تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-12-2017

اُدھار

اس روز بازار میں خوب ہنگامہ ہوا۔ امینہ سلطان کا کہنا یہ تھاکہ جان بوجھ کر اس کی بے عزتی کی گئی ۔ جہاں تک مقبول حسین کا تعلق ہے ، وہ فقط ''سخت ضرورت ، سخت ضرورت‘‘ کی گردان کیے جا رہا تھا۔ 
انتہائی حد تک خوبصورت اور طرح دار امینہ سلطان کی شہرت یہ تھی کہ وہ اپنے عشق میں تڑپنے والوں کے درد سے محظوظ ہوتی ہے ۔مقبول حسین ہمارا دوست تھا۔ انتہائی حد تک سادہ لوح۔ اپنے دلی جذبات چھپانے میں وہ مکمل طور پر ناکام رہتا تھا ۔ اس دنیا میں ایسا بندہ کیسے گزارا کر سکتاہے ، جو اپنے دل کی بات زبان پر آنے سے نہ روک سکے ۔یہاں تو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ، جن کی شکل سے آپ کو نفرت ہوتی ہے لیکن مسکرا کر ان سے بات کرنا پڑتی ہے ۔ مقبول حسین ایسا شخص تھا ، جس کے دل کی بات ہمیشہ اس کی زبان پر ہوتی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حد سے زیادہ سادہ مزاج تھا۔
مالک مکان والا واقعہ اس کی بہترین مثال تھا۔ ہوا یہ کہ مقبول حسین کے والد نے نیا گھر کرائے پر لیا۔ مالک مکان کا رنگ گہرا، چہرے پر چیچک کے داغ تھے ، اس کے دانت پیلے اورنہانے کا تکلف وہ نہیں کرتا تھا؛لہٰذا اس سے بدبو آیا کرتی۔ نیا مہینہ شروع ہوا تو مقبول حسین کے والد نے اس سے کہا، مالک مکان کرایہ لینے آئے تو تاخیر کے لیے اس سے معذرت کرنا۔ اسے کہنا کہ ایک دو دن میں رقم اسے پہنچا دی جائے گی۔ مالک مکان آیا تو مقبول حسین نے اسے یہ کہا ، ایک دو دن میں کرایہ آپ کو مل جائے گا۔اُس نے کہا، میرے پاس فالتو چکر لگانے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ آئندہ ایسا نہ ہو۔ مقبول حسین نے کہا: دل تو ہمارا بھی نہیں کرتا کہ آپ کا چہرہ دیکھیں یا یہ بدبو برداشت کریں لیکن مجبورہیں ۔مجبوری انسان سے کیا کچھ کرواتی ہے۔ اس کے بعد خوب ہنگامہ ہوا۔ بالآخر انہیں نیا گھر ڈھونڈنا پڑا ۔ 
امینہ سلطان کا محبوب مشغلہ تھا‘لوگوں کو اپنے حسن کے خنجر سے ذبح کرکے پھر تڑپتاہوا چھوڑ دینا۔ مقبول حسین اس کاآخری شکار تھا۔ آخری اس لیے کہ اس کے بعد اس نے شادی کر لی تھی ۔ مقبول حسین کی سادہ لوحی اور دل کی بات زبان پر رکھنے کی عادت نے امینہ سلطان کو اس قدر مسرت سے نوازا کہ جس کا اس نے سوچا تک نہ تھا۔ وہ جب اس سے پوچھتی ، میں تمہیں کیسی لگتی ہوں ۔ مقبول حسین کہتا ، دنیا میں کوئی اور لڑکی اتنی حسین ہو ہی نہیں سکتی۔ ''ناممکن ہے ‘‘وہ سر ہلاتے ہوئے کہتا ''اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی‘‘۔ 
ہم دوستوں نے مقبول حسین کو بہت سمجھایا ۔ اسے کہا، ایک دن وہ اسے چھوڑ جائے گی ۔ اس دن جیسے ہی اسے امینہ نظر آئی، اس نے پوچھا، میں نے سنا ہے کہ ایک دن تم مجھے چھوڑ جائو گی۔ کیا یہ بات سچ ہے ؟ امینہ ہنس کر بولی، نہیں ، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔ مقبول حسین پوری طرح مطمئن ہوگیا۔ 
آخر وہ وقت آیا، جب امینہ نے چھری پھیرنا تھی ۔ کہیں اس کے رشتے کی بات پہلے سے چل رہی تھی اور اب معاملات طے ہو چکے تھے ۔ امینہ نے مقبول حسین سے صاف صاف کہہ دیا : میں تم سے بیزار ہو چکی ہوں ۔ کبھی کوئی بکرا اتنا نہیں تڑپا ہوگا، جتنا مقبول حسین تڑپا۔ اس نے تو رقصِ بسمل شروع کر دیا ۔ اس نے کہا کہ امینہ کے بغیر تو وہ مر جائے گا۔ وہ ہنستی رہی ۔اب مقبول حسین کو دوستوں نے سمجھایا کہ وہ اسے تڑپا کر لطف لینا چاہتی ہے ؛لہٰذا وہ خاموش رہے ۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا، نہیں ، میں واقعی امینہ کے بغیر مر جائوں گا ۔پھر اس نے امینہ کا نمبر ملاکر یہ بات نئے سرے سے اسے بتانا شروع کر دی ۔ وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ کئی مہینے تک یہ کہانی بار بار دہرائی گئی ۔اس کے بعد کوئی مقبول حسین کا حال پوچھتاتو سر د آہ بھر کے وہ یہ کہتا: میں اب ایک لاش ہوں ۔
تو امینہ کی شادی ہو گئی ۔ وقت گزرتا گیا، اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ پھر ایک بیٹی ہوئی۔ چھ سات سال کے بعد آخر مقبول حسین کی بھی شادی ہو گئی ۔ دو سال بعد اس کے ہاں بھی ایک بیٹی پید اہوئی ۔ ان کا تعلق ختم ہوئے قریب دس سال ہونے کو آئے تھے ، جب مقبول حسین نے بازار میں امینہ سلطان کو دیکھا ۔ وہ پہلے کی سی بات نہیں تھی ۔ تھی تو وہ خوبصورت ہی لیکن اب وہ دو بچّوں کی ماں تھی ۔پہلے جو وقت وہ آرائشِ حسن کو دیا کرتی تھی، وہ بچّوں کو سنبھالنے میں صرف ہو رہا تھا ۔وزن بھی بڑھ گیا تھا ۔ پھر اس نے اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اب مقبول حسین کی گود میں اس کی بیٹی تھی ۔ پاس سے گزرتے ہوئے باسی کڑھی میں ابال آیا۔ امینہ سلطان رکی اور اس نے پوچھا: مجھے دیکھ کر کس سوچ میں گم ہو مقبول؟ وہ منہ پھاڑ کر بولا ،میں سوچ رہا ہوں کہ منی کے ڈائپر لینا ہیں اور پیسے بالکل ختم ہیں ۔ تم ہی مجھے ایک ہزار روپے ادھار دے دو، ایک دو دن میں واپس کر دوں گا ۔ پھر اس نے اپنی بیٹی کو اس کی طرف بڑھایا اور کہا، دیکھو میری منی کس قدر خوبصورت ہے ۔اتنی حسین بچّی دنیا میں اور کوئی نہیں (یہ بات وہ شفقتِ پدری کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔ اسے کبھی ہماری اس بات پر یقین نہیں آیا کہ ہر ماں باپ کو اپنی اولاد اتنی ہی خوبصورت لگتی ہے ۔اسے سو فیصد یقین تھا کہ اس کی منی ہی دنیا کی خوبصورت ترین بچّی ہے۔ شکل اس کی اچھی تھی لیکن خود امینہ کی بیٹی اس سے کہیں حسین تھی )۔
کچھ دیر کے لیے امینہ کو یقین ہی نہیں آیا کہ مقبول اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر اپنی منّی کے ڈائپر کے بارے میں سوچ رہا ہے ۔ شروع ہی سے وہ مالدار تھی، خوبصورت تھی ، حسب نسب والی اور طرح دار ۔ سب اس کے سماجی مرتبے کو ملحوظ رکھتے تھے ۔اس کا دھتکارا ہوا ایک شخص اس کے ساتھ یہ سلوک کرے گا، یہ اس نے خواب میں بھی کبھی نہ سوچا تھا۔ اس نے مقبول حسین سے پوچھا، تم تو مجھ پر مرتے تھے۔ وہ افسوس بھرے لہجے میں بولا: غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ۔
یہی وہ لمحہ تھا، جب امینہ پھٹ پڑی ۔ اس نے چیخ چیخ کر مقبول حسین کو برا بھلا کہا ۔ لوگ اکھٹے ہو گئے ۔ امینہ نے کہا، جان بوجھ کر مقبول نے اس کی بے عزتی کی ہے ۔ اس نے پرانا حساب برابر کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلی بار مقبول حسین کو بھی غصے میں دیکھا گیا۔اس نے بھی امینہ کو بے نقط سنائیں ۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس کی بے عزتی کی تھی۔ وہ سکتے کے عالم میں کھڑی رہ گئی ۔ 
اس شام مقبول حسین مجھ سے ملا۔ وہ سخت آزردہ تھا۔ مجھے لگا کہ بالآخر پرانے عشق نے اس کے دل میں انگڑائی لی ہے ۔میں سمجھا شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ۔ اس کی آنکھیں نم تھیں اور وہ سوچ میں گم تھا۔ بالاخر اس نے سراٹھایا اور یہ کہا '' اگر وہ مجھے آرام سے کہہ دیتی کہ اس کے پاس ہزار روپے نہیں تو اتنا تماشا تو نہ لگتا!‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved