سپریم کورٹ نے ایک ہی دن دو بڑے مقدمات کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالتی طریق کار سے ناآشنا عناصر نے ان دونوں کے درمیان توازن ڈھونڈ نکالا ہے۔ ایک مقدمہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لئے دائر درخواستوں کا تھا، دوسرا نیب کی طرف سے اس استدعا کا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے تین سال پرانے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ دونوں درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے دو فل بینچ کر رہے تھے۔ ایک کی سربراہی دور اندیش چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس تھی تو دوسرے کی بے دھڑک جسٹس شیر عالم کے پاس۔ عالی دماغ جسٹس فائز عیسیٰ بھی اس کا حصہ تھے۔ عدالتی روایات کے مطابق ایک بینچ کو دوسرے کے معاملات کی کوئی خبر نہیں ہوتی، حتیٰ کہ ایک ہی بینچ میں بیٹھنے والے جج صاحبان کے لئے بھی اپنے رفقاء پر دل کھولنا لازم نہیں ہوتا۔ دونوں فیصلوں نے بہت سے دلوں کو اطمینان بخشا، عمران خان صادق اور امین قرار پائے اور یوں تحریک انصاف کے متوالوں کی باچھیں کھل گئیں۔ انہوں نے فلک شگاف اظہارِ مسرت کیا، جبکہ جہانگیر ترین کو لندن میں موجود اثاثے چھپانے اور سپریم کورٹ میں غلط بیانی کا مرتکب قرار دے کر پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں ان کی نشست خالی قرار پا چکی۔ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک سو بیس دن سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے، اس لئے اس پر ضمنی انتخاب کا انعقاد ہو گا۔ امکان ہے ترین صاحب کے فرزند ارجمند اس میں حصہ لیں گے۔ عمران خان نے اس معاملے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس طرح کی کاوش سے زیادہ توقعات نہیں قائم کی جا سکتیں کہ اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ نہ کوئی نئی دلیل دی جا سکتی ہے، نہ نیا وکیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے عام طور پر اس کے حصے میں استرداد ہی آتا ہے۔ جہانگیر ترین کے غم میں شرکت کا اظہار کرنے کے باوجود عمران خان نے فیصلے کو فتح عظیم قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین کی نااہلی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا۔ خان صاحب تو ایسے میں سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکے تھے کہ ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان انہیں منظور نہیں تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے نے ملکی سیاست کو ایک بڑے بھونچال سے محفوظ رکھا۔ عمران خان اور تحریک انصاف سے جو بھی اختلاف کیا جائے، ان کے بغیر سیاست بے رونق ہو جاتی۔
ایک طرف، ایک فل بینچ نے عمران خان کو نئی زندگی دے دی یا یہ کہیے کہ ان کی پرانی زندگی میں دخل نہیں دیا تو دوسری طرف دوسرے فل بینچ نے حدیبیہ کا ریفرنس داخل دفتر کرکے شہباز شریف کے لئے میدان صاف کر دیا۔ یہ معاملہ برسوں سے (بشکریہ رحمن ملک) شریف خاندان کا تعاقب کر رہا ہے اور مختلف اوقات میں اسے کھولا اور بند کیا جاتا رہا ہے۔ مختلف عدالتیں اس کے خلاف فیصلے دے چکیں، اس کے باوجود مبینہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے شریف خاندان کے مخالف اس کا ہوّا کھڑا کرتے رہے ہیں۔ پاناما کیس کی کارروائی کے دوران اس طرح کے اشارے دیئے گئے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ نے بھی اسے اس طرح اٹھایا کہ نیب کو حرکت میں آنا پڑا۔ 2014ء میں لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو ختم کر چکی تھی اور اس وقت کے چیئرمین نیب نے اپنے پراسیکیوٹر جنرل کی سفارش پر اس کے خلاف سپریم کورٹ میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کے مرکزی کردار مرحوم میاں محمد شریف تھے‘ اور دوسرے یہ کہ قانونی طور پر اس میں اتنی جان نہیں تھی کہ اس پر وسائل اور وقت ضائع کئے جاتے۔ نیب نے تازہ موقف اختیار کیا کہ شریف خاندان کے دبائو کی وجہ سے اس معاملے کی نہ آزادانہ تحقیقات کی گئیں، نہ (مناسب انداز میں) مقدمہ چلایا جا سکا۔ اس پر عدالت نے شریف خاندان کے حوالے سے تاریخ وار تفصیلات طلب کر لیں، جن سے پتہ چل سکے کہ کب کب وہ اس معاملے پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں تھے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی تو پتہ چلا کہ شریف خاندان تو ایک بڑا عرصہ نہ صرف محرومِ اقتدار رہا بلکہ اسے پاکستان میں بھی نہیں رہنے دیا گیا۔ جب یہ قلعی کھلی تو نیب کے عزائم بھی چکنا چور ہو گئے۔ فاضل عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے مردہ گھوڑے کو چابک مارنے سے انکار کر دیا اور نو نو گز کی وہ زبانیں جو شہباز شریف کو بھی حدیبیہ کی بھٹی میں جھونکنے پر مصر تھیں، انہیں تالا لگ گیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ 2018ء کا معرکہ اب عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان ہو گا، دونوں میں سے کسی ایک کے سر وزارت عظمیٰ کا تاج سجے گا۔ عمران خان نے بھی یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لی ہے کہ مقابلے کے بغیر جیتنا ان کو مرغوب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بحث جاری ہے، اور جاری رہے گی۔ مریم نواز اور بعض مسلم لیگی وزیروں کے تند و تیز تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی لمبی زبانیں موجود ہیں۔ عمران خان کے مقدمے کا نواز شریف کے معاملے سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ سماعت کے دوران بھی بار بار اٹھایا جاتا رہا، اسی کا جواب دینے کے لئے جسٹس فیصل عرب کو کئی صفحات الگ سے تحریر کرنا پڑے۔ انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ نواز شریف
اور عمران کے معاملات بالکل الگ ہیں۔ ایک بڑا عرصہ اقتدار میں رہا ہے، جبکہ دوسرے نے یہ مزہ نہیں چکھا۔ اس کے باوجود اس بحث کو سمیٹنا ممکن نہیں ہو گا۔ امتیازی سلوک کی دہائی دی جاتی رہے گی اور یہ خدشات بھی ظاہر کئے جاتے رہیں گے کہ منتخب نمائندوں کے سر پر سپریم کورٹ نے تلوار لٹکا دی ہے۔ انہیں 184(3) کے تحت نااہل قرار دے کر اس طرح گھر بھجوایا جاتا رہے گا کہ اپیل کا حق بھی انہیں حاصل نہ ہو تو پھر سیاست کو قرار نصیب نہیں ہو گا۔ اس الجھن کا حل یہی ہے کہ اہل سیاست سر جوڑ کر بیٹھیں اور پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔ سیاست میں عدالت کا دخل محدود کرنے کی تدبیر کریں۔ قانون سازی ہی کے ذریعے منتخب نمائندوں کو سپریم کورٹ کے براہ راست تعاقب سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ بھاگ بھاگ کر ایک دوسرے کے خلاف درخواستیں دینے پہنچتے رہیں گے‘ اور ایک دوسرے کے خلاف عدالتی اختیار کے استعمال کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہیں گے تو پھر ایڑی اور چوٹی دونوں کو نقصان پہنچتا رہے گا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین کی نااہلی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا۔ خان صاحب تو ایسے میں سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکے تھے کہ ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی گردان انہیں منظور نہیں تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے نے ملکی سیاست کو ایک بڑے بھونچال سے محفوظ رکھا۔ عمران خان اور تحریک انصاف سے جو بھی اختلاف کیا جائے، ان کے بغیر سیاست بے رونق ہو جاتی۔