یمن کے حوثیوں نے سعودی عرب پر تیسرا بیلسٹک میزائل فائر کیا لیکن اسے بھی سعودی افواج نے پیٹریاٹ نظام کے ذریعے سے فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ یہ تیسرامیزائل اس وقت داغا گیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے زیر قبضہ یروشلم کی متنازع حیثیت کے با جود اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے تھے ۔۔۔ اس سے پہلے یمن سے ریاض کے شاہ خالد انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر برسایا جانے والا بیلسٹک میزائل بھی بروقت روک دیا گیا تھا اور یہ سعودی سر زمین پر برسایا گیا دوسرا بیلسٹک میزائل تھا جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے کھل کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔ یہ حالات اور برسائے جانے والے مسلسل میزائل کسی بھی وقت کسی ایسے جوابی وار کی شکل اختیار کر سکتے ہیں جن سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی عرب دنیا ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنا شروع کر سکتی ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ کبھی ایسا مرحلہ آئے لیکن احتیاط کے طور پر پاکستان اور اس کی سلامتی سے متعلق تمام اداروں کو چاہئے کہ مستقبل میں ایسی کسی بھی کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورت حال میں ملکی اور دفاعی ضروریات کی خاطر اپنے لئے کم از کم تیس دن تک کے تیل کے ذخائر محفوظ رکھے۔
سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کا دوماہ قبل دیا گیا وہ بیان سب کے سامنے ہے کہ بہت جلد اسرائیل کی حدود عرب دنیا میں دور دور تک پھیلنے جا رہی ہیں اور نوشتہ ٔدیوار سامنے ہے کہ پوری عرب دنیا میں امریکہ، برطانیہ ا ور اسرائیل کے تیار کئے گئے سکرپٹ کے مطا بق پہلے عرب سپرنگ اور پھر اس کے سائے میں مسلم ریاستوں کو آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کر کے نیست و نابود کرنے کیلئے جنگی صورت حال کی چنگاریاں جلد ہی شعلوں میں تبدیل کر دی جائیں گی۔۔۔۔ یمن میں جاری محدود جنگ اور خلیج سمیت عرب دنیا کی اس جنگ کے دوران پاکستان کو بھی محتاط رہنا ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پر جب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی زیر نگرانی مسلم ریا ستیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدل میں مصروف کر دی جائیں گی تو مودی کی صورت میں بھارت جیسا دشمن ہمارے خلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے ۔
خلیج میں بھڑکنے والی کسی بھی ممکنہ جنگ سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسلامی بم کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل اور امریکہ بھارت کی مدد سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کے خلاف کارروائی کر نے کا سوچ سکتے ہیں؟۔اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کیلئے قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو ابھی سے انتہائی سوچ بچار کرتے ہوئے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے دینا چاہئے کیونکہ اگر کسی بھی وقت خطے میں کوئی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو اس سے تیل کی سپلائی کے علا وہ سمندری تجارت بلاک ہو نے کے خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔ عرب ممالک کی باہمی چپقلش کے د وران ہمیں بہت ہی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ خدشہ ہے کہ کسی عمل سے ان دو متحارب مسلم گروپوں کے تصادم میں خطے کے لئے کوئی مزید خطرات نہ پیدا ہو جائیں۔ On The Brink Of War کے عنوان سے مشہور تجزیہ کار Abdul Bari Atwan نے یمن کے تنا ظر میں بہت ہی تفصیل سے خطے کی صورت حال اور امریکی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیا مصر،اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوڈان،اور مراکش پر مشتمل فوجی اتحاد جسے امریکہ برطانیہ کی بھر پور مدد حاصل ہو گی اور اس کے مقابلے میں ایران، عراق، ترکی، حزب اﷲ اور شام پر مشتمل فوجی اتحاد جس کی پشت پر ایک خاص وقت اور حد تک روس کھڑا ہوا نظر آئے گا کسی ایسی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے جو اسرائیل کو آگے بڑھنے کا آسان راستہ فراہم کر دے؟۔ ٭ سعد الحریری کا لبنان کی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ اور خودسا ختہ روپوشی کے دس دن بعد اچانک فرانس روانگی کا اعلان ‘کیا لبنان میں مستقبل کی کسی بہت بڑی کارروائی کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے؟۔ ٭یمن کے حوثیوں کی جانب سے تین بیلسٹک میزائل جن میں ریاض انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر کیا جانے والا تکنیکی اعتبار سے میزائل حملہ کیا اعلان جنگ کے مترادف نہیں ٭ اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلے کی جانب سے ایران کا یمن کے حوثیوں کو اسلحہ اور میزائل کی فراہمی کو سعودی عرب پر بالواسطہ فوجی حملہ گرداننا اور پھر امریکہ اور پینٹاگان کا سعودی عرب کی ایران کے خلاف ہر قسم کی حمایت کاا علان آنے والی کشیدگی کی جانب واضح اشارہ نہیں کرتے ٭ولی عہدمحمد بن سلمان اس وقت دنیا کی تیسری طاقتور ترین شخصیت کے طور پر سامنے آ چکے ہیں اور انہوں نے سعودی عرب کے چار اہم ترین ستون جن میں ملک کی معیشت ،میڈیا، سکیورٹی اور فوج سے متعلق تمام اداروں کے علا وہ سعودی نظام حکومت میں اہم ترین قوت اور اثر رکھنے والے مذہبی سیکشن جن میں سینئر علمائے کرام پر مشتمل کونسل اورAwakening Clerics کا کنٹرول لے لیا ہے ۔
٭ اس یمن کیلئے زمینی، فضائی اور سمندری رسائی کا مکمل محاصرہ کیا گیا ہے تاکہ حوثیوں کو میزائل اور اسلحہ کی سپلائی روکی جا سکے ۔ پہلے خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے ذریعے ایران اس محاصرے کو انسانی حقوق کے نام پر توڑنے کی کوشش کر ے گا لیکن یمن کے سابق صدر کی ہلاکت اور سعودیہ پر یکے بعد دیگرے داغے جانے والے تین بیلسٹک میزائلوں کے بعد اس کے امکانات معدوم ہیں۔
آپریشن ڈیزرٹ سٹارم جس کے ذریعے 1990 میں عراقی فوجوں کو کویت سے نکالا گیا تھا سعودی عرب ، اردن، یو اے ای، مصر، سوڈان اور مراکش پر مشتمل اس طرز کی کوئی اتحادی فورس تشکیل دے سکتا ہے۔اس اتحادی فورس میں لبنان کی شمولیت بھی ممکن ہو سکتی ہے تاکہ ایران کی کمر توڑنے کیلئے حزب اﷲ کے تمام مراکز اور ٹھکانوں پر اسرائیل کی مدد سے بمباری کی جاسکے ۔۔۔اگر ایسا ہوتا ہے تو جواب میں حزب اﷲ اپنے پاس موجود میزائل اسرائیل کے مقبوضہ علا قوں پر بھی گرا سکتی ہے۔۔۔۔جس سے لازمی طور پر ایران اور شام حزب اﷲ کی مدد کو پہنچیں گے اور یہ مداخلت اسرائیل کو کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک اندازے کے مطا بق حزب اﷲ کے پاس اس وقت کئی ہزار میزائل ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ ایران کے پاس اس قسم کے میزائلوں کی تعداد کتنی ہو گی؟۔ اگر یمن کے مسئلے پر کھلی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو اندازہ کیجئے کہ مسلم دنیا کی تباہی و بربادی کا وہ منظر کس قدر بھیانک ہو گا جس میں بے حد نقصان ہو سکتا ہے۔ اس وقت اسرائیل آگے بڑھتے ہوئے جی بھر کر اپنی حدود بڑھائے گا۔۔۔اور اس وقت تمام عرب سربراہوں میںسے کسی کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں ہو گا۔
امریکہ اور اسرائیل بے تحاشا دبائوبڑھا رہے ہیں کہ قطر میں تعینات 30 ہزار سے زائد ترک فورس جو دنیا کے جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس وہاں موجود ہے واپس بھیج دی جائے۔۔۔کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کو خدشہ ہے کہ یہ ترک فوج کسی بھی وقت خلیج میں ان کے ارادوںمیں رکاوٹ بن سکتی ہے۔۔۔ کبھی مسلم سربراہان اپنے بے معنی قسم کے ذاتی عناد سے ہٹ کر سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے وقت میں امریکہ کا یروشلم میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں!!
سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کا دوماہ قبل دیا گیا وہ بیان سب کے سامنے ہے کہ بہت جلد اسرائیل کی حدود عرب دنیا میں دور دور تک پھیلنے جا رہی ہیں اور نوشتہ ٔدیوار سامنے ہے کہ پوری عرب دنیا میں امریکہ، برطانیہ ا ور اسرائیل کے تیار کئے گئے سکرپٹ کے مطا بق پہلے عرب سپرنگ اور پھر اس کے سائے میں مسلم ریاستوں کو آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کر کے نیست و نابود کرنے کیلئے جنگی صورت حال کی چنگاریاں جلد ہی شعلوں میں تبدیل کر دی جائیں گی۔۔۔۔ یمن میں جاری محدود جنگ اور خلیج سمیت عرب دنیا کی اس جنگ کے دوران پاکستان کو بھی محتاط رہنا ہوگا