تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     17-12-2017

سجائی گئی چیزیں

اپنی بقا کی جنگ‘ وہ شے ہے‘ ہر زندہ چیز جس سے بخوبی واقف ہے۔ چاہے وہ ایک واحد خلیہ ہو یا 37.4 ٹرلین خلیات پر مشتمل انسان۔ زندگی کے مطالعے کی سائنس‘ حیاتیات (Biology) یہ کہتی ہے کہ وہی جاندار دیر تک زندہ رہتے ہیں‘ جو بدلتے ہوئے ماحول کے ساتھ خود کو بدلتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اسے Survival of the fittest کا نام دیا۔ یعنی زندہ وہی رہے گا، جس کا جسم اور دماغ بدلتے ہوئے حالات میں بہترین حکمتِ عملی اختیار کرے گا۔ جو سب سے زیادہ قوت اور سب سے زیادہ برداشت والا ہو گا۔ یہ سب جانداروں کی بنیادی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں۔ جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نفس‘ یا جسے آپ دماغ کہتے ہیں‘ اس میں اپنے آپ سے شدید محبت پائی جاتی ہے۔ اپنے آپ سے یہ شدید محبت اکثر جذبات کا ماخذ ہوتی ہے۔ اگر کسی نے میرا مذاق اڑایا تو میری خود سے محبت کبھی مجھے یہ بات بھولنے نہ دے گی۔ باقی ساری زندگی میں انتقام کی تاک میں رہوں گا۔ چھوٹا قد، گنجا سر، کالا رنگ، اپنے آپ میں یہ سب خرابیاں کیوں انسان کو بری لگتی ہیں؟ اس لیے کہ نفس اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اپنے اندر کوئی بھی خامی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ پھر خدا نے جانداروں کے جسموں میں درد کا ایک نظام رکھا ہے۔ جلد میں کوئی چیز چبھنے کی دیر ہے، درد کا احساس جسم میں موجود تاروں (Nerves) کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی سے ہوتا ہوا دماغ تک جاتا ہے۔ جاندار فوراً ردّعمل دیتا ہے۔ ہڈی ٹوٹ جائے، شدید درد ہوگا، انسان علاج معالجہ کرے گا۔ اگر یہ درد نہ ہوتا تو جاندارعلاج نہ کرتے، زخمی شیر اپنی کچھار میں چھپ نہ جاتے اور جاندار چلتے چلتے گر کر مر جاتے۔ اپنے آپ سے محبت اور درد، یہ دو چیزیں ہیں، جو انسان کو اور تمام جانداروں کو اپنی زندگی کی حفاظت پہ مجبور کرتی ہیں۔ جاندار اپنی بقا کی جنگ اس قدر خوفناک قوت سے لڑتے ہیں کہ نیشنل جیوگرافک اور دوسرے چینلوں پر یہ سب دیکھتے ہوئے‘ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔سب سے زیادہ خوبصورتی سے بقا کی یہ جنگ اگر کسی نے لڑی ہے تو وہ خود انسان ہی ہے۔ وہی تو اس سیارے کا حکمران ہے۔
صرف ایک جذبہ ایسا ہے کہ جو اپنی جان کی حفاظت پہ غالب آ جاتا ہے اور یہ اپنی اولاد سے محبت کا جذبہ ہے۔ اولاد سے اپنی محبت کے بارے میں وہی جان سکتا ہے، جو بال بچے دار ہو۔ جاندار جان دے کر‘ اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر اپنی اور اپنی اولاد میں سے ایک کی جان بچانے کا موقع ہو تو والدین ہمیشہ اولاد کی جان بچانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ دماغ میں ایک اور شدید ترین محبت، اولاد سے محبت بھی پائی جاتی ہے اور یہ اس قدر شدید ہے کہ نفس کی خود سے محبت پر بھی یہ غالب آ جاتی ہے۔ انسان اپنی اولاد پہ فخر کرتاہے۔ اس کی تمام خامیوں کو گوارا کرتا ہے۔ اس کی طرف سے پہنچنے والی تمام تکلیفوں پہ صبر کرتا ہے۔ ہزار تکلیفیں پہنچانے والی اولاد کو بھی وہ معاف کر دیتا ہے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر جب زندگی کو پیدا کیا گیا تو خدا نے یہ جذبہ جانداروں کے دماغوں اور دلوں میں خصوصی طور پر رکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور اگر جاندار فقط خود سے ہی محبت کرتے رہتے تو کوئی اپنی اولاد کی ذمہ داری نہ اٹھاتا۔ اس لیے کہ اولاد پالنے میں جانداروں کو شدید ترین مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنا پیٹ خالی رکھ کر اولاد کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ربّ ذوالجلال والاکرام سے زیادہ یہ کون جانتا تھا کہ زندگی کی بقا کے لیے جانداروں میں اپنی اولاد کی محبت اپنی جان کی محبت سے بھی شدید ہونی چاہیے۔
انسان جب اپنی جان سے شدید ترین محبت کے جذبے پر غالب آ کر شہادت قبول کرتا ہے تو خدا بدلے میں اسے ہمیشہ کی زندگی بخش دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ وہ مردہ نہیں‘ زندہ ہیں۔ انہیں ان کی قبروں میں رزق دیا جاتا ہے لیکن ایک حجاب ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ خدا کی محبت میں اپنی اولاد کی محبت پہ سبقت لے گئے۔ اپنے ہاتھ سے چھری اسمٰعیل ؑ کی گردن پہ چلائی اور بنی نوعِ انسان کو ہمیشہ باقی رہنے والی عزت بخشی۔ سیّدنا حسینؓ نے اپنی جان اور اپنی آل اولاد، سبھی کو خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت پہ قربان کر دیا۔ ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
اولاد کی محبت وہ امتحان ہے، جہاں بڑے بڑے شہسوار ڈھے پڑتے ہیں۔ قائم وہی رہتاہے، جس نے خدا کا ہاتھ‘ اس کی رسی کو تھام رکھا ہو۔
یہ سب تو اپنی جگہ، جب خدا یہ بتاتا ہے کہ تم کیا سمجھتے ہو، اولاد سے یہ محبت تمہاری ملکیت ہے؟ نہیں بلکہ یہ تو ہم نے تمہارے دلوں میں ڈالی ہے۔ ہر جگہ، بار بار وہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہارے دلوں میں یہ محبت پیدا کی۔ اگر وہ چاہے تو اسے اٹھا لے۔ جب بلونگڑے ایک خاص حد تک بڑے ہو جاتے ہیں، تب بلی کے دل سے ان کی محبت نکال لی جاتی ہے۔ پھر وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ Tigers میں تو بچّے اپنی اس ماں سے جگہ کی ملکیت پہ لڑ پڑتے ہیں، اسے مار ڈالتے ہیں، جس نے انہیں دودھ پلایا ہوتا ہے۔ جس نے بارہا اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان کے پیٹ بھرنے کا انتظام کیا ہوتا ہے۔
پھر وہ فرماتا ہے کہ جب ہم یہ محبت تمہارے دلوں سے اٹھالیں گے: ''اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے اور ماں سے اور باپ سے اور بیوی سے اور بیٹوں سے‘‘۔ (سورہ عبس) وہ فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک فکر کھائے جا رہی ہو گی اور وہ اس فکر میں سے نکل نہیں سکے گا۔ (مفہوم)
انسان جب یہ سوچتا ہے کہ مجھے اپنی اولاد کی فکر نہیں رہے گی۔ مجھے صرف اپنی جان کی فکر ہو گی۔ صرف اور صرف اپنی نجات کی فکر ہو گی تو اسے ایک ایسا جھٹکا لگتاہے کہ وہ سکتے میں چلا جاتا ہے۔ یہاں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب تو دھوکا ہے۔ میرے سامنے یہ دنیا سجا دی گئی ہے۔ ایک خوبصورت چہرے میں کشش رکھ دی گئی ہے۔ میری حسیّات، میری آنکھیں، میرے ہاتھ اسے دیکھنے میں، اسے چھونے میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے مجھے بتایا جا رہا ہے کہ ایسا نہ کرنا، عقل استعمال کرنا۔ اس لیے کہ یہ سب دھوکا ہے۔ پھر انسان اپنے مال کو دیکھتا ہے۔ جس مال کے ڈھیر وہ جمع کر لیتا ہے، وہ اس کے نہیں ہوتے۔ روز دنیا میں ہم‘ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی کشمکش دیکھتے ہیں۔ ہر جائز و ناجائز طریقے سے۔ سرکارؐ کے فرمان کے مطابق، انسان جسے اپنا مال سمجھ رہا ہوتا ہے، وہ اس کا مال نہیں ہوتا بلکہ اس کے جمع شدہ مال میں سے صرف اتنا اس کا مال ہوتاہے جتنا کہ وہ واقعی دنیا میں استعمال کر لیتا ہے۔ (مفہوم حدیث) جو وہ خدا کے راستے میں دے دیتا ہے، وہ بھی اس کے مال میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ سب دھوکہ ہے۔ ہمیں آزمانے کے لیے سجائی گئی چیزیں، جن کی محبت سے ہم نکل نہیں پا رہے‘ اس سجے سجائے میلے میں ہمارا کچھ بھی نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved