چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس میاں ثاقب نثار گزشتہ چند روز سے عوامی مسائل پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ کراچی میں انہوں نے انتظامیہ کے ایک افسر سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ''کراچی میں شہریوں کو‘ جو پانی پینے کو ملتا ہے‘ وہ انتہائی ناقص اور غلیظ ہے‘‘۔ اس کے بعد عزت مآب چیف جسٹس نے متعلقہ افسر کو دعوت دی کہ ''جو پانی اہل کراچی پیتے ہیں‘ آئیے ہم دونوں اکٹھے جا کر پئیں‘‘۔ آج کی تقریر میں انہوں نے فرمایا ''عدلیہ کی مثال کسی گاؤں کے بزرگ بابا جیسی ہے۔ بابا حق میں فیصلہ دے تو تعریف اور خلاف دے تو تنقید نہیں کرتے‘‘۔ سارے فیصلے نہ مخالفت میں آتے ہیں اور نہ مدعی یا ملزم کی خواہش کے مطابق۔ پورے پاکستان میں‘ تیسرے سے لے کر اعلیٰ درجے کے ملازمین تک‘ سب اپنا کیس آخری مرحلے پر سپریم کورٹ میں لے کر جاتے ہیں۔ ان کے حق میں یا خلاف فیصلہ ہو جائے تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ مقدمے کے فیصلے یا التوا‘ دونوں کا نتیجہ ایک ہوتا ہے۔ عموماً سپریم کورٹ کے پاس ان بدنصیبوں کی اپیلیں بھی آتی ہیں‘ جنہیں ناانصافی کا شکوہ ہو۔ وہ بد قسمت اپنے محکمے کے فیصلے کے خلاف شکایت لے کر‘ عدالت عظمیٰ میں جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کی گئی ناانصافی پر‘سپریم کورٹ انصاف دے۔ جس کے حق میں فیصلہ ہو وہ مٹھائیاں بانٹتا ہے اور جس کے خلاف ہو‘ وہ صبر شکر کر کے بیٹھ جاتا ہے یا اپیل میں چلا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ میں جا کے جس بیچارے کی شنوائی ہی نہیں ہوتی‘ وہ کیا کرے؟ مجھے ایسے درجنوں واقعات کا علم ہے کہ کوئی ملازم اپنی برطرفی یا معطلی کے خلاف‘ فریاد لے کر سپریم کورٹ میں جاتا ہے اور اس کے فیصلے میں‘ ایک سال سے لے کر پچیس سال کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ کبھی کسی نے اس ملازمت پیشہ شخص کا سوچا‘ جس کا ذریعہ آمدنی صرف اس کی تنخواہ ہو اور عموماً اس کے لئے تنخواہ میں گزر اوقات کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
سرکاری محکمے تھوڑی تنخواہ والے ملازم کو کم تنخواہ کی وجہ سے‘ بہت سی اضافی مراعات دیتے ہیں۔ مثلاً رہائش کے لئے اس کی حیثیت کے مطابق‘ سرکاری گھر‘ برائے نام کرائے پر دے دیا جاتا ہے۔ کوئی اچھے عہدے پر ہو تو اسے دیگر مراعات بھی مل جاتی ہیں۔ جیسے موٹر سائیکل سے لے کر کار تک۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی عذاب ہوتا ہے۔ وہاں کسی سرکاری ملازم کو ٹرانسپورٹ کا ذریعہ مل جائے تو اسے مزید سہولت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بے شمار مراعات ہیں جو سرکاری ملازم کو قلیل تنخواہ کے ساتھ مہیا ہو جاتی ہیں لیکن جب کوئی سرکاری ملازم معطل ہو کر گھر بیٹھ جاتا ہے تو اس سے‘ بیشتر اوقات تمام سہولتیں چھین لی جاتی ہیں۔ جب تک سپریم کورٹ میں اس کی اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ اس کا پورا خاندان عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ اگر اس کے پاس کسی قسم کی سواری ہو‘ تو واپس لے لی جاتی ہے۔ اس کی حاصل شدہ ٹرانسپورٹ‘ موٹر سائیکل یا کوئی چھوٹی کار ہو تو بچوں کے سکول یا کالج کی آمدورفت ایک مصیبت بن کر پورے گھر پر نازل ہو جاتی ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر چار چار‘ پانچ پانچ بچے لاد کر‘ کوئی قسمت کا مارا ‘ انہیںسکول پہنچانے جا رہا ہوتا ہے۔ اگر اس کی یہ سہولت ختم ہو جائے تو سمجھو کہ اس کا مقدر بگڑ گیا۔ بچے بسوں یا ویگنوں میں نہیں جا سکتے۔ چودہ پندرہ سال کے بچے بچیاں‘ بڑوں کا مقابلہ کر کے یا تو بس میں سوار ہی نہیں ہو سکتے یا بس کے اندر گھس جائیں تو انہیں بیٹھنے‘ حتیٰ کہ کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ اگر بچے گونگے بہرے ہوں تو بس کنڈیکٹر موقع پر ہی باکسنگ رنگ بنا کر‘ ان کی دھلائی کر دیتا ہے۔ علاج معالجے کے لئے سرکاری دوائیں ملتی ہی نہیں اور ملتی ہیں تو سرکاری ذرائع سے علاج کی سہولت کا فائدہ نہیں ہوتا۔ دوائیں جعلی ملتی ہیں یا پنجاب حکومت کی ناجائز سرکاری کمپنیاں‘ سرکاری مراعات کا سامان حکومت کے نام پر درآمد کرتی اور دوا فروشوں کے حوالے کر دیتی ہیں۔ یہ کمپنیاں مستحقین کا حق چھین کر نفع اندوزی کرتی ہیں‘ جس کا حصہ اعلیٰ سرکاری افسروں سے لے کر‘ سیکشن افسر تک‘سب کو حسب منصب قیمت پر دیا جاتا ہے۔ میڈیا کے شور مچانے پر‘ اس کالے کاروبار کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دیکھئے نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے۔
بعض بدنیت اور اذیت پسند اہلکار‘ معطلی کے دور میں افسران کو تنخواہ کی ادائی بھی بند کر دیتے ہیں۔ اس طرح ملازمت پیشہ شخص‘ عملاً بے روزگاری کی زندگی میں بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا اور اس کے سکولوں میں جانے والے بچے‘ کاروں اور موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ میں ملازمت کرتے ہیں یا چھوٹے چھوٹے تنوروں اور کھانے پینے کی دکانوں پر‘ گاہکوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ دکان کی صفائی ستھرائی اور برتنوں کی دھلائی بھی شامل ہوتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی یہ تکالیف‘ ظاہر ہے سپریم کورٹ کا مسئلہ نہیں لیکن اب عدلیہ میں انسان دوست اور قانون پسند جج صاحبان‘ کچھ ریلیف دے رہے ہیں۔ مگر سرکاری ملازمین‘ عدالتوں میں انصاف لینے کے لئے جاتے ہیں تو انتقام پسند افسران‘ قوانین کے کان مروڑ کے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ایک مثال ہے کہ درمیانے درجے کے ایک افسر کی بلاوجہ ترقی روک لی گئی۔ وہ اپنے اعلیٰ افسروں اور ماتحت عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک آتا ہے تو ''نئی تاریخ‘‘ خرید کر اگلی تاریخ ''رٹتا‘‘ ہوا واپس گھر آ جاتا ہے۔ اور اس کے بعد ''تاریخ پہ تاریخ‘‘۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سپریم اور ہائی کورٹ میں اپیلیں کرنے کی خاطر‘ وہ قانون کے تحت اپنی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کی تلافی کرنے کے قابل ہو جائے؟ سپریم کورٹ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں‘ چھوٹے چھوٹے معاملات اور اپیلوں کو دیکھنے کے لئے‘سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا ایک ایک جج‘ ضروری عملے کے ساتھ مقامی ہائی کورٹ میں بٹھا دے‘ اپیلوں پر قانونی مشورے دینے کے بعد‘ فائلیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف بھجوائی جائیں۔ وہ پندرہ دن کے اندر اندر‘ اِدھر یا اُدھر کے فیصلے کر کے اپنے سیکرٹریٹ میں عمل درآمد کے لئے بھیج دیں۔ ظاہر ہے کہ میں عدلیہ کے دفتری نظام سے واقف نہیں لیکن ایک التجا ہے کہ سپریم کورٹ‘ ہزاروں سائلوں کو اعلیٰ درجے پر‘ تھوڑے وقت میں انصاف دے کر‘ خاندانوں کی دعائیں لے۔ فیصلہ حق میں ہو جائے تو اسے اپنی ملازمت کا تحفظ دیا جائے اور اگر حق میں نہیں ہوتا تو قسمت پر قناعت کر کے‘ دعائیں دیتا اور مانگتا ہوا‘ گھر کی طرف چلا جائے۔اور ''تاریخ پہ تاریخ‘‘ کے دائروں میں گھومتا ہوا‘ لٹو کی موت نہ مر جائے۔
چودھری نثار نے کیا پتے کی بات کہی ''نواز شریف میری بات مانتے تو حدیبیہ کی طرح فیصلے آتے‘‘۔ امید ہے نواز شریف سمجھ گئے ہوں گے ''انہیں کس نے نکالا؟‘‘ اور ''اب کون اندر لے جائے گا؟‘‘