تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-12-2017

سقوطِ ڈھاکہ

سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ عالم اسلام کی تاریخ میں سقوط بغداد اور سقوط بیت المقدس کے بعد کوئی بھی سانحہ اس کی شدت، تکلیف اور کربناکی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سقوط ڈھاکہ کے پس منظر پر جب غور کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ واقعہ یک لخت رونما نہیں ہوا بلکہ اس سانحے کے پس منظر میں تساہل اور مجرمانہ غفلت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب علیحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک چلائی تو علاقائیت، لسانیت، صوبائیت اور دیگر تعصبات کو پس پشت ڈال کر‘ وہ فقط ''لا الہ الا اللہ‘‘ کی بنیاد پر قائداعظم، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں اور دیگر قائدین کی قیادت میں متحد ہو گئے۔ اپنے قائدین کی قیادت میں جب مسلمانان برصغیر نے یکجا، یک آواز اور ہم آہنگ ہو کر تسلسل کے ساتھ بھرپور جدوجہد کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں انگریزی استبداد اور مکار ہندوؤں کی چالبازی سے نجات دلا کر دنیائے اسلام کا سب سے بڑا وطن عطا فرما دیا۔
پاکستان چونکہ نظریاتی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آیا تھا اس لیے اس کے ریاستی امور کو مذہب کے ساتھ وابستہ کیے رکھنا انتہائی ضروری تھا۔ لیکن یہ مقامِ تاسف ہے کہ بانیٔ پاکستان اور مصورِ پاکستان کے تصورات کے بالکل برعکس قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان کے نمایاں سیاسی رہنماؤں نے مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو غیر ضروری سمجھنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً مذہبی ہم آہنگی کی جگہ علاقائی اور لسانی تعصبات نے لینا شروع کر دی۔ بنگالی اور غیر بنگالی، مشرقی اور مغربی کے نام پر اختلافات نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ بھارت اس بات کو بھانپ چکا تھا کہ گو پاکستان ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے قائم ہوا ہے لیکن پاکستان کے رہنما مذہب اور ریاست کے امور کو مربوط کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے جدا کرنے پر تل چکے ہیں؛ چنانچہ اس نے بنگال میں ایک سازش کے تحت ان تحریکوں کی پشت پناہی کی جو بنگالی قوم پرستی پر یقین رکھتے ہوئے‘ بنگالیوں کے حقوق کے لیے کوشاںتھیں۔ بھارت کی سرپرستی میں بنگال میں سیاسی ناچاقیوں اور قومی نااتفاقیوں کو ہوا دے کر ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ بنگالی قوم پرست احساسِ محرومی میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ اس احساسِ محرومی کو اس وقت تقویت ملی جب 1971ء کے انتخابات میں عوامی لیگ پارلیمان میں اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھری لیکن بعض غیر ذمہ دار عناصر نے ان کی سیاسی فتح کو قبول کرنے کی بجائے ''اِدھر ہم اور اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ اس غیر ذمہ دارانہ نعرے کی وجہ سے بنگال کے لوگ پاکستان سے متنفر ہوئے اور قوم پرست بنگالیوں نے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے ایک بڑی تحریک کو بپا کر دیا۔ اس موقع پر بنگال میں موجود اسلام پسند اور محب وطن رہنماؤں نے بنگال کو پاکستان سے وابستہ رکھنے کی بڑی کوششیں کیں جو بوجوہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ بعد ازاں بنگلہ دیش کی آزادی کے حصول کے لیے چلنے والی تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت نے فوجی مداخلت کی جس کا راستہ مشرقی پاکستان میں عسکری طاقتیں اس لیے نہ روک سکیں کہ ان کو عوام کی پشت پناہی حاصل نہ تھی۔ بنگلہ دیش ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے منظر عام پر آ گیا۔ اس سانحے کے دوران پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر‘ اسلام اور پاکستان سے اپنی وابستگی کا اپنی حد تک بھرپور طریقے سے اظہار کرتے رہے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ بعد ازاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ہونے والے شملہ معاہدے میں اس بات کو طے کر لیا گیا کہ بنگلہ دیش کے ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے قائم ہونے کے بعد سابقہ سیاسی وابستگی اور نظریات کی وجہ سے کسی بھی جماعت یا شخصیت کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ بدقسمتی سے عوامی لیگ بھارت کے ایما پر بتدریج انتقام کے منفی راستے پر چل نکلی اور بنگلہ دیش کے قیام کو چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ان لوگوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانا شروع کیا گیا جنہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی؛ چنانچہ پروفیسر مطیع الرحمن نظامی، پروفیسر غلام اعظم، ملا عبدالقادر اور جماعت اسلامی کے بہت سے دیگر رہنماؤں کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے نہایت غیر مقبول انداز میں سزائے موت دی گئی۔ ان شہداء کا واحد جرم اسلام اور پاکستان سے محبت تھی۔ لیکن یہ مقام تاسف ہے کہ ان لوگوں کو شہید ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان کے متقدر حلقوں نے کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا اور راہِ حق کے یہ راہی بے بسی کے ساتھ عالم تنہائی میں جام شہادت کو نوش کر گئے۔
ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 15 دسمبر کو ہمدرد ہال لاہور میں جماعت اسلامی نے ''شہدائے نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ایک باوقار پروگرام کا انعقاد کیا جس سے جماعت اسلامی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کلیدی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان حکومت کے رویے پر گہرے تاسف اور دکھ کا اظہار کیا اور الشمس اور البدر کے کارکنان کی قربانیوں کے نظر انداز کیے جانے پر پاکستان حکومت پر کڑی تنقید کی۔ اس پروگرام میں جناب لیاقت بلوچ کے صدارتی خطاب سے قبل میں نے جو خطاب کیا اس کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتاہوں:
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بلاشبہ ہر اعتبار سے المناک ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سانحے کی ذمہ داری فقط بھارت اور بنگالی قوم پرست رہنماؤں پر عائد کی جا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِسیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
حقیقت حال یہ ہے کہ اس سانحے میں جہاں پر خارجی عوامل کار فرما ہیں وہیں پر اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ داخلی اعتبار سے ہم اپنے ملک میں نظامِ عدل کو قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح تحریک پاکستان کے قائدین نے ملک میں اسلام کی بالا دستی اور ایک اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کا جو وعدہ کیا تھا اس کو بھی ہم پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد نہ تو رنگ ہے اور نہ نسل اور زبان۔ مصور پاکستان نے بجا طور پر کہا تھا ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی(ﷺ)
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
چنانچہ جب ماضی میں ہم نے مصور پاکستان کے تصورِ ملّت کو صحیح معنوں میں یاد نہ رکھا تو وہی بنگالی‘ جن کے مقتدر رہنما مولوی اے کے فضل الحق نے قراردادِ پاکستان کو پیش کیا تھا، ہمارے ساتھ ہم آہنگ نہ رہ سکے۔ آج بھی ہم اگر بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، کوہستان اورسرائیکی لوگوں کو باہم متحد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے نظریۂ پاکستان اور تصورِ ملّت کو اجاگر کرنا پڑے گا۔ ایک کثیر القومی ریاست میں رنگ، نسل، ثقافت، لباس، بود و باش اور وضع قطع کی بنیاد پر قوم کو متحد نہیں رکھا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ربوبیت، رسول کریمﷺ کی رسالت، کلمہ طیبہ کے ورد، قرآن مجید کے تقدس اور بیت اللہ کی جہت کی وجہ سے پوری قوم متحد ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ بڑی سیاسی جماعتیں مذہب اور سیاست کو باہم مربوط کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما نے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے مذہب اور سیاست کے باہم ربط کا بڑی صراحت سے انکار کیا۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے اسی کج فکری پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ؎ 
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
نظریۂ پاکستان جو کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی دعوت دیتا ہے اسی کی بنیاد پر ہم ملک کے جملہ معاملات کو چلا سکتے ہیں۔ گو ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اس اعتبار سے تسلی بخش نہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل وکرم ہے کہ ملک کی بہت سی مذہبی سیاسی جماعتیں اور ذمہ دار مذہبی رہنما نظریۂ پاکستان اور اللہ کی حاکمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور قومی، گروہی اور لسانی تعصبات کے خاتمے کے لیے مذہب کے مرہم کو استعمال کرنے کی رغبت دلاتے رہتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے سے سبق حاصل کیے بغیر ہم مستقبل میں اس قسم کے المیوں، حادثات اور سانحوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں، مقتدر حلقوں اور عوام کو صحیح معنوں میں‘ درست سمت کا تعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved