تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-12-2017

آہ! میاں محمد زمان

خاندان کے چشم و چراغ اور شعلہ بیاں مقرر میاں محمد زمان طویل علالت کے بعد اوکاڑہ میں انتقال کر گئے۔ آپ دو بار وفاقی وزیر رہے۔ ضلع مسلم لیگ کے صدر اور متعدد بار رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ ان کے والد بزرگوار میاں غلام محمد بھی کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ویسے تو کم و بیش ہمارا سارا خاندان ہی مسلم لیگی ہے لیکن اپنے اصولوں کی بنا پر مرحوم کنونشن لیگ کے بجائے کونسل لیگ میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور ملت کے ریفرنڈم میں ان کے بہت بڑے سپورٹر تھے اور ایک بڑے سائز کی لالٹین‘ جو محترمہ کا انتخابی نشان تھی‘ ریفرنڈم کے بعد بھی ان کی رہائشگاہ کے ماتھے پر آویزاں رہی۔ ان کے صاحبزادے میاں یاور زمان دوسری بار صوبائی وزیر چلے آ رہے ہیں۔
ان کے چھوٹے بھائی کرنل محمد صفدر جو جنرل ضیاء الحق کے بڑے منظور نظر افسر تھے اور کم و بیش ان کے ساتھ ہی رہتے‘ غالباً ان کے ملٹری سیکرٹری بھی تھے۔ ہوائی جہاز کے سانحے میں ان کے ساتھ ہی راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ کرنل صاحب کی اس ناگہانی موت پر میں نے نظم لکھی جو ان کی لوح مزار پرکندہ ہے۔ زندگی میں دوسرا بڑا صدمہ انہیں اپنے جواں سال بیٹے انور زمان کی موت کا اٹھانا پڑا۔ میرا شعری مجموعہ ''عہدِ زیاں‘‘ اس شعر کے ساتھ ان کے نام منسوب ہے
راستے ہی میں پسند آگئی کیوں منزلِ مرگ
اے مرے دل کے مسافر تجھے گھر جانا تھا
میاں محمد زمان رشتے میں میرے چچا لگتے تھے لیکن بے تکلف دوست بھی تھے۔ بے حد خوش طبع آدمی تھے۔ مجھے ماسٹر صاحب اور میں انہیں شاعر صاحب کہا کرتا۔ ایک بار بتایا کہ میں ایک دورے پر امریکہ گیا تو وہاں ایک ادبی محفل (جو غالباً مشاعرہ تھی) میں شرکت کا اتفاق ہوا جہاں احمد فراز بھی آئے ہوئے تھے۔ کسی نے انہیں بتایا کہ یہ ظفر اقبال کے رشتے دار ہیں‘ چنانچہ ملنے کے لئے چلے آئے۔ میں نے انہیں کہا کہ ظفر اقبال تو ہمارے گھر کے آدمی ہیں‘ ان کی شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو فراز بولے‘ لوگ ہمیں پڑھتے ہیں اور ہم ظفر اقبال کو!
صاحب موصوف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور اہم معاملات پر ہمیشہ ان سے مشورہ کرتے۔ ان کے فرسٹ کزن میاں محمد منیر آج کل شہر والی نشست پر رکن صوبائی اسمبلی ہیں جو اس سے پہلے چیئرمین بلدیہ بھی رہے ہیں۔ میں نے جب 77ء میں پیپلز پارٹی چھوڑی تو الیکشن کی آمد آمد تھی۔ متحدہ قومی محاذ میں عوامی نیشنل پارٹی کے کوٹے کا قومی اسمبلی کی نشست کا ایک ٹکٹ تھا جو مجھے دیا گیا۔ کافی عرصہ بڑی رونق لگی رہی۔ خان عبدالولی خان‘ عابدہ حسین‘ مخدوم جاوید ہاشمی اور اس سے متعلقہ جماعتوں کے سرکردہ لیڈر میرے جلسوں میں آکر تقریریں کرتے رہے۔ میرے مقابلے میں رائو خورشید علی خان تھے۔ میں تو ٹی وی پر نتیجہ سنتے سنتے سو گیا تھا‘ صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ میں ہار گیا ہوں۔ انہی دنوں جمیل الدین عالی نے بھی قومی الیکشن لڑ کر ہارا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ میں تو کافی نارمل رہا لیکن میاں محمدزمان نے اس غم میں دو دن کھانا نہیں کھایا۔
رائیڈنگ اور صبح کی سیر ان کے معمولات میں شامل تھیں۔ علی الصبح کمیٹی پارک میں ہر روز ان سے ملاقات ہو جاتی۔ زمیندار ہونے کے حوالے سے ایک جدید اور ترقی پسند فارمر بھی تھے۔ اس کے علاوہ ٹینس کے کھلاڑی بھی تھے اور کبھی اس کا ناغہ نہ کرتے۔ الیکشن کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اس دوران خاندان میں الیکشن لڑنے والا میں واحد آدمی تھا۔ الیکشن کے بعد تحریک چلی اور متعدد دوسرے لوگوں کے ساتھ میں نے بھی گرفتاری دی۔ کوئی مہینہ بھرجیل کی آب و ہوا کھائی۔ ان دنوں میں‘ میں شامی صاحب کے ایک ہفت روزہ میں کالم لکھا کرتا تھا اور اس کے ساتھ زوردار غزلیں بھی۔ میں جیل سے باہر آیا تو مہر جیون خان نے‘ جو‘ ان دنوں ڈپٹی کمشنر ساہیوال تھے‘ کچھ دنوں بعد ایک ملاقات میں میرے کچھ دوستوں سے کہا کہ جیل میں رہ کر ظفر اقبال نے زبردست غزلیں لکھی تھیں‘ کیا انہیں ایک بار پھر نہ اندر کر دیا جائے؟ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ضیاء شاہد ایک معاصر اخبار میں کام کیا کرتے تھے اور ان کے کمرے میں دیوار پر ایک نقشہ موجود رہتا تھا جس میں الیکشن لڑنے والوں کے نام اور ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی درج تھی۔ میرے خانے میں اڑتالیس ہزار اور کچھ سو ووٹ درج تھے۔
دیہات میں میری الیکشن کمپین کے مدارالمہام میاں زمان مرحوم ہی ہوا کرتے تھے جو اپنی تقریروں سے خوب رنگ جماتے لیکن میں چند ہزار ووٹوں سے ہار گیا جس کی اصل وجہ یہ بھی تھی کہ کامریڈ عبدالسلام جو میرے الیکشن میں پیش پیش تھے اور ان دنوں اوکاڑہ ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کے ایک دھڑے کے لیڈر بھی تھے‘ انہیں چند مشترکہ دوستوں نے بھڑکا دیا کہ آپ تو اس امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں جس کے ساتھ ساری دینی جماعتیں بھی شامل ہیں‘ آپ کے لبرل ازم کو کیا ہو گیا ہے‘ چنانچہ وہ راتوں رات میری حمایت سے دستبردار ہو گئے اور میں مزدوروں کے چھ سات ہزار ووٹ حاصل نہ کر سکا اور یوں یہ قصہ تمام ہوا۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر دھاندلی بھی ہوئی تھی اور 
لذیذ بُود حکایت‘ دراز تر گفتم
انتقام سے کچھ عرصہ پہلے گھر کے لان میں ہی واک کرتے ہوئے گر گئے تھے جس سے پائوں میں فریکچر ہو گیا اور چلنا پھرنا بھی موقوف۔ صبح و شام متحرک رہنے والا آدمی اگر اس نعمت سے محروم ہو جائے تو اس کی ذہنی کیفیات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مرحوم نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ وہ اپنے وقت میں ضلع بھر کی اہم ترین اور مقبول ترین شخصیت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ وہ میرے رشتے دارکم اور دوست زیادہ تھے اور ان کی رحلت سے میں ایک ذاتی نقصان سے بھی دوچار ہوا ہوں۔ آج شام اوکاڑہ سٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس کے شرکاء کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ انہیں ان کے آبائی گائوں برج جیوے خاں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی اہلیہ کا انتقال چند برس پہلے ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے تین بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر جمیل کی استقامت دے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین‘ ثم آمین!
سب کہاں‘ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved