تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     10-03-2013

بہادر شخص کی موت

ہیوگو شاویز بہادر شخص کی طرح جیا۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو للکارا‘ سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی‘ استعماری طاقتوں پر کھل کر تنقید کی اور اس نظام کا غلام بننے سے انکار کر دیا جو صرف سرمایہ داروں کا پیٹ بھرتا ہے۔ اس نے ان سامراجی طاقتوں سے بغاوت کی جن کی خواہش ہے کہ ساری دنیا کے وسائل کو قبضے میں لے کر دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا جائے۔ طاقت کے خوفناک عدم توازن پر اس کا احتجاج تمام عمر رہا۔ وہ اس بات کا کھل کر اظہار کرتا کہ اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو امریکہ کے سامراجی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے سچے اور تلخ جملوں کی بازگشت ہر جگہ سنائی دیتی اس لیے کہ شاید اس جیسا اور کوئی تھا ہی نہیں جو سپر پاور کو ماننے سے انکار کرتا۔ آج بھی سب کو یاد ہوگا کہ جب امریکہ کی عراق میں جارحیت جاری تھی تو ہیوگو شاویز نے ایک عالمی فورم پر ببانگ دہل جارج ڈبلیو بش کو شیطان، جھوٹا اور قاتل قرار دیا اور کہا کہ جارج بش نفسیاتی طور پر بیمار ہے اور یہ زمین کا بدترین شخص ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر چڑھائی کی تو امریکہ کے زیر اثر مسلم ممالک بھی اس انداز میں احتجاج نہ کر سکے جس طرح کھل کر ہیوگوشاویز نے اسرائیل کی شیطانیت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسرائیل پاگل ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کا ملک وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور یہی چیز امریکہ کی نظر میں کھٹکتی تھی۔ ہیوگو شاویز نے صحیح کیا یا غلط مگر وینزویلا کے غریب عوام اس سے خوش ہیں وہ ان کا ہیرو تھا کیونکہ اس نے اپنے ملک کی تیل کی دولت کو اپنے غریب لوگوں کی فلاح اور بہبود کے لیے خرچ کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہا جاتا ہے کہ سوشلزم ناکام ہو چکا ہے۔ شاویز نے اپنے انداز میں اس نظام کو اپنی دھرتی پر قائم کیا۔ وینزویلا میں اسے ڈیموکریٹک سوشلسٹ اکنامک پالیسز کا نام دیا جاتا ہے اور اس سارے نظام کا مطمحِ نظر وینزویلا کا غریب شہری ہے جس کو غذا، تعلیم اور صحت کی بہترین سہولتیں سرکار کی طرف سے مہیا کی جاتی ہیں۔ صحت کے میدان میں شاویز نے انقلابی اقدامات کیے۔ کیوبا کی حکومت کے تعاون سے صحت کا ایسا نظام بنایا کہ لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک مثلاً برازیل، ارجنٹائن، پیرو، بولیویا سے بھی غریب لوگ وینزویلا کی مفت ہیلتھ کیئر سروس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ شاویز نے اپنے عوام کے لیے کئی طرح کے سوشل پروگرام شروع کئے۔ زرعی اصلاحات کے سخت قوانین بنائے۔ یہاں تک کہ ایک قانون کے تحت وینزویلا کے سرمایہ داروں کو مزید شاپنگ مال بنانے سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ یہ زمین سٹیٹ کی امانت ہے اور سٹیٹ اس پر عوام کے لیے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنانا چاہتی ہے۔ پرائس کنٹرول کا ایسا نظام بنایا کہ اشیائے خوردنی اور بنیادی ضرورت کی تقریباً چار سو اشیاء پر عوام کو سب سڈی دی۔ یوں سرکار کے کنٹرول میں چلائے جانے والے سٹورز پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام مارکیٹ سے تیس فیصد سے بھی کم ریٹ پر دستیاب ہونے لگیں۔ اس طرح وینزویلا کے غریبوں کے لیے زندگی سہل ہو گئی۔ وہ شخص ان کا ہیرو بن گیا جب دو سال پہلے اُسے کینسر تشخیص ہوا تو اس سے محبت کرنے والے عوام اس کی درازی عمر کے لیے دعا مانگنے لگے۔ اس سے ہر وہ شخص محبت کرتا تھا جو ظلم کے خلاف ہے۔ جو سامراجی طاقتوں سے نفرت کرتا ہے۔ جو انصاف اور مساوات کا حامی ہے۔ جو انسان سے محبت کرتا ہے۔ وہ ایک بے باک اور بہادر رہنما تھا، اسی لیے وہ عالمی طاقتوں کو ناپسند تھا۔ اس کی موت پر جہاں ایک ماتم اور سوگ ہے۔ وہیں سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سپر پاور طاقتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ وہ شخص ان کی راہ سے ہٹ چکا ہے۔ جو قوتیں شاویز کو ناپسند کرتی ہیں وہ اسے اپنی راہ سے ہٹانا چاہتی تھیں۔ شاید اسی لیے اس کی موت کے بعد اس کے چاہنے والے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ان کے ہر دلعزیز بہادر لیڈر کو مارا گیا ہے۔ ایک بار خود شاویز نے اپنے ایک انٹرویو میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’فیڈل کاسترو نے مجھے ہمیشہ کہا کہ شاویز احتیاط کرو کیونکہ امریکہ نے ایسی ٹیکنالوجی بنا لی ہے جس سے وہ تمہیں بیمار کر دیں گے لہٰذا اپنے کھانے پینے پر خاص دھیان رکھا کرو۔‘‘ ہیوگوشاویز… ہر اس آنکھ کا تارا تھا جو ظالم کو ظالم کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اس کی موت پر جہاں وینزویلا میں سات روز کا سوگ منایا گیا وہیں ایران میں بھی اُس کی موت پر ایک دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا۔ ایرانی صدر احمد نژاد بھی امریکی پالیسیوں کے کڑے ناقد ہیں، اسی حوالے سے وہ شاویز کو دل کے قریب سمجھتے تھے۔ شاویز سچا انقلابی اور خالص باغی تھا جس نے دنیا کے عدم مساوات اور ناانصافی پر مبنی نظام سے بغاوت کی۔ ایک تحفہ جو اس نے اپنی قوم کو دیا وہ یہ بھی تھا کہ وینزویلا کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے تسلط سے آزاد کرایا۔ اپنے ملک کے تمام قرضے واپس کیے اور آئندہ ان عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنی دھرتی، اپنے لوگوں کی انا اور غیرت کی حفاظت کی۔ انہیں وینزویلین ہونے پر فخر کا احساس دلایا۔ اس کی موت پر اس کے ملک کے سرمایہ دار خوش ہیں۔ جبکہ کروڑوں عوام، دکھی اور ماتم کی کیفیت میں ہیں۔ اس کی موت کی خبر سن کر لاکھوں لوگ اپنے ہر دلعزیز لیڈر کا پسندیدہ سرخ رنگ پہنے روتے ہوئے گلیوں میں نکل آئے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے ہم شاویز ہیں… ہم شاویز ہیں…!! سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved