چلئے آپ کی یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ ماڈل ٹائون کے بارہ مردوں، دو عورتوں اور چند ماہ بعد دنیا میں آنے والی ایک ننھی روح کے قتل کا حکم آپ نے اس طرح نہیں دیا تھا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور شاہ جمال چوک میں نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کرنے کیلئے دیا تھا ۔۔۔۔لیکن پھر کیا وجہ تھی آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان آمد سے پہلے ان کے خلاف سخت ترین ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا؟۔ آپ کے وفاقی وزیر ریلوے کی لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کی جانے والی تقریر کے الفاظ آج بھی ہر ٹی وی چینل کے ریکارڈ میں موجود ہیں جن میں انہیں انتہائی غصیلے لہجے میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ قادری صاحب آپ ذرا پاکستان پہنچیں توسہی آپ کا وہ حشر کریں گے کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسے یاد رکھیں گے، خواجہ سعد رفیق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر وہ وزیر داخلہ ہوتے تو ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کا ایسا بندو بست کرتے کہ دنیا دیکھتی۔ محترم شریف برادران چلئے آپ کا یہ کہنا تسلیم کئے دیتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق کی یہ تقریر آپ کی مرضی یا ہدایات پر نہیں کی گئی لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے پس پردہ وہ کون سی وجوہات تھیں جن سے پوری نواز حکومت بوکھلا کر ان پر سختی کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ؟۔ چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق نے طاہر القادری صاحب کو دھمکیاں اپنے طور پر دی تھیں انہیں اس سلسلے میں کسی جانب سے بھی کوئی ہدایات نہیں ملیں۔۔۔تو پھر کسی سیا سی یا مذہبی شخصیت کے پاکستان آنے یا جانے پر لاہور کی قیا دت کو اس قدر گھبراہٹ کیوں ہوئی ؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی نے اس وقت کے وزیر اعظم کو کوئی ایسی خفیہ رپورٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کے خطرناک ارادوں بارے آگاہ کیا ہو؟۔ چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ ماڈل ٹائون منہاج القران کے ہیڈ کوارٹر پر کی جانے والی پولیس گردی آپ کے حکم سے نہیں ہوئی۔۔۔لیکن آپ نے سرکاری ریکارڈ سے علامہ طاہر القادری کی پاکستان آمد سے پہلے کی وہ خفیہ رپورٹس کیوں غائب کرا دی ہیں؟۔
ماڈل ٹائون قتل عام کیلئے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی اور پھر جو ڈیشل ٹربیونل نے جو سب سے اہم نکتہ اپنی تفتیش کے دوران مس کیا وہ تھا '' ڈاکٹر طاہر القادری کے پاکستان پہنچنے کے بعد ان کے آئندہ کے لائحہ عمل بارے خفیہ رپورٹس۔ ماڈل ٹائون میں جو بھی پولیس کارروائی ہوئی اس میں فواد حسن فواد، ڈاکٹر توقیر شاہ اور ر انا ثنا اﷲ کا کردار سب سے اہم ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کسی کے پاس تو ہو گی؟۔کاش کوئی ٹیم اس آئی جی پنجاب خان بیگ اور ڈپٹی کمشنر لاہور سے بھی پوچھنے کی زحمت کرے کہ جناب آپ کو کس گستاخی پر قادری صاحب کی آمد سے ایک روز پہلے اچانک تبدیل کیا گیا ؟جیسے ہی ڈاکٹر طاہر القادری کی لندن سے لاہور کیلئے ہوائی جہاز کی نشست کنفرم ہو گئی تو پنجاب اور مرکزکی اہم شخصیات نے انہیں رگڑا دینے کا فیصلہ کر لیا ۔پنجاب سیکرٹریٹ اور اس کے بعد90 شاہراہ قائد اعظم پر بار بار بلائی جانے والی میٹنگز میں ہونے والی گفتگو ایک ہی نکتے پر اٹکی رہی کہ ان کی آمد کو کیسے روکا جائے؟۔ان کو جہاز میں سوار ہونے سے پہلے سخت ترین پیغام دیا جائے۔۔۔اور اس کیلئے جیسا کہ سب جانتے ہیں کمشنر لاہور نے رائے دی کہ ان کے گھر کے باہر لگے ہوئے بیریئرز گرا دیئے جائیں، اس میں پوشیدہ پیغام وہ سمجھ جائیں گے ۔چلیںتسلیم کر لیتے ہیںکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پولیس کو حکم جاری کر دیا تھا کہ کسی نے منہاج القران پر سخت ایکشن نہیں کرنا اور یہ کہنے کے بعد یا تو وہ سو گئے تھے یا کسی کام میں مصروف ہو گئے ہوں گے۔لیکن یہ راز تو ہر کوئی جانتا ہے کہ شہباز شریف رات کو صرف تین گھنٹے کیلئے سوتے ہیں اس کے بعد وہ سارا دن کام کرتے ہیں اور اگر ان کے جاری کردہ احکامات اور لئے جانے نوٹسز کا ریکارڈ سامنے لایا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ ٹی وی چینلز پر نشرہونے والی ایک ایک خبر کا نوٹس لیتے ہیں تو پھر تمام دن ماڈل ٹائون میں ان کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر چلنے والی تابڑ توڑ گولیوں کی آوازیں ان تک پہنچنے سے کیوں قاصر رہیں؟۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کا ایک ایک ٹی وی چینل ہر چلائی جانے والی گولی پر آسمان سر پر اٹھاتا رہا اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ ان سے بے خبر رہا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟۔ جناب والا یہ ہو ہی نہیں سکتا پنجاب کے حکمران سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے ۔ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کے آگے بے بس تھے!
جون 1990 میں اسلام پورہ لاہور میں شاہ عالمی کے ایک تاجر شیخ اسماعیل کے بیٹے بہو اور بچوں سمیت چھ اہل خانہ کو نا معلوم لوگ دن دہاڑے ذبح کر دیتے ہیں لاہور بھر میں ایک کہرام مچ جاتا ہے لیکن عجیب منطق ہے کہ اس واقعہ کے دو گھنٹے بعد اچانک ایس ایس پی لاہور کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے اسے فوری طور پر بغیر کسی قاعدے اور قانون کے اگلے عہدے پر بطور ڈی آئی جی کیسے ترقی دے دی جاتی ہے؟۔اور ان چھ افراد کو ذبح کرنے والے وہ قاتل آج تک گرفتار نہیں ہو سکے ۔ چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ منہاج القران اور عوامی تحریک کے خلاف آپ نے گولی چلانے یا ان کے گھر کے دروازے توڑنے کیلئے پولیس کو کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کیں تو پھر بجائے اس وقت موقع پر موجود افسران جنہوں نے یہ سب کرایا ،جنہوں نے منہاج القران کے دروازے توڑنے کی کوشش کی جنہوں نے مرکزی دروازے کے آگے پہرہ دیتی ہوئی خواتین کو سب کے سامنے ان کے پیٹ اور چہروں کو خون سے نہلایاآپ نے ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے انہیں بھی اسلام پورہ کے قتل عام کی طرح شاباش دیتے ہوئے ترقی دیتے ہوئے انہیں پرائم پوسٹنگ دے کر حکومت پاکستان کے اخراجات پر بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر بھیج دیا آخر کیوں؟۔چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ منہاج القران کے اندر اور باہر جمع کارکنوں کی شکل میں 82 انسانی جسموں پر سیدھی گولیاں نہ تو میاں نواز شریف نہ ہی میاں شہباز شریف اور نہ رانا ثنا اﷲ کے حکم سے ماری گئیں لیکن جناب والا دکھائے گئے ان براہ راست منا ظر کا کیا کریں جو دنیا بھر میں دیکھے جا رہے تھے۔۔۔ چلئے تسلیم کئے لیتے ہیں کہ پولیس کا کوئی قصور نہیں ہو گا لیکن کئی پولیس افسران اور سینکڑوں اہلکاروں کی موجو دگی میں ایک شخص منہاج القران کے باہر اور ارد گرد کھڑی درجنوں گاڑیوں کی ایک لمبے اورمضبوط ڈنڈے سے اس طرح توڑ پھوڑ کرتا رہا جیسے کسی لاوارث جنگل میں درختوں کی کٹائی کی جا تی ہے۔ محترم نواز شریف اور میاں شہباز شریف صاحب کیا آپ نے ان سینئر پولیس افسران کو گاڑیاں توڑنے والے اس گلو بٹ کو گلے لگاتے اور شاباش دیتے ہوئے اس کارنامے پر اس کی پیٹھ ٹھونکتے نہیں دیکھا؟چلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ آپ دس مردوں، دو عورتوں اور ایک چند ماہ کی ننھی سی روح کے قتل میں ملوث نہیں تو پھر آپ ان کے قاتلوں کو کیوں بچا رہے ہیں؟۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب آپ جوابدہ ہیں کہ ان قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟۔ انہیں کیوں اور کس لئے تحفظ دیا جا رہا ہے؟۔۔!!