تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-12-2017

تقدیر

قدم بہ قدم میاں صاحب دلدل میں اتر رہے ہیں۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے... اور تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا۔
دنیا بدلتی ہے مگر کچھ لوگ نہیں بدلتے۔ روایتی مذہبی لوگوں کی طرح جو ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ قبائلی اندازِ فکر اختیار کرنے پہ اصرار کرتے ہیں۔ جو نہ کریں اور اختلاف کے مرتکب ہوں‘ انہیں کم تر مسلمان سمجھتے ہیں۔ 
آٹھ برس ہوتے ہیں‘ ایک قریبی ساتھی سے نواز شریف کی پے در پے غلطیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: واقعہ یہ ہے کہ آٹھ سالہ غیاب کے دوران‘ ملک جن تغیرات میں گندھا‘ میاں صاحبان کو ان کا ادراک نہیں۔ یہ وہ صاحب ہیں جو نہ صرف ہمیشہ ہر حال میں اپنے لیڈروں کی تائید کرتے ہیں بلکہ مخالفین کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہیں گھٹیا‘ جرائم پیشہ اور احمق ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ بعض علماء نے چھاپہ خانے کی مخالفت کی‘ حتیٰ کہ لائوڈ سپیکر کی۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک خاص مکتبِ فکر کے محبوب‘ طالبان نے افغانستان میں ٹیلی ویژن پر پابندی لگا دی تھی۔ لڑکیوں کے سکول بند کر دیئے تھے۔ قبائلی علاقے میں ان کے زیرِ اثر علماء نے ٹی وی سیٹ توڑنے کی مہم چلائی۔ انہی جنگجوئوں نے جدید تعلیمی ادارے تباہ کئے‘ خاص طور پہ بچیوں کے سکول۔ یہ وہی تھے جنہوں نے ملالہ پہ گولی چلائی۔ پھر ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پہ مہم برپا کی کہ یہ ایک ڈرامہ ہے۔ حالات اب بہت بدل چکے۔ اس وقت گیلپ سے سروے کرایا جاتا تو شاید چالیس پچاس فیصد یا اس سے کچھ زیادہ رائے دینے والے‘ اس دعوے کی تائید کر دیتے۔ خاص طور پہ دیہات کے بسنے والے‘ جہاں ٹیلی ویژن اور اخبارات سے زیادہ جمعہ کا خطبہ دینے والے مولوی صاحبان ذہنی تشکیل کے ذمہ دار ہیں۔ 
خاندان کے ایک مرحوم عالم دین یاد آئے۔ پاک باز‘ پاک نفس‘ دن کا بڑا حصہ بچوں اور بڑوں کو قرآن کریم پڑھانے میں لگا دیتے۔ کوئی معاوضہ کبھی قبول نہ کرتے۔ کہا جاتا کہ عمر بھر انہوں نے جھوٹ نہیں بولا‘ غیبت نہیں کی۔ ممتاز عالم دین مولانا دائود غزنوی سے جوانی میں قرآن کریم کی تفسیر انہوں پڑھی تھی۔ اس کی خدمت میں عمر بتا دی۔ خود اس طالب علم نے بھی کلامِ پاک کا ترجمہ ان سے پڑھا۔ خاندان اور محلے کے بہت سے دوسرے بچوں نے بھی۔ اسی ایثار اور صداقت شعاری کے طفیل‘ پورا شہر ان کا احترام کرتا۔ ایک بار بلدیہ کے چیئرمین نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں کوئی نازیبا جملہ کہا تو برسرِ بازار اپنی چھڑی سے انہیں پیٹ ڈالا۔ اس قدر ہیبت تھی کہ کھڑا وہ مار کھاتا رہا۔ اپنے رفقاسے کہا کہ وہ گستاخی کی جسارت نہ کریں۔ ایک سٹیشن ماسٹر اور ایک انکم ٹیکس آفیسر سے بھی کم و بیش یہی سلوک کیا‘ جو رشوت کے خواہاں تھے۔ بہت سے لوگ ان سے مشورہ کیا کرتے اور اکثر عمل بھی کرتے۔ مدتوں ایک سیاسی جماعت کے ضلعی سربراہ رہے۔ کئی برس جیل کاٹی۔ اختلاف ہوا تو شائستگی سے الگ ہو گئے۔ ذرا سی بدمزگی بھی ہونے نہ دی۔ 
نویں یا دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ایک بار میں نے ان سے پوچھا: کیا انگریزی سیکھنی چاہیے۔ کہا: میں کوئی رائے نہیں دے سکتا لیکن شیخ محمودالحسن کا تجربہ بیان کرتا ہوں۔ اسیر مالٹا کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے فرنگی زبان سیکھنا شروع کی تو پہلے دن ان کی تہجد قضا ہوئی اور دوسرے دن فجر کی نماز بھی۔ سکول میں انگریزی پڑھتا رہا لیکن بے دلی کے ساتھ۔ یہ بات میرے کچے ذہن میں بیٹھ گئی اور مدتوں بیٹھی رہی کہ یہ ایک غلط کام ہے۔ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو میری انگریزی اس قدر ناقص نہ ہوتی‘ بعض اوقات جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ حیرت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایسی فاش غلطی تم کرتے ہو۔ ایاز امیر جیسی نہ سہی‘ رواں دواں زبان تو میں لکھ ہی سکتا۔ عشروں تک اگر لاشعور میں ناگواری نہ کلبلایا کرتی۔ معلومات کے لیے اردو سے زیادہ اب بھی میں انگریزی اخبارات پڑھتا ہوں۔ لکھنے میں اب بھی تامّل کا شکار ہو جاتا ہوں۔ خوش دلی سے چند ماہ کی مشق شاید نجات کا باعث بن جائے مگر نقصان تو ہوا۔ قطعاً کوئی صدمہ نہیں۔ زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے سبق سیکھنے کے لیے۔ دوسروں کو اب میں اپنے تجربے سے آگاہ کر سکتا ہوں۔ صحیح نتیجہ اخذ کر سکوں تو زندگی کے بہت سے دوسرے دائروں میں کچھ نہ کچھ اجالا ہو سکتا ہے۔ فائدہ یہ ہوا کہ اردو سیکھنے پہ زیادہ توجہ دی‘ تھوڑی سی عربی اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی کے علاوہ روسی اور عربی ادب بھی پڑھا۔ زیادہ تر تراجم کی مدد سے۔ اللہ کا شکر ہے کہ برسوں بہترین انگریزی صحافت میں دل لگایا۔ عالمی اخبارات و جرائد کا مطالعہ کرتا رہا۔ نئے طرزِ اظہار اور اسالیب سے سیکھنے کی کوشش کی۔ بائیس برس پہلے پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات ہوئی تو بتدریج فرسودہ فکر سے بھی گلوخلاصی ہوئی۔ برسبیلِ تذکرہ‘ ایک بار انہوں نے مجھ سے پوچھا: آپ اختلاف کرتے ہیں۔ کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جو آپ نے مجھ سے سیکھی ہو۔ عرض کیا: آپ کا بہت احسان مند ہوں کہ آپ نے ہمارا تناظر وسیع کر دیا۔ آپ نے ہمیں زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھنا سکھایا۔ اس سے بڑھ کر کبھی کبھی تو زمین پر رینگتی حیات پر آسمان سے نگاہ ڈالنے کی توفیق بھی۔ اہلِ علم خود پہ فخر نہیں کرتے۔ داد کے طالب نہیں ہوتے کہ اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ فرمایا: یہی اسلام ہے۔ 
میاں محمد نواز شریف کی بات تھی۔ کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ غالبؔ نے کہا تھا:
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
شاعر بھی بادشاہ ہوتے ہیں۔ پروازِ فکر کے لیے غالبؔ کو ساغر و مینا کی ضرورت نہ تھی۔ دن کے اجالے میں‘ حالتِ صحو میں بھی چراغ جلایا کرتے۔ جب ''دربارِ اکبری‘‘ کے ترجمے میں جتے سر سید احمد خان کو انہوں نے مغرب سے نمودار انقلاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تھا تو یہ رامش و رنگ کی محفل نہ تھی۔ دن کا اجالا تھا۔ آخر کار اسی نئی راہ پہ چلتے سر سید نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ جدید مسلم برصغیر کی تشکیل میں‘ جس نے اہم کردار ادا کیا۔ 
ذاتی اور مذہبی تعصب ہے جو علوم کے نئے آفاق سے فیض یاب ہونے نہیں دیتا۔ اپنی ذات کی محبت اس میں شامل ہو جائے تو ہر طرح سے خانہ خراب۔ یہی میاں محمد نواز شریف کا المیہ ہے‘ نرگسیت! غلامی کے مارے معاشروں میں بادشاہوں سے مرعوب ذہن بہت ہوتے ہیں۔ مفادات کے لیے وکالت کرنے والے بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کی خود پسندی اور بے خبری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی غلط بات وہ کہتا ہے‘ تائید میں ابن الوقت سیاستدانوں اور دانشوروں کے پرے ابھرتے ہیں‘ پورے جوش و جذبے کے ساتھ۔ اس لیے کہ جتنی بلند آواز سے حمایت کی جائے گی‘ قبیلے میں اعتبار اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ عدمِ تحفظ سے کچھ افاقہ ہوگا۔ 
عدلیہ اور عسکری قیادت کے خلاف‘ کردار کشی کی شریف مہم ناکام رہے گی۔ ایک سے زیادہ مسلم لیگی لیڈروں نے جنرلوں کو بتایا ہے کہ ان کی پارٹی دہشت گردی سے جنگ لڑتی فوج اور انصاف کرتی عدالت سے تصادم نہیں چاہتی۔ اس میں ان کے سگے بھائی میاں محمد شہباز شریف اور بھتیجے حمزہ شہباز شامل ہیں۔ ایک ممتاز جنرل نے ناچیز سے کہا: نوے فیصد سے زیادہ مسلم لیگیوں کی رائے یہی ہے۔ پھر ایک قہقہہ لگایا اور بولے: چاہتے وہ یہ ہیں کہ ان کے پیرِ تسمہ پا لیڈر سے ہم انہیں نجات دلائیں۔ ہمارا نہیں یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اخلاقی جرأت جس میں نہ ہو‘ قیمت وہی چکائے۔ 
شہباز شریف کو آسانی سے اب روکا نہیں جا سکتا۔ مسلم لیگ کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی صاحب زادی پنجاب میں پارٹی کی لیڈر اور وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ خوشامدیوں کے لشکر ان کے ہم رکاب ہوں گے‘ جس طرح حلقہ 120 کے الیکشن میں تھے۔ ممکن ہے کہ آخر کو یہی طے پائے۔
قدم بہ قدم میاں صاحب دلدل میں اتر رہے ہیں۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے... اور تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved