گزشتہ چند دنوں کے دوران ملکی اوربین الاقوامی سطح پر بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے اعلان پر امت مسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ جہاں پر اس جارحانہ بیان پر عالم اسلام کے بہت سے مقتدر رہنماؤں نے اپنے اپنے احتجاجی بیانات ریکارڈ کروائے‘ وہیں پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے ملک گیر احتجاج کیا۔ گزشتہ دو جمعوں کے دوران ملک بھر میں بیت المقدس کے حوالے سے احتجاجی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ 17دسمبر کا دن اس حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھاکہ اس دن کراچی، لاہور اور پشاور جیسے پاکستان کے مرکزی شہروں میں تین بڑے مذہبی اجتماعات کا انعقاد ہوا۔ لاہور میں دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام ناصر باغ کے بالمقابل چوک استنبول میں بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں دفاع پاکستان کونسل سے وابستہ جماعتوں کے کارکنان نے شرکت کی۔ استنبول چوک مال روڈ لاہور میں ہونے والی کانفرنس سے دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق، پروفیسر حافظ محمد سعید، لیاقت بلوچ، شیخ رشید، عبدالرحمن مکی، مولانا فضل الرحمن خلیل ، پیر ہارون گیلانی، ریاض فتیانہ، مولانا امیر حمزہ، ودیگر نے خطاب کیا۔ مجھے بھی کانفرنس میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔
مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین نے دفاع پاکستان کونسل کی تحفظ بیت المقدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کا اعلان نئی صلیبی جنگ کا آغاز اور دنیا کے امن پر خودکش حملہ ہے۔ مسلمان دنیا کا امن تہہ وبالا کرنے کے لیے جنگیں نہیں چھیڑتے لیکن اگر امریکہ نے اعلان واپس نہ لیا تو پھر کھلی جنگ ہو گی اور امریکہ افغانستان میں ناکامی کے بعد بیت المقدس کے گردونواح میں خوامخواہ ناکام محاذآرائی کرنا چاہتا ہے۔ کشمیری وفلسطینی مسلمانوں کو جلد آزادی ملے گی۔ مسلم ممالک کی افواج قبلہ اول کی آزادی کے لیے کردار ادا کرے۔ کونسل کے قائدین نے کوئٹہ میں چرچ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ مسجدوں، بازاروں پر حملے کرنے والے دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں‘ کوئی بھی سمجھدار مسلمان ان تحزیبی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ کانفرنس میں وزیراعظم سے اسلام آباد میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اعلان واپس نہ لینے کی صورت میں مسلمان ممالک کو امریکی سفارتخانے بند کردینے چاہئیں۔ قائدین نے مطالبہ کیا کہ مسلمان حکمران بیت المقدس کی آزادی کے لیے اسرائیل کیخلاف جہاد کا اعلان کریں۔ افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی نریندر مودی کا ایجنڈا ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مودی اور ٹرمپ سے دوستیاں نبھانے والے آئندہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ سنی، شیعہ جھگڑوں کے خاتمے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ ہمارے سینے جذبہ ٔ جہاد سے سرشار ہیں۔ ہمیں حکمرانوں کی طرف نہیں دیکھنا بلکہ امت کو جگانا ہے۔ حکمران امریکہ کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ جہاد کو اسلامی ریاست سے مشروط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوںنے کہا کہ اس وقت کوئی ایک مسلمان حکمران بھی جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ جہاد کی بات کرے۔ اس لیے یہ جنگ اُمت محمدیہ نے لڑنی ہے۔ آج ہمیں صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت یہودیوں کو نہ روکا گیا تو ان کا اگلا ہدف حرمین شریفین ہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بہت بڑے مارچ کا انعقاد ہوا جس میں خواتین ، بزرگوں، نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا۔ مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کی جدوجہد مقدس جہاد ہے۔ ہم مقدس جہاد میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے امریکی فیصلے کی واپسی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ تمام اسلامی ممالک امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلائیں۔ عالم اسلام کے حکمران امریکہ کے خلاف جرأت مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مسلم عوام کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کریں۔ اسلامی فوجی اتحاد بیت المقدس اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے واضح طور پر اپنے ایجنڈے کا اعلان کرے۔ حکمران خواہ سوتے رہیں مسلم عوام او ر نوجوان زندہ وبیدار ہیں۔انہوں نے بھی کوئٹہ چرچ پر حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا ٹرائیکا ملوث ہے۔ یہ پاکستان کو غیر مستحکم اور عالمی سطح پر بدنام کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ یہاں اقلیتی برادری غیر محفوظ ہے۔ عالمی اور بیرونی سازش ہے کہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے کمزور کیا جائے۔ آج امت کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ القدس مارچ پاکستان کے حکمرانوں اور عالم اسلام کی قیادت کو آواز دے رہا ہے کہ مسلم عوام کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کریں۔ انہوں نے امیدظاہر کی کہ اسلامی فوجی اتحاد مسلمانوں کے ان اہم مسائل کے حل کے لیے واضح طور پر اعلان کرے گا اور مسلم عوام کا ترجمان بنے گا۔
پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام ایک بڑی تحفظ ناموس رسالتﷺ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے نہ ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے خیبر پختون خوا میں ایک سیکولر پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان کی اسلامی اور تہذیبی حیثیت خطرے میں ہے۔ لیکن اب ایم ایم اے حفاظت کرے گی۔ ایم ایم اے کی بحالی سے ان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 50 لاکھ افراد ایک میدان میں جمع کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ملکی ادارے ہمارا راستہ کیوں روک رہے ہیں۔ انہوں نے فاٹا کے مسئلے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کا سیدھا سادا مسئلہ مفاد پرستوں نے پیچیدہ بنا دیا۔ لیکن اب فوج نے بھی کہہ دیا جو فیصلہ ہو گا وہ قبائلی عوام کی مرضی سے ہو گا۔ اس لیے کسی کی دھمکی یا بلیک میلنگ نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اتنے سفاک واقعہ کی خاطرخواہ تحقیقات نہیں ہو سکیں۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے سازش کے تحت داڑھی اور پگڑی کو خطرہ، مدارس کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا اس وقت ہم نے اپنے اداروں کو تحفظ فراہم کیا۔ امریکی چاہتے تھے کہ نوجوان ریاست کے خلاف کھڑے ہوں۔ اور وہی ہو جیسے افغانستان، عراق اور شام میں ہوا؛ تاہم پاکستان میں علماء موجود تھے جنہوں نے اپنے نوجوانوں کو اس سازش سے بچاتے ہوئے سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر دے گا جبکہ اقوام متحدہ نے اسے اسرائیل کا حصہ ہی نہیں تسلیم کیا۔ عالمی ادارے کو نوٹس لینا چاہیے تاکہ امریکہ سفارتخانہ بیت المقدس منتقل نہ کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی توہین رسالت ؐایکٹ میں ترمیم کو روکا۔ اور ابھی بھی ہم نے دیگر جماعتوں کے ہمراہ یہ کوشش ناکام بنائی۔ قانون انتخابی اصلاحات سے متعلق تھا لیکن ختم نبوتﷺ سے متعلق مسئلے کو بھی چھیڑا گیا۔ یہ بات پارلیمانی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ گھنٹے کے اندر ہم نے اس مسئلے کو حل کیا اور 48 گھنٹے میں ترمیم واپس ہوئی۔ انہوں نے اس موقع پر کوئٹہ دھماکے کی بھر پور انداز میں مذمت کی۔
ان تینوں اجتماعات میں ہونے والے خطابات میں حکمرانوں پر واضح کیا گیا کہ مذہبی جماعتیں ناموس رسالتﷺ اور القدس کی آزادی کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ اور لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گی۔ وہاں پر اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مذہبی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کریں گی اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں اور ان کے خلاف جارحیت کو کسی بھی طور پر برداشت نہیں کیا جائے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک بھر کی مذہبی جماعتیں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اسی طرز عمل کو اجاگرکرنا چاہتی ہیں جس کا ذکر کتاب اللہ اور نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ہونے والے معاہدئہ میثاق مدینہ میں موجود ہے۔ بیت المقدس کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کی تاحال تگ ودو جاری ہے اور اب اسلام آباد میں بھی ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام القدس کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں ملی یکجہتی کونسل کے تمام نمایاں رہنما شرکت کریں گے۔ مستقبل میں دینی جماعتیں سیاسی اور مذہبی اعتبار سے کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں اور ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘آنے والے چند دن اس امر کو واضح کر دیں گے۔