تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-03-2013

سُکھ کی نیند

اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا: تم سب حاکم ہو، تم سب جواب دہ ہو۔ کلّکم راعٍ و کلّکم مسئول۔ غلامی کی صدیوں سے ہم نے یہ سیکھا کہ ذمّے داری دوسروں پر ڈال دو اور سُکھ کی نیند سو جائو۔ سُکھ کی نیند؟ ایک منظر سامنے ہے اور ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ روتی ہوئی ایک عورت‘ جس کا سراپا توڑ دینے والے غم میں ڈھلا ہے اور جس کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو ہیں۔ پھر ایک نورانی منظر یاد کی بے کراں وسعتوں سے اُبھرتا ہے اور دیکھنے والا خود کو اس خاتون ہی کی طرح لاچار اور بے بس پاتا ہے۔ دمِ رُخصت سرکارؐ کی آواز مدہم تھی، اتنی مدہم کہ اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو اپنے کان اُن کے ہونٹوں کے قریب لے جانا پڑے، عمر بھر جن سے نکلنے والے الفاظ موتیوں کی طرح گنے جا سکتے تھے۔ عالی مرتبت کو سیّدہؓ نے کہتے سنا: الصلوٰۃ الصلوٰۃ و ما ملکت ایمانکم۔۔۔۔ نماز، نماز اور وہ جو تمہارے رحم و کرم پر ہیں۔ پھر جبرئیل علیہ السلام ایک پیغام کے ساتھ عرشِ برّیں سے اُترے: دائمی عمر اور دنیا بھر کے خزانوں کی کنجیاں‘ فرمایا: بل رفیق الاعلیٰ‘ مگر میں تو اب اپنے اُس اعلیٰ رفیق کے پاس جا پہنچنے کا آرزومند ہوں۔ پیغام کی تکمیل ہو گئی تھی۔ حیرت اور رنج کے ساتھ میں سوچتا ہوں: لاہور کے جن مسلمانوں نے غیرمسلموں کے گھر جلا دیے، قیامت کے دن، کس منہ سے سرکارؐ کا وہ سامنا کریں گے؟ سب جانتے ہیں کہ اُسامہ بن زید، منہ بولے فرزند کے صاحب زاد ے سرکارؐ کو بہت عزیز تھے۔ اُن کے والد شہید ہوئے تو عالی جنابؐ اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ کم عمر اُسامہ اور اُس کے بہن بھائیوں کو لپٹا لیا اور آنکھوں سے آنسو گرتے رہے، آواز کے بغیر بہنے والے آنسو۔ ضبط ہر حال میں تھا، بے پناہ غم میں بھی۔ یہی اُسامہ تھے کہ زمین کو خیر باد کہنے سے پہلے، ایک لشکر کا سردار کیا اور کمسنی کے حوالے سے کچھ کو اعتراض ہوا تو فرمایا: اس کے باپ پر بھی تمہیں اعتراض تھا۔ خدا کی قسم محمدؐ تو آئے ہی اِس لیے تھے کہ گُم کردہ راہ کو راستہ دِکھائیں، بے بسوں اور دُکھیاروں کا سائبان بنیں۔ آنجناب کے نواسے حسین ابن علیؓ نے ایک بار کہا تھا: اُس شخص سے کبھی نہ لڑنا، اللہ کے سوا جس کا کوئی نہ ہو۔ معلوم اور معروف ہے کہ میدان جنگ میں اُسامہ نے ایک حریف کو قتل کر ڈالا، گردن کٹنے سے پہلے جس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ سرکارؐ نے طلب فرمایا، تو کہا: حضورؐ، کلمہ تو اُس نے موت کے خوف سے پڑھا تھا۔ رنج اور دُکھ سے بھری آواز سے کہا: کیا تُو نے اُس کے دل میں اُتر کر دیکھا تھا؟ بار بار یہی فرماتے رہے، پھر آسمان کی طرف نگاہ کی اور ارشاد فرمایا: اے اللہ، میں اُسامہ کے اِس فعل سے بَری ہوں۔ ایک بار پھر میں یہ پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ داتا گنج بخش سیّدنا علی بن عثمان ہجویری کے پڑوسی، روزِ جزا کس منہ سے سرکار کا سامنا کریں گے؟ ابھی ابھی ایک اعلیٰ سرکاری افسر سے بات ہوئی، جو ایک ذاتی دوست بھی ہیں۔ سینے میں دل رکھتے ہیں‘ کہا: کچھ معلوم نہیں، مگر وہی پرانا قصّہ لگتا ہے۔ دو آدمیوں میں جھگڑا ہو جائے، ایک مسلمان اور دوسرے غیرمسلم میں، تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتقام کی خُو میں وہ توہینِ رسالت کا الزام لگا دیتا ہے۔ ایک ایسا الزام جس کی آگ میں اس کا حریف جل کر راکھ ہو جائے۔ کیا فرماتے ہیں، علمائے دینِ متین بیچ اِس مسئلے کے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اِس قانون میں ترمیم کی جائے۔ کوئی شخص اگر رتی برابر ایمان بھی رکھتا ہے، رحمتہ اللعالمینؐ کی توہین گوارا کرنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر الزام بدنیتی سے لگایا جائے اور تباہی برپا ہو، جیسی کہ جوزف کالونی میں ہوئی‘ تو انصاف کا تقاضا کیا ہو گا؟ اللہ کی کتاب بالکل واضح ہے۔ الفتنہ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ پھر فتنہ پھیلانے والے کی سزا کیا ایک قاتل سے زیادہ نہ ہونی چاہیے۔۔۔ اچھا، فرض کر لیجیے کہ وہ آدمی مرتکب ہوا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہُوا ہو تو قرینہ کیا ہو گا؟۔۔۔ ظاہر ہے کہ عدالت میں سماعت ہو گی۔ گواہ پیش ہوں گے اور وکیل بھی۔ ان پر جرح کی جائے گی۔ جب تک پوری طرح یہ واضح نہ ہو جائے کہ واقعی وہ خطاکار ہے، سزا نہیں دی جا سکتی۔ اسی ایک آدمی کو، اس کے خاندان اور اعزّہ و اقربا کو ہرگز نہیں۔ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ کردار ایک شخصی چیز ہے،کسی نسلی، لسانی یا مذہبی گروہ کا نہیں، کردار اور مزاج ایک فرد کا ہوتا ہے۔ ایک خاندان میں سات آدمی ہوں تو ہر ایک کا ذوق اور ترجیحات مختلف۔ ایک ولی اور دوسرا شیطان ہو سکتا ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، پیغمبروں کی اولاد سرکشی کی مرتکب ہوئی۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام کا فرزند۔ قرآن کریم میں جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہے۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کس خدا اور کس پیغمبر پر ان کا ایمان ہے، پونے دو سو گھر جنہوں نے جلا دیے ۔۔۔ ایک ہزار انسانوں کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ کیا وہ سب کے سب قانون اور خدا کے مجرم نہیں اور کیا انہیں سزا نہ ملنی چاہیے؟ سزا اگر نہیں ملے گی تو ملک اور معاشرے کو امن کیسے نصیب ہو گا۔ حکمران ذمّے دار ہیں۔ سب سے زیادہ پنجاب کا شیر شاہ سوری، شہباز شریف، جو پولیس میں انصاف کی بنیاد پہ نہیں بلکہ ذاتی پسند اور ناپسند پہ تقرری فرماتا ہے۔ کرائے کے لکھنے والے ہر روز جس کے کارنامے لگاتے ہیں۔ جس کے بھائی قائدِ اعظم ثانی نے1989 ء میں تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے پولیس کی 25 ہزار نوکریاں رشوت کے طور پر بانٹ دی تھیں۔ (اور اب ان میں سے اکثر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں) کیا فقط حکمران ہی ذمّے دار ہیں۔ فساد کے منصوبے کی جب خبر آئی تو پولیس والوں کو حفظِ ماتقدم سے کس نے روکا تھا؟ تھانے دار نے کیا ایس ایس پی کو مطلع کیا اور ایس ایس پی نے آئی جی کو؟ اگر نہیں تو کیوں؟۔۔۔کیا علمائے کرام ذمّے دار نہیں، جو دن رات مسلمانوں کی تباہی کا سبب دوسروں کو بتاتے ہیں۔ اللہ کے اِس قانون سے وہ باخبر ہیں کہ کسی بھی شخص یا گروہ کی آبادی و بربادی کا سبب ہمیشہ وہ خود ہوا کرتا ہے۔ پھر وہ جو انتقام پر اُکساتے اور نفرتوں کو ہوا دیا کرتے ہیں؟ میرے دوست نے کہا اور میں ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ اخبار نویس اپنی قربانیوں کا ذکر بہت کرتے ہیں مگر قربانی کبھی پیش بھی کریں۔ ہجوم میں پھنس کر کسی کا کیمرہ ٹُوٹ جائے تو یہ ایثارنہیں، حادثہ ہے۔ کیا کوئی سفّاک مجرموں کی تصاویر لے کر پولیس کے پاس پہنچا؟ چہرے پہچانے جا سکتے ہیں اور آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں کہ فلم کے فیتے پر محفوظ ہیں، کیا عدالت انہیں سزا دے گی؟۔۔۔ کم ازکم اِس عاجز کو تو یقین نہیں۔ گمنام ٹیلی فون سن کر جج حضرات مقدمات سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ اس سپاہی کے کیا کہنے جو اس جواز پر میدانِ جنگ میں جانے سے انکار کر دے کہ اس کی جان کو خطرہ ہو گا۔ ہم سب ذمّے دار ہیں، بخدا ہم سب ذمّے دار ہیں۔ شریف خاندان، ہزاروں پولیس والے، جس کی حفاظت پر متعین ہیں۔ آصف علی زرداری، جس کے صوبے میں پولیس کی تقریباً ہر ملازمت فروخت کی جاتی ہے۔ عمران خان جو علیم خانوں، رشید بھٹیوں اور صداقت عباسیوں کو گوارا کرتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا: تم سب حاکم ہو، تم سب جواب دہ ہو۔ کلّکم راعٍ و کلّکم مسئول۔ غلامی کی صدیوں سے ہم نے یہ سیکھا کہ ذمّے داری دوسروں پر ڈال دو اور سُکھ کی نیند سو جائو۔ سُکھ کی نیند؟ پسِ تحریر: انسانی اندازے درست ہو سکتے ہیں اور نادرست بھی۔ یہ اندازہ درست نکلا کہ تحریک انصاف اُٹھ کھڑی ہو گی۔ امریکہ، عرب ممالک اور مقامی مالدار طبقات کا بندوبست اپنی جگہ، مگر جیتے گا وہ جس کی ظفرمندی اللہ کو پسند ہو گی۔ وہی جانتا ہے کہ امتحان ابھی باقی ہے یا نجات کا دن آ پہنچا۔ حماقتیں اپنی جگہ مگر کپتان ہی ان میں سب سے بہتر ہے، باقی تو نرے سوداگر ہیں، سوداگر۔ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved