چینیوں کی سیاسی زبان میں محاورے اور کہاوتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔گزشتہ نومبر میں امریکی اور چینی صدورکے مابین ملاقات ہوئی ۔ ایک عشائیے کے اختتام پر‘ چینی صدر نے امریکی صدر کو جو کہا‘ اس کا مفہوم یہ تھا کہ '' ایک عاشق اپنے محبوب سے رخصت ہوتے وقت اس تمنا کا اظہا ر کرتا ہے کہ پھر ملیں گے‘‘۔اسی موقعے پر چینی صدر نے ایک اور کہاوت کا استعمال کیا کہ '' دور نہیں‘‘ اس کا مفہوم تھاکہ ''ناقابل رسائی پہاڑ اور گہرے سمندر بھی ثابت قدم انسان کو ‘اس کی منزل تک پہنچنے سے کبھی نہیں روک سکتے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کے بانیوں میں سے ایک سرکردہ سیاست دان‘ بنجمن فرینکلن کا یہ مقولہ دہرایا کہ ''جو صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں وہ چیز پا سکتے ہیں‘ جو وہ چاہتے ہیں‘‘۔چینی صدر کے یہ محاورے اور مقولے درحقیقت چینیوں کے اس عزم کا اظہار تھے کہ '' چین کی گلوبل سپر پاور بننے کی خاموش تمنا ‘ مسلسل انتھک جدوجہد اور جستجو کا مناسب خلاصہ ہے‘‘۔چین اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس کا لب و لہجہ اتنا نرم اور شائستہ ہے کہ اس کا اندازہ کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''امریکہ پہلے‘‘ کی حکمت عملی نے غیر ارادی طور پر‘ چین کی اٹھان اور ترقی میںاہم کردار ادا کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے منصفانہ تجار ت پر خوب بیان بازیاں کیں اور بلند بانگ دعوے بھی کئے لیکن حقیقت میں اس کے فوائد بہت معمولی رہے۔اس دوران صدر ٹرمپ نے'' ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ‘‘ کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکہ ہی کے زیر قیادت دیگر بین الاقوامی اتحادیوں سے بھی‘ اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین کے عالمی اداروں کے نئے نیٹ ورک کے لئے‘ راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں۔مثلاً یوریشیائی تجارت کے لئے ''ون بیلٹ ون روڈ پلان‘‘ اور چین کے زیر قیادت پراجیکٹس کی مالی امداد کے لئے ''ایشیائی انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بنک‘‘ وغیرہ ۔
چین کے بارے میں ماہرین ‘ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھتے ہیں '' چین کی یوریشیا تک رسائی1947ء کے اس امریکی مارشل پلان سے بھی بڑی چیز ہے‘ جس نے جنگ عظیم دوم کے بعد کے یورپ میں امریکی طاقت‘ عمل دخل اور اختیارات کو پذیرائی بخشی‘‘۔چین انتہائی سنجیدگی کے ساتھ طاقت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر بیجنگ‘ سری لنکا‘ ملائشیا‘ پاکستان‘ میانمار‘ جبوتی‘ کینیا اور متحدہ عرب امارات سمیت بحر ہند کی بندرگاہوں کی سیریز میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہ مجوزہ سرمایہ کاری تقریباً250بلین ڈالر تک ہے۔ چین نے یونان میں بھی13.6بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ چین کے لئے یونان‘ یورپ میں اسٹرٹیجک ‘مورچے کے نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ''ایشین انفراسٹرکچر بنک‘‘ نے مصر اور اومان جیسے دیرینہ امریکی اتحادیوں سمیت‘10ملکوں میں مختلف پروجیکٹس کے لئے16بلین ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے زیر کنٹرول سمندری راستوں کو‘ بائی پاس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے چین‘ یورپ اور ایشیا کے تمام حصوں تک‘ ریلوے لائنز کا جال بچھا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 9یورپی ملکوں تک چین کے40ریلوے روٹس پہلے سے موجود ہیں۔
امریکی غلبے کی ایک اور بڑی وجہ‘ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اس کی برتری رہی ہے‘ جو اس نے دنیا بھر کی بہترین اور ابھرتی صلاحیتوں کو اپنے ہاں جمع کر کے قائم کی ۔ چین اس شعبے میں بھی امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ وہ'' اوبی او آر‘‘ ملکوں کے ساتھ مل کر کم از کم 50 جوائنٹ وینچر سائنس و ٹیکنالوجی لیب بنا رہا ہے ۔ چائنا ٹیلی کام‘ افریقی براعظم کے48ملکوں کا احاطہ کرتے ہوئے 150,000 کلو میٹر فائبر آپٹک نیٹ ورک قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ چین انسانی ساختہ ذہانت کے شعبے میں بھی امریکہ سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ جولائی میں چین نے انسانی ساختہ ذہانت کے قومی منصوبے کا اعلان کیا‘ جس میں کہا گیا کہ چین اس میدان میں‘ امریکہ سے پیچھے نہیں رہے گا۔ابھی کچھ دنوں قبل ایک امریکی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے چین‘ انسانی ساختہ ذہانت کے میدان میں ترقی کر رہا ہے‘ اس سے دنیا کا اقتصادی اور عسکری توازن تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ انسانی ساختہ ذہانت فوجی مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ تنبیہہ صرف بلند بانگ دعوے ہو سکتے ہیں لیکن چین کی پیش قدمی سے نہیں لگتا کہ یہ محض دعوے ہیں۔''سنٹر آف نیو امریکن سیکورٹی‘‘ کے مطابق '' چین اب امریکہ کے مقابلے میں تکنیکی پستی کا شکار نہیں رہا اور وہ صرف برابری ہی نہیں کر سکتا بلکہ امریکہ سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ چینی فوج انسانی ساختہ ذہانت سے متعلق منصوبوں میں‘ شدو مد سے سرمایہ کاری کر رہی ہے اوراس کے تحقیقی ادارے ‘چینی دفاعی صنعت کے ساتھ مل کر کام رہے ہیں‘‘۔چین اگر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانی ساختہ ذہانت بنیادی طو ر پر‘ جنگی سیاق و سباق مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گی۔
ادھرا مریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کی پالیسی ہے کہ جنگ میں انسانوں کے بجائے‘ روبوٹ استعمال کئے جائیں۔ اقوام متحدہ'' خود مختار ہتھیاروں‘‘ کے استعمال پر پابندی کے لئے غور کر رہی ہے۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی '' الفابیٹ‘‘ کے چیئرمین‘ ایرک شمٹ نے بھی‘ چین کی جانب سے لاحق انسانی ساختہ ذہانت کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے کہا کہ '' میں سمجھتا ہوں کہ ہماری برتری اگلے پانچ برس تک قائم رہے گی‘ پھر چین ہمیں آلے گا‘‘۔ رپورٹوں کے مطابق چینی کمپنیاں ان امریکی کمپنیوں کے حصص خریدرہی ہیں جن کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جسے ممکنہ طور پر فوجی استعمال میں لایا جا سکے۔
آج کی دنیا میں گمان غالب ہے کہ چین ٹیکنالوجی اور تجارت کی کمانڈنگ بلندیوں پر قبضے کے لئے‘ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کا پورا ز و ر ''امریکہ فرسٹ‘‘ کے بینر تلے کوئلہ کی کانوں میں روزگار کے تحفظ اور ماحولیات سے متعلق سائنس پر سوالات کھڑے کر رہاہے۔ بہر حال یہ کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں ہے ۔ ''سلطنتوں‘‘ کا عروج و زوال اسی طرح ہواکرتا ہے۔