تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-12-2017

فیصلوں کا دن

سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے اہل ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ تحریکِ انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کی چھان بین الیکشن کمیشن کرے گا۔میں اسے قومی سیاست کے لیے ایک خوش آئند فیصلہ سمجھتا ہوں۔ دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ حدیبیہ کا مقدمہ اب نہیں کھل سکتا۔سیاسی مضمرات کے اعتبار سے، یہ بھی ایک مستحسن فیصلہ ہے۔
ہرمقدمہ عدالت کی ساکھ کے لیے اہم ہوتا ہے۔ عمران خان کی نااہلی کا مقدمہ مگر اہم تر تھا۔ اس کی بڑی وجہ سپریم کورٹ کے ایک دوسرے بینچ کا فیصلہ تھا جس میں نواز شریف صاحب کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اپنے اس فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے پارلیمان کے رکن کے لیے دیانت و امانت کا ایک کڑا معیار مقرر کیا تھا۔ اس فیصلے کی رو سے اگر رکن ان اثاثوں کا اعتراف نہ کرے جو ممکنہ طور پر اس کے ہو سکتے ہیں تو بھی اس منصب کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کسی بد عنوانی کو بے نقاب کر رہا ہے نہ ہی یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود نواز شریف قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔
اس فیصلے کے دو مضمرات تھے۔ ایک یہ کہ اگر کسی فرد کے لیے دیانت و امانت کا ایک سخت معیار مقرر ہو چکا تو لازم ہے کہ دیگر پر بھی اس کا اطلاق ہو۔ اگر نہ ہو تو یہ عدالت کی ساکھ کے لیے ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔ دوسرا یہ کہ عصبیت رکھنے والے ایک لیڈر کے خلاف اگر قانون کا اطلاق اس طرح کیا جائے گا تو پھر سیاست اپنی اساسات سے محروم ہو جائے گی۔ لیڈر عوامی عصبیت سے بنتا ہے۔ اگر عدالتیں اس طرح عوامی راہنماؤں کو مسترد کرتی جائیں گی تو پھر نظامِ ریاست کا جمہوری اندازمیں آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔
اب فیصلہ آ چکا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ نواز شریف صاحب کے بعد اگر ایک دوسرے مقبول راہنما کو بھی عدالت کے ذریعے سیاسی عمل سے باہر کیا جاتا تو اس سے ایک سیاسی بحران پیدا ہوتا۔ اس سے عدالت کی ساکھ متاثر ہوتی اور یہ ایک معاشرے کے لیے کوئی اچھا شگون نہ ہو تا۔ عدالت اور فوج کا معاملہ بہت نازک ہے۔ ان پر اعتماد کا تما م تر انحصار خود ان کے اپنے طرزِ عمل پر ہوتا ہے۔ عدالت اگر اپنی ساکھ کے بارے میں حساس ہو تو کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو ہوا دے یا انہیں عوام میں پذیرائی ملے۔
یہ فیصلہ بھی اپنے کچھ سیاسی مضمرات رکھتا ہے۔ میرے نزدیک یہ سب سے زیادہ پی ٹی آئی کی داخلی سیاست کو متاثر کرے گا۔ جہانگیر ترین عمران خان کے معتمد ترین آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے لیڈر اور جماعت پر جو سرمایہ کاری کی ہے، وہ سب سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ فی سبیل اللہ نہیں تھا۔ پارٹی میں لیڈر کے باب میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن مردِ ثانی ہونے کے دعوے دار بہت ہیں۔ اب وہ لوگ کھل کر سامنے آئیں گے جو جہانگیر ترین صاحب کو اپنے راستے کی دیوار سمجھتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس سے کیسے نمٹتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب ملتان کے لوگوں کو نوید سنا چکے کہ اب ملک بھر میں ان کے نعرے گونجیں گے۔ یہ ممکن کہ یہ فیصلہ اس کی بنیاد رکھ دے۔
میرا احساس ہے کہ 15 دسمبر کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں نے سیاست کو متوازن بنا دیا ہے۔ حدیبیہ کیس کا فیصلہ ن لیگ کے حق میں ہوا۔ اب اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ شریف خاندان کے دوسرے اہم ترین فرد‘ شہباز شریف سیاست میں متحرک رہیں۔ اس سے ن لیگ کے بارے میں یہ امید باقی رہے گی کہ وہ آنے والے دنوں میں سیاست کا ایک متحرک کردار ہے۔ یوں وہ لوگ جو اس کے ساتھ اپنے تعلق کے معاملے میں کسی مخمصے کا شکار تھے، وہ یک سو ہو جائیں گے اورکہیں جانے سے گریز کریں گے۔ ماڈل ٹاؤن رپورٹ میں اتنی جان نہیں کہ وہ کسی عدالت میں شہباز شریف صاحب کو براہ راست مجرم ثابت کر سکے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمعہ کو آنے والے فیصلوں نے ن لیگ کو نئی زندگی دے دی ہے۔
عمران خان تو بچ گئے مگر سوال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے معاملات اب کیسے چلیں گے؟ جہانگیر ترین ظاہر ہے کہ اب سیاست میں اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ عمران خان عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری تو لے سکتے ہیں لیکن پارٹی معاملات کی نہیں۔ اس کے لیے کچھ مردانِ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جو پارٹی سے زیادہ ذاتی اور گروہی مفادات میں سوچتے ہیں۔ جماعتی مفاد میں سوچنے والے جماعت اسلامی میں باقی ہیں یا پیپلز پارٹی میں۔ شا ہ محمود قریشی صاحب کا اپنا گروپ ہے۔ چوہدری سرور صاحب کا بھی ایک گروپ ہے۔ صاحبانِ زر تو اور بھی بہت ہیں مگر صاحبِ دانش کی تلاش کے لیے عمران خان کو کافی محنت کر نا پڑے گی۔
اس فیصلے کے بعد یہ دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی عمل ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سمت وہی ہے جس کی کچھ لوگ پہلے ہی نشاندہی کر تے آئے ہیں۔ 2018ء میں ایک ایسی اسمبلی کچھ حلقوں کی خواہش ہے جس میں کوئی اتنا منہ زور نہ ہو کہ قابو میں نہ آ سکے۔ عمران خان اپنے شخصی رجحانات کے باعث کبھی کسی ایسے نظام کا حصہ نہیں بن سکتے جس میں انہیں ڈکٹیشن لینا پڑے؛ تاہم یہ ضروری ہے کہ وہ نظام کا حصہ رہیں تاکہ نظام کے لیے پریشانی نہ بنیں۔ لیکن مطلق اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے، لوگ اس کے لیے بھی تیار نہیں۔ عدالت کے اس فیصلے میں عمران خان کی مکمل بریت کا اعلان نہیں ہوا۔ اگر پارٹی فنڈنگ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ ان کے خلاف آ گیا تو ان کی نااہلی کا ایک بار پھر امکان پیدا ہو جائے گا۔ ان کے خلاف یہ مقدمہ بظاہر بہت مضبوط ہے۔
اگر یہ تاثر درست ہے تو پھر اگلے انتخابات کے بعد شہباز شریف صاحب کا موازنہ کسی ایسی شخصیت سے ہو گا جو ان کی طرح کسی نظام کا حصہ بن سکے۔ اس کھیل سے جہانگیر ترین تو باہر ہو گئے۔ عمران خان اپنی افتادِ طبع کے باعث اس نظام کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے یہ دونوں فیصلے بظاہر ملک کو کسی طوفانی صورتِ حال سے بچانے کا باعث بن سکتے ہیں؛ تاہم یہ ایک وقتی حل ہو گا۔ اگر عصبیت رکھنے والے راہنماؤں کو غیر سیاسی عمل کے نتیجے میں سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا تو یہ ملک کے سیاسی استحکام کے لیے نیک شگون نہیں ہو گا۔ سیاست اسی وقت درست نتائج دے سکتی ہے جب اس کے فطری بہاؤ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جا ئے۔
اس فیصلے کے بعد‘ سیاسی جماعتوں کے لیے درست طرزِ عمل یہی ہو گا کہ وہ ان فیصلوں کو قبول کریں اور قانون کے دائرے میں اپنا حقِ تنقید استعمال کریں۔ کسی رکن اسمبلی کی نااہلی کا معاملہ‘ بہتر یہی ہے کہ الیکشن کمیشن طے کرے۔ سپریم کورٹ کو اگر ایسے بکھیڑوں سے الگ رکھا جا ئے تو اداروں کی ساکھ کے لیے یہی بہتر ہوگا۔
ایک اور سوال بھی اہم ہے: اگر نواز شریف صاحب عدلیہ کے کردار کو اس گرم جوشی کے ساتھ زیرِ بحث نہ لاتے تو کیا اس طرزِکے فیصلے آ سکتے تھے؟ عمران خان تو بارہا کہہ چکے کہ نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلوں کو انہوں نے ممکن بنایا ہے۔ اگر وہ خاموش ہو جاتے توکچھ نہ ہوتا۔ اگر ان کی یہ بات درست ہے تو یہ بھی درست ہونا چاہیے کہ 15دسمبر کے فیصلے بھی سخت ردِ عمل کا نتیجہ ہیں؟ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے عدالتی فیصلے بھی عوامی ردِعمل سے متاثر ہوتے ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved