کو یہ کہتے ہوئے بخش دیا کریں کہ نہیں بھئی، یہ مجھ سے ہضم نہیں ہوتی! دیگر اہلِ وطن کی طرح ہمارے احباب بھی لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کے معدے کے ساتھ اس جہانِ فانی میں آئے ہیں اور فنا کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے کھانے پینے کی ہر چیز کو ''فنا فی المعدہ‘‘ کرنے پر تُلے رہتے ہیںہوئے ہیں! کھانے پینے سے متعلق اپنی پسند و ناپسند اور عاداتِ پختہ و ناپختہ کے بارے میں ہم کچھ کہنے سے گریز کر رہے ہیں کہ اپنے آپ کو چراغ کیا دکھائیں۔ ہماری ''کھابا پسندی‘‘ کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی دوسرا مستند چینل آپ کو تلاش کرنا پڑے گا!
احباب ہوں یا کوئی اور، ہم جب بھی کسی کو کھانے پینے کی اشیاء سے شدید محبت کا ''پریکٹیکل‘‘ کرتا ہوا پاتے ہیں تو عبیداللہ علیمؔ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے یہ معرکہ آراء مطلع کہا تھا ؎
عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِس قدر بھی چاہو کہ دم نکل جائے!
کسی کو اشیائے خور و نوش سے ازلی دشمنی نکالتے ہوئے دیکھنے پر ہمارا جی چاہتا ہے کہ عبیداللہ علیمؔ کے مصرع میں تھوڑا سا تصرّف کرتے ہوئے اُس سے عرض کریں ع
اب اِس قدر بھی ''کھاؤ‘‘ کہ دم نکل جائے!