پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ اُردو کے صدر پروفیسر ڈاکٹر سیّد عامر سہیل نے ترتیب دی ہے جسے پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 700 روپے رکھی ہے۔ کتاب اپنے بچوں بخت آور بخاری محمد حسن‘ محمد جہاں زیب‘ ناظم علی اور اپنی ہم سفر عابدہ احمد خاں کے نام ہے۔ ''چند باتیں‘‘ کے عنوان سے آغاز میں مرتب کی تحریر ہے جس سے اقتباس پسِ سرورق بھی درج ہے۔
تعلّی تو وہ ہوتی ہے جہاں شاعر اپنی تعریف میں خود رطب اللساں ہوتا ہے‘ اور اگر شاعر دوسروں کی طرف سے کئی گئی تعریف کا بیان کرے تو‘ میرے خیال میں وہ بھی ایک طرح کی تعلّی سے کم نہیں ہے۔ لیکن (اور یہ لیکن یہاں اس کا ایک جواز تلاش کرنے کی کوشش ہی ہو سکتی ہے) مرتب نے کتاب اگر بھجوائی ہے تو اس توقع کے ساتھ کہ اس کا ذکر بھی کیا جائے‘ لہٰذا... کتاب کے حصہ اوّل میں انٹرویوز اور مکالمے ہیں۔ اس ضمن میں جن ادبا نے اس میں حصہ لیا ہے ان میں کاشف مجید‘ سید عامر سہیل‘ منیبہ زہرا نقوی‘ ایم خالد فیاض‘ ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر سجاد نعیم شامل ہیں۔
حصہ دوم میں تنقیدی مطالعات ہیں جن میں ''پیش لفظ‘‘ کے عنوان سے افتخار جالب ''آب رواں‘ ایک علامت‘‘ کے عنوان سے بھی افتخار جالب‘ ''پیش لفظ‘‘ کے عنوان سے انتظار حسین‘ ''پیش لفظ‘‘ کے عنوان سے محمد سلیم الرحمن‘ ''طبع رواں‘ منظر معنی اور بیشمار امکانات‘‘ کے عنوان سے شمس الرحمن فاروقی‘ ''ظفر اقبال‘ عجب نہیں کہ ترا چاند ہو ستارہ مجھے‘‘ کے عنوان سے شمیم حنفی‘ ''ادبی منشیات‘‘ کے عنوان سے مشفق خواجہ‘ ''مزاحیہ کسر نفسی‘‘ کے عنوان سے بھی مشفق خواجہ‘ ''بازار بھی ایک راستہ ہے‘‘ کے عنوان سے شہزاد احمد‘ ''آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ''غزل کی پژمردگی کا نیا رنگ ساز‘‘ کے عنوان سے سمیع آہوجا‘ ''رطب و یابس کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر انیس ناگی‘ ''نئے ذائقوں کے زخم‘‘ کے عنوان سے عبدالرشید‘ ''غزل تنقید‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر قاضی افضال حسین‘ ''ظفر اقبال کی شاعر میں الفاظ لسانی...‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی‘ ''خیال خلقی اور زبان‘ انتظاری کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سعادت سعید‘ ''اور پھر ایک طرف اس نے کئے چاروں طرف‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ابرار احمد‘ ''ظفر اقبال‘‘ کے عنوان سے بھی ڈاکٹر ابرار احمد‘ ''ظفر اقبال‘ ایک موذی شاعر‘‘ کے عنوان سے حسین مجروح‘ ''تنقید کی تلافی‘‘ کے عنوان سے بھی حسین مجروح‘ ''ظفر اقبال کا وہم وگماں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر قاضی جمال حسین‘ ''شعریاتِ ظفر چند باتیں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ناصر عباس نیئر‘ ''ظفر اقبال کے اسلوب کے تشکیلی عناصر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ''پاکستانی غزل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ''ظفر اقبال کی شاعری کے تین رُخ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عارف ثاقب‘ ''اب تک‘‘ کے عنوان سے حمیدہ شاہین‘ ''چوتھی کھونٹ کا مسافر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر جواز جعفری‘ ''ذات، کائنات اور حیات کی تثلیت‘‘ کے عنوان سے مشتاق شبنم‘ ''ظفر اقبال: ایک عہد‘ ایک اسلوب‘‘ کے عنوان سے علی اکبر ناطق‘ ''مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ کے عنوان سے فرحت عباس شاہ‘ ظفر اقبال کی شاعری۔ درون ذات کا شعلہ‘ ڈاکٹر افتخار بیگ‘ ظفر اقبال کے کلام میں صنعائی و بدائع کا حُسن کے عنوان سے ڈاکٹر مزمل حسین، ''ظفراقبال کو پڑھتے ہوئے‘‘ کے عنوان سے عابد سیال۔ ''ظفر اقبال غزل کا لیجنڈ‘‘ کے عنوان سے جاذب قریشی‘ ''انکار دوسروں کی حقیقت سے ہو جسے‘‘ کے عنوان سے عمران ازفر‘ ''ظفر اقبال کا شعری بیانیہ اور غالبؔ‘‘ کے عنوان سے الیاس بابر اعوان‘ 'ظفر اقبال: شاعرِ ہفت بیان‘ سرور جاوید‘ ظفر اقبال کی غزل کا اختصاص: چند پہلو کے عنوان سے ظفر النقی‘ ''ہنومان۔ ایک استعارہ‘‘ کے عنوان سے نسیم عباس احمر‘ ''ظفر اقبال کے کلام میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر‘‘ کے عنوان سے سیّدہ سیفو، ''گل آفتاب کے لسانی تجربات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے منیبہ زہرا نقوی‘ ''ظفر اقبال: ایک عہد ایک روایت‘‘ کے عنوان سے سمیرا کلیم کے مضامین ہیں۔
حصہ سوم میں تاثرات‘ فلیپ‘ اقتباسات کے عنوان سے رائے دینے والوں میں عبداللہ حسین‘ بانو قدسیہ‘ احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ محمد حنیف رامے‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ منیر نیازی‘ محمد اظہار الحق‘ افتخار عارف‘ فہمیدہ ریاض‘ اصغر ندیم سید‘ قمر جمیل‘ کشور ناہید‘ احمد جاوید‘ محمد خالد‘ سلیم کوثر‘ نذیر قیصر‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ اختر عثمان اور اظہر غوری شامل ہیں۔
پسِ سرورق شاعر کے ساتھ مرتب کی تصویر ہے جبکہ سرورق محمد جاوید نے بنایا ہے۔ کچھ جگہ بچ گئی ہے‘ لہٰذا ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے تاثرات درج ہیں:
''ظفر اقبال موجودہ عہد میں اُردو غزل کا ایک ایسا دستخط ہے جس کے بغیر اس عہد کی پہچان ممکن نہیں۔ اُردو غزل کے منظرنامے پر ظفر اقبال کے ظہور کو تخلیقی آتش فشاں کے پھٹ پڑنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کی شرر افشانی بعد میں بھی جاری رہی۔ جب چنگاریاں اُڑ رہی ہوں تو تنقید کا دامن جُھلس بھی سکتا ہے۔ ظفر اقبال کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ غزل کی روایت اُردو میں فارسی کے بہت بعد کی ہے لیکن اس کا آسمان کیسے کیسے ستاروں سے سجا ہوا ہے۔ گُرمچی کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کو اپنی جگہ بنانے کے لیے یا کسی بھی نئی تخلیقی آواز کو اپنی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ایک پورے سلسلے کو بے دخل کرنا پڑتا ہے۔ ظفر اقبال کی بے پناہ زور بیانی اور خوش کلامی نے کچھ ایسا ہی کارنامہ سر انجام دیا کہ ان سے بیگانے تو ناخوش تھے ہی‘ اپنے بھی کچھ زیادہ خوش نہیں۔ اگر ماضی میں وہ لسانی تشکیلات کے رطب و یابس کو جھیل گئے ہیں تو معاصرانہ سنسناہٹوں کے خار و خس بھی ان کے آڑے آنے والے نہیں۔ شہر کو تو سیلاب لے جا چکا‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کلیات کی اشاعت کے بعد نئی کھیتیوں پر کیا رنگ آتا ہے‘‘۔
اس تفصیلی ذکر اذکار کا میں تو گناہگار ہو ہی چکا ہوں‘ اب یہ معلوم نہیں کہ مرتب کو کتنے نفلوں کا ثواب ملتا ہے!
جگہ کچھ اور بچ گئی ہے لہٰذا اس کو فرخ یار کی نظم سے پُر کرتے ہیں:
میں نے اُسے اِتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے
آج کا مقطع
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو‘ ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی اُس کو وہیں رہنے دیا