تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     15-12-2017

یا جنود الباکستان

پوٹھوہاری زبان کے ایک مقولے کا ترجمہ ہے ''تیری آواز مکے مدینے‘‘۔
یروشلم پر غنڈہ راج مسلط کرنے کے امریکی اعلان سے دُکھے ہوئے دل کو خوشی کا جھونکا آیا‘ جب مسجدِ اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھنے والے خوش بخت نمازیوں کے امام کو ''یا پاکستانی فوج‘ یا پاکستان کے عوام اور یا پاکستان‘‘ کے نعرے بلند کرنے کی ویڈیو دیکھی۔
بیت المقدس سے یہ نعرہ مظلوم فلسطینیوں نے دیگر 55 اسلامی ملکوں میں سے کسی اور کا نام لے کر نہ لگایا۔ میرے دل سے دعا نکلی: یا پاکستان تو قیامت تک قائم دائم رہے۔ ڈاکومینٹری میکنگ کے بادشاہ مائیکل مور نے ایسا ہی ایک نعرہ نائن الیون کے حوالے سے اپنی ایک ڈاکومینٹری میں فلم بند کیا تھا۔ مائیکل مور نے یہ ڈاکومینٹری فلم 2004ء میں بنائی تھی‘ جس کا افتتاحی منظر روشنیوں کے شہر بغداد پر امریکی حملے کے کائونٹ ڈائون کا ہے۔ جب عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی بم نہتے شہریوں پر برسائے گئے۔ رات کے سناٹے میں کان پھاڑ دینے والے دھماکے، دل چیر دینے والی چیخیں‘ مدھم ہوئیں۔ ایسے قیامت خیز لمحے میں بچوں کے کٹے پھٹے اعضا پر کھڑی ایک بوڑھی عورت نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ بُلند کیے اور کہا: وَینک یَاربّ۔۔۔؟ (میرے مالک تو کہاں ہے)۔
مظلوم ماں کی آہ سات آسمان پار کر گئی‘ جس کے نتیجے میں امریکہ کو عشروں کی بالا دستی کے بعد عالمی لیڈرشپ میں ٹرمپ کی شکل میں تحفہ ملا۔ اس نے امریکہ کو ناصرف یورپی یونین کی حمایت سے محروم کیا‘ بلکہ عالمی لیڈرشپ کے درجے سے عملاً معزول بھی کر ڈالا۔ یہ ایسا کارنامہ ہے‘ جو سوویت یونین والا روس کر سکا‘ نہ ہی قوم پرست نازی لیڈر جرمنی کا ایڈولف ہٹلر۔ تورا، تورا، تورا کوڈ والے امریکی جزیرے پرل ہاربر پر جاپانی شاہ ہیروہیٹو کے حملے سے بھی یہ نتائج پیدا نہ کئے جا سکے۔ اگلے دن او آئی سی کے اجلاس میں مسلم سربراہ اکٹھے ہوئے۔ پُھسپھسے اجلاس کا بزدلانہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اگر مسلم لیڈر ذرا سی بھی ہمت کرتے تو اجلاس القدس کی آزادی پر بہت پاور فل پیغام دے سکتا تھا۔ کم از کم تین ذریعے یوں ہوتے، پہلا اسرائیل کی بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ۔ اگر اسلامی دنیا میں ایسا ہو جائے تو اسرائیل معاشی طور پر ایک سال بھی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ میرے کہنے سے اختلاف ہو تو اسرائیلی یہودیوں اور میڈ ان اسرائیل کی فہرست نکال کر خود جائزہ لے لیں۔ دوسرے وہ ممالک جو یمن اور قطر کے فضائی روٹس بند کرکے نو فلائی زون عائد کر سکتے ہیں‘ وہ اسرائیل کی فضائی ناکہ بندی کریں۔ تیسرا او آئی سی کو چاہئے تھا کہ وہ آزاد ریاست فلسطین کی طرف سے القدس کو فلسطین کا دارالخلافہ ڈکلیئر کروا دیتے اور او آئی سی استنبول اجلاس میں موجود 55 ممالک فلسطین کے اس دارالخلافہ کو تسلیم کر لیتے۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، اگریہ تین کام ہی کر لئے جائیں تو 1948ء میں فلسطین کی زمین پر پیدا ہونے والے مغرب کے ناجائز بچے اسرائیل کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم کی تصویر او آئی سی کے استنبول سمٹ سے وائرل ہوئی ہے‘ جس میں کرپشن کے شہنشاہ نمبر 2 تختِ لاہور کے بادشاہ کی حیثیت سے او آئی سی میں ریاست جاتی امرا کی نمائندگی کرتے پائے گئے‘ جبکہ ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایڈہاک حکومتی سربراہ منہ اُٹھا کر خلائوں میں گھورتا نظر آیا۔ جاتی امرا کے ریاستی سربراہ ترکی کے وزیر اعظم سے مذاکرات فرما رہے تھے۔ اس قدر ریاستی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ اور کون سا ملک کر سکتا ہے کہ فیڈریشن کے وفد کو چیف ایگزیکٹیو کی بجائے کسی صوبے کا ایسا وزیر اعلیٰ لیڈ کرے جو دہشت گردی کی ایف آئی آر میں نامزد ملزم ہے۔ ایک اور تلخ حقیقت یوں ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں جو ریاستیں اسلام کی پاسدار کہلانا پسند کرتی ہیں‘ ان کی سرپرستی میں لڑنے والے لوگوں نے آج تک کسی اسرائیلی فوجی کو تھپڑ تک نہیں مارا‘ لیکن فلسطینی سخت جان فائٹر ہیں۔ اسی لئے ان کی تیسری چوتھی نسل راہ حق میں جان دینے سے ڈرتی ہے‘ نہ ہی غلیل کے ذریعے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرنے سے خوفزدہ ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں پاکستان کے حوالے سے جو نعرے ہزاروں فلسطینیوں نے بلند کئے ان کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ اقوام متحدہ میں عالمی اداروں اور فورسز سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔ او آئی سی‘ معتمرِ رابطہ عالم اسلامی سے بھی مکمل طور پر مایوس ہیں۔ شیوخ و شاہ کو بھی آزما چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مسلم بے گناہوں کی قتل عام پر زیادہ سے زیادہ صرف اظہار افسوس کرتی ہیں۔ لیکن اگر کسی مسلم ملک پر کارپٹ بمباری کرنی ہو‘ مسلم سرزمین پر نیٹو کے بوٹ اتارنے ہوں یا حسنی مبارک ہٹا کر فتاح السیسی کو لانا ہو‘ کسی مسلم شہر کو تاراج کرکے مسلمان بچوں اور عورتوں کو متاثرین کے کیمپوں میں پہنچانا ہو تو ایک گھنٹے میں یو این سلامتی کونسل قرارداد منظور کر دیتی ہے۔ اس لئے علامتی طور پر اور واقعاتی طور پر فلسطین کے مجبور مسلمانوں نے پاکستان کے عوام اور فوج کو پکارا ہے‘ حکمرانوں‘ لیڈروں کو نہیں۔ ہمیں فلسطین کے مظلوموں کے لئے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں‘ اس کا فیصلہ اخباری کالم نہیں کر سکتا‘ لیکن القدس کے محکوم فلسطینی مسلمانوں نے پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو کیوں نہیں پکارا‘ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ وہ بھی آواز سمیت کیمرے کی آنکھ میں محفوظ۔ یہ وجہ ان حضرات کے بیان شریف کی شکل میں ہے‘ جس نے تھوڑا عرصہ پہلے بچوں کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا تھا ''بچو کرپشن کرپشن ہے جو ہوتی رہتی ہے، اور جمہوریت جمہوریت ہے جو چلتی رہتی ہے‘‘۔
اپنے تازہ بیان میں اس صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ کہا: شہید کی بیوہ کی گود میں یتیم بچہ... چلیں چھوڑ دیں‘ میں مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کے وارثوں کی شدید ترین دل آزاری میں شریک نہیں ہونا چاہتا‘ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ شہید کے یتیم بچے سے کبھی کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہارا باپ کدھر ہے۔ ہاں البتہ ایسے باپ پر لوگ تین حرف بھیجتے ہیں‘ جس کی تین نسلیں کرپشن کے گٹر میں تیر رہی ہوں۔ اس جملہ میں معترضہ کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ 
بات ہو رہی تھی‘ لبیک یا اقصیٰ کے بارے میں۔ سوائے غیر مسلموں کے اس وقت بیت المقدس کے معاملے میں مسلمان تنظیمیں اپنے جھنڈے اور گروہی یا فرقہ وارانہ بینرز کے نیچے تو احتجاج کرتی ہیں‘ لیکن سب اپنے اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر۔ 
بہت سال پہلے اسلام آباد میں میرے محلے G-6/2 کے ایک حلقہ خیال والوں نے یوم القدس پر تقریر کے لئے مجھے اپنے ہاں مدعو کیا۔ میں نے یوم القدس پر جوکتبے، بینرز اور نعرے دیکھے‘ جس طرح مخصوص لہجے میں مولویانہ فنِ خطابت سماعت کیا‘ اس کی وجہ سے مجھ سے رہا نہ گیا۔ جب میری باری آئی تو عرض کیا کہ مسلمانوں کا کون سا فرقہ یا طبقہ خیال ہے‘ جو القدس کو اپنا پہلا قبلہ نہیں مانتا۔ ساتھ کہا: اگر اسرائیلی سینکڑوں سال بعد القدس آ کر ''یروشلم‘‘ کی تلاش میں سرزمینِ فلسطین کے مالک بن سکتے ہیں‘ تو پھر 800 سال تک سپین پر حکمرانی کے عوض ہسپانیہ پر عربوں کی ملکیت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved