تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     16-12-2017

کیا ہونے والا ہے؟ وسوسے اورخیال آرائی!

عمران خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کچھ دیر ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے فیصلہ آ جائے گا اور دھماکہ خیز ہوا تو ظاہر ہے کچھ بات کرنا پڑے گی۔ سیاسی منظر نامہ افواہوں کی زد میں ہے، کوئی کچھ سوچ رہا ہے، کہیں سے کوئی اور آواز آ رہی ہے۔ دو دن پہلے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ریمارکس نے ہلچل پیدا کر دی۔ اُنہوں نے کہا کہ لگتاہے کچھ ہونے والا ہے، شاید اسمبلیاں مدت پوری نہ کریں اور یہ بھی لگتا ہے کہ کوئی بڑا منصوبہ (گریٹر پلان) تیار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم‘ جو حاضری دینے لندن گئے ہوئے تھے‘ نے ان ریمارکس کی تردید کی اورکہا: اسمبلیاں مدت پوری کریں گی اور الیکشن اگلے سال وقت مقررہ پر ہوںگے۔ لیکن بذاتِ خود یہ حقیقت کہ اُنہیں کچھ کہنا پڑا‘ ملک میں پھیلی ہوئی غیر یقینی صورتحال کی ایک اور دلیل ہے۔
نیب کی حدیبیہ پیپر ملز والی اپیل تو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے مسترد کر دی ہے۔ یہ مشکلات میں گھرے ہوئے شریف خاندان کے لئے قابلِ ذکر ریلیف ہے۔ گو ایک اور جانب نیب چیئرمین نے حکم دیا ہے کہ انٹرپول کے ذریعے اسحاق ڈار کی حراست عمل میں لائی جائے۔ یہ ایک دو دن کی بات نہیں اور اس میں وقت لگے گا لیکن خبر کی گونج اسحاق ڈارکے‘ پہلے سے اُترے ہوئے چہرے پر مزید پریشانی پیدا کر سکتی ہے۔ گریٹر پلان تو تب ہوتا کہ سب چیزیں کہیں پُراسرار کونے میں گھڑی جاتیں۔ کہانیاں گھڑنے کی بجائے مردے قبروں سے اُٹھ رہے ہیں۔ پرانی کہانیاں‘ جن کے بارے میں سمجھا جا رہا تھا کہ ہمیشہ کے لئے دفنا دی گئی ہیں، سامنے آ رہی ہیں اور چونکہ شریف خاندان مؤثر جوابات دینے سے قاصر رہا، اُس کے لئے مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔ نواز شریف مسلسل اُس سپریم کورٹ بینچ پہ جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں جس نے اُنہیں نااہل قرار دیا لیکن اسی سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ نے،جیسا اُوپر ذکر آیا ہے، حدیبیہ کیس میں اُنہیں کچھ ریلیف دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرپشن پہ نہیں بلکہ اقامہ رکھنے پہ اُنہیں نااہل کیا گیا اور یہ بنیاد مضحکہ خیز ہے۔ دیکھا جائے تو ایک ملک کے وزیراعظم کا‘ ایک دوسرے ملک کا ورک پرمٹ اپنے پاس رکھنا کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں۔ دبئی والے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوںگے کہ کیسا ملک ہے جس کا تیسر ی بار منتخب ہونے والا وزیراعظم اُن کا ورک پرمٹ اپنی جیب میں ڈالے ہوئے ہے۔
وہ کیا سین ہے شیکسپیئرکے ڈرامہ جولیس سیزر (Julius Caesar) میںجب مشتعل ہجوم سیزر کو قتل کرنے والے سازشیوں کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے‘ ہجوم کے ہتھے ایک سِنا (Cinna) نامی آدمی چڑھ جاتا ہے۔ وہ چلاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ سازش میں حصہ لینے والا سِنا نہیں بلکہ شاعری کرنے والا سِنا ہے۔ ہجوم سے ایک آواز آتی ہے کہ اِسے بھونڈی شاعری کے لئے لٹکا دیا جائے۔ اقامہ رکھنا بھی ایک ایسی حرکت ہے اور سخت سزا کے لئے کافی۔ لیکن یہ بات سابق وزیراعظم کے پَلّے نہیں پڑ رہی۔ مسئلہ کچھ کلچرل بھی ہے، یعنی ثقافت اور تمدّن سے جڑا ہوا۔ جو چیزیں مہذب معاشروں میں بری یا مشکوک سمجھی جاتی ہیں‘ وہ کرتے ہوئے ہمارے ہاں لیڈر بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔ مثال کے طور پہ قطری خط کسی اور ملک کی عدالت میں پیش کیے جاتے تو لوگ اتنا ہنستے کہ ایسی حرکت کرنے والے شرمندگی میں ڈوب جاتے اورکہیں مُنہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ یہاں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اقامہ کے پکڑے جانے پہ بھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ کمال ڈھٹائی سے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ واقعی سمجھتے ہوں کہ وہ نیک اور پارسا ہیں اور خواہ مخواہ ہراساں کیے جا رہے ہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا‘ مسئلہ بہت حد تک کلچرل ہے۔
دیگر معاشروں میں سفارش اور رشوت جیسی چیزوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا‘ یہاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔عزیزوں اور رشتہ داروں کے ناجائز کام کرنا عین عبادت سمجھا جاتا ہے۔ ناجائز منافع خوری اور ٹیکس چوری برُ ی چیزیں نہیں سمجھی جاتیں۔ 2013ء کے الیکشن سے کچھ ہی دن پہلے‘ جناب عطاء الحق قاسمی کی دعوت پہ ہم چند اخبار نویسوں کو میاں نوازشریف سے ملنے کا موقع ملا۔ جناب مجیب الرحمن شامی بھی حاضرِ مجلس تھے۔ معاشی حالات پہ خیال آرائی کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ انکم ٹیکس دس فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور اُسی سانس میں سعودی عرب کی مثال دی کہ وہاں تو انکم ٹیکس ہوتا ہی نہیں۔ قدرے حیرت سے اُن سے کہا گیا کہ پاکستان کے حالات سے سعودی عرب کا موازنہ بنتا نہیں۔ اپنی بات پہ میاں نوازشریف نے اصرار نہ کیا لیکن اُن کی ترجیحات صاف اور واضح تھیں۔ جس شخص کے یہ خیالات ہوں‘ اُسے پاناما پیپرز میں پنہاں الزامات فضول باتیں ہی لگتی ہوں گی۔ ہمارے تاجر طبقات کے سامنے کسی ذرائع سے مال و دولت بنانا گناہ کے زمرے میں نہیں آتا۔ وہ کہتے ہیں ھٰذَا مِن فَضْلِ رَبی۔ ہمارے کئی بھائی منشیات فروشی میں بھی نام رکھتے ہیں اور عبادت کے بھی پکے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کاروبار الگ ہے اور عبادت الگ۔ دونوں کی اپنی جگہیں ہیں۔
ہمارے ایک روحانی سامان مہیا کرنے والے دوست تھے، اب بھی ہیں، جس سے ہم ایک زمانے میں روحانی ساز و سامان لیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ فون کرتے اور پتا چلتا کہ قبلہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اُنہیں مقدمات کاسامنا رہتا تھا جو اُن کی مخصوص تجارت کا لازمی حصہ یا جو انگریزی میں کہتے ہیں Occupational hazard تھا۔ ایک دفعہ اُن کی ضمانت کا مسئلہ ایک خاتون جج کے سامنے آیا جو چکوال رہ چکی تھیں۔ روحانی دوست نے مجھ سے پوچھا کہ جج صاحبہ سے کوئی بات ہو سکتی ہے؟ میں نے جج صاحبہ کو فون کیا اور سفارش کرتے ہوئے عرض کی کہ جن صاحب کی ضمانت مطلوب ہے‘ نماز کے بہت پابند ہیں۔ جج صاحبہ نے کہا کہ میں نے بھی یہی سُنا ہے۔ اُن کی ضمانت ہو گئی، میرا شکریہ بھی ادا کیا لیکن روحانی ساز و سامان میں کبھی کوئی رعایت نہ برتی۔ عزت کرتے ہیں لیکن کاروباری اُصولوں کے پکے ہیں۔
عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا گو گھڑی تین کے قریب پہنچ رہی ہے۔ کالم بھی مکمل کرنا ہے اورشام ٹی وی پروگرام کے لئے عازمِ لاہور بھی ہونا ہے۔ خبر ابھی تک نکلی نہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ سسپنس پیدا ہوگیا ہے۔ میں نے تو یہی سمجھا تھا کہ فیصلے میں بڑی خبر ہو نہیں سکتی لیکن سسپنس کچھ اور ہی وسوسے پیدا کر رہا ہے۔ فیصلہ آنے تک کچھ خیال آرائی کر لی جائے۔ کپتان پہ آنچ نہ آئی تو یوں سمجھیے کہ اُس کا آگے کا راستہ صاف ہے اور شاید کوئی چیز اُسے روک نہ سکے۔ کسی قسم کی آنچ آ گئی تو پھر یہ یقینی ہو جائے گا کہ بہت اکھاڑ پچھاڑ ہونے والی ہے۔ دو ہی تو لیڈر تھے، ایک زخم شدہ نواز شریف اوردوسرے بلندیوں کی راہ تکنے والے عمران خان۔ ایک کاصفایا ہو گیا، اگردوسرے کا بھی ہو جائے تو پھر سب چیزیں اُلٹ پُلٹ ہونے میں شک کیا رہ جاتا ہے؟ فیصلہ آنے تک یہ خیال آرائی ہی رہے گی لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ملکی حالات ڈرامائی ہوتے جا رہے ہیں اور کسی کو پتا نہیں کہ کہاں جا کے تھمیں۔ عازم سفر ہوں کہ فیصلے کی شروعات آئی ہے۔ خان کو کچھ نہیں ہوا اور یہ خبر جہاں پی ٹی آئی کے لئے باعثِ خوشی ہے وہاں مخالف کیمپ پہ بھاری گزری ہوگی۔
یہ ایک جزوی معاملہ تھا۔ بڑی پکچر تو یہ ہے کہ ملک غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ وسوسے چل رہے ہیں، خیال آرائی ہو رہی ہے اور ڈراؤنے خواب دیکھے جا رہے ہیں کہ کہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے، الیکشن ملتوی نہ ہو جائے، عبوری حکومت بنے تو لمبی نہ ہو جائے۔ بادل تب ہی چھٹیں گے جب الیکشن ہوں اور جو عوام کے چُنے ہوئے نمائندے ہوں‘ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں ۔ یہی مسائل کا حل ہے، باقی اللہ جانے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved