تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-12-2017

عزت مآب

(آخری قسط)
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان ‘ جسٹس ثاقب نثار کراچی میں عام انسانوں جیسا پانی پینے کی خواہش کا اظہار کر کے بھی‘ایسا نہ کرسکے۔ سارے افسر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ بہر حال کراچی کی خبر لاہور پہنچ گئی۔ لاہور آکر کچہری لگائی تو وہاں انہوں نے گدلے پانی کا موضوع پھر چھیڑ دیا اور بڑے رنج سے فرمایا کہ میں کراچی کا گدلا پانی نہیں پی سکا۔ مگر امید ہے لاہور میں عوامی پانی پینے کی لذت عام میسر آیا کرے گی۔ وہ اپنے دفتر سے نکل کر پانی کے پائپ کی طرف چلے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ کیا لاہور کے عوام بھی کراچی کے شہریوں جیسا پانی پیتے ہیں؟چیف جسٹس صاحب کو کیا خبر؟کہ وہ بڑے شہروں میں جو پانی پینا چاہتے ہیں‘ وہ پاکستان کا بہترین پانی ہوتا ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ چیف جسٹس صاحب نے عوامی پانی پیا‘ یا وی آئی پی؟ جو خبر میں نے سنی ہے اس میں تو یہی بتایا گیا کہ انہوں نے نل سے نکالا ہوا پانی پیا۔ لیکن یہ بات نہیں مانی جا سکتی۔ نلکا بھی نہیں مانتا۔ 
ہمارے حکمران‘ تاجر وں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے گھروں کے سوا باقی پورے شہر لاہور میں‘ واسا کا پانی دستیاب ہے۔ایک زمانہ تھا‘ واسا کے پائپوں سے صاف ستھرا پانی ملا کرتا تھا۔ مگر جب سے لاہور ‘تاجر شاہی کے کنٹرول میں آیا ہے‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یہاں کی آبادی کو مٹی سے آراستہ پینے کا پانی نصیب ہوتا ہے۔ پہلے ٹیوب ویل صاف ستھرا پانی نکلا کرتا تھا۔ جب سے لاہور ‘تاجروں کے زیر اثر آیا ہے ہمیں جو اجلاپانی آسانی سے دستیاب ہوا کرتا تھا‘ وہ ہاتھوں ‘ نظروں اور ہونٹوں کے لئے‘ گہری نیند کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔اب شہر میں اور شہر سے دور‘ اجلا یا منرل پانی ‘ بڑی بوتلوں میں بند‘ بھاری رقم کے عوض دستیاب ہے۔جو بوتل بند پانی امرا کے علاقوںمیں دستیاب ہے ‘ وہ خالی جیب والوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں پانی کی محرومی خلقت کو‘ ہینڈ پمپ کی طرف لے گئی مگر پھر جب موازنہ کر کے دیکھاتو نہر اور نلکے کے پانیوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا‘ تو صاحب ذوق حضرات نے نہر کے پانی کو ترجیح دی۔ کم از کم پانی کے معاملے میں لاہور کی بھینسوں اور انسانوں کا ذوق قدرے بہتر ہو گیا ہے۔ کبھی بھینس ‘ انسانوں سے اچھا پانی پی لیتی ہے۔ کبھی انسان‘ بھینس کے مقابلے میں بہتر پانی پی لیتے ہیں۔کچھ صاحب ذوق غریبوں نے نہر کا پانی ابال کر پینا شرو ع کیا تو جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ اس پانی کو پینے سے بہتر ہے کہ تہہ میں رہ جانے والی مٹی کھا لی جائے۔بعض خوش ذوق لوگ تو یہی مٹی‘ ہانڈ ی میں رکھ کے اسے تڑکا لگاتے ہیں۔ ہری مرچ اور ادرک کاٹ کے ڈال دیتے ہیں اور اسے تناول کرنے والے مہمان ‘ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ ''یہ لذیذ کھانا آپ نے کیسے تیار کیا؟‘‘
پانی کا پلو چھوڑ کے‘ اب شہر کے مشروبات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔وہ مشروبات تو خواب بن کے رہ گئے‘ جو تھوڑی بہت جستجو کر کے مل جایا کرتے تھے۔ پھر وہ بلیک میں ملنے لگے۔ اور اب وہ پانی اشرافیہ کے مقابلے میں‘ نتھو مسیح کو بہتر مل جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس پرمٹ ہوتا ہے۔ وہ اچھے ہوٹلوں میں جا کر راولپنڈی کا تیار شدہ مشروب‘ اس یقین کے ساتھ پیتا ہے کہ اسے پینے کے بعد بھی‘ وہ زندہ اٹھ جائے گا۔ لیکن بلیک میں ولایتی مشروب خریدکر لائوتو کم از کم یہ انسانوں کے کام کا نہیں ہوتا۔ وہی حساب ہے جو احتیاط سے صاف ستھرا اور عمدہ پانی پیتے پیتے‘ جب انسان بد مزہ ہو جائے تو سیدھا نہر کا رخ کرتا ہے اور جو بھینسیں نہر کے اندر منہ ڈال کے‘ پانی پی رہی ہوتی ہیں‘اس کے پہلو بہ پہلو انسان بھی ‘ وہی پانی پینے لگتے ہیں۔کبھی کبھی بھینس کو غصہ آتا ہے تو وہ زور سے پانی میں سینگ مار کے‘ ساتھ والے انسان کے کپڑے گیلے کر دیتی ہے اور اگرانسان بچ کر نکل آئے تو ہمیشہ اس کے منہ کی طرف نکلنا چاہئے ورنہ الٹی طرف چل پڑے تو وہ دم میں پانی بھر کے بندے پر ایسے چھڑکتی ہے کہ بندہ اس تجربے سے توبہ کر کے شہر میں آسانی سے ملنے والاوہ '' منرل واٹر‘‘ پینے لگتا ہے‘ جو نہر کے پانی سے ذرا سا زیادہ گدلا ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے شہریوں کے لئے لامحدود آسانیاں فراہم کی ہیں۔ نئی نئی اور شفاف سڑکیں ‘جن کے کناروں پر کھڑے پانی میں ‘بھینسیں اور کتے غسل کر رہے ہوتے ہیں۔ سبزیاں‘ ملوں کے کیمیاوی پانیوں میں اگائی جاتی ہیں۔نہرکے پانی میں جو خواتین کپڑے دھونے جاتی ہیں‘ ان کے مردوں کے سفید کپڑوں کا رنگ ‘ بوسکی کے مقابلے پر آچکا ہوتا ہے۔جس ملک کے چیف جسٹس صاحب ‘گدلا پانی بھی فرمائشیں کر کے پیتے ہوں‘ وہاں عام لوگوں کی حالت کیا ہو گی؟ جج صاحبان کا حال بھی ہم سے بہتر نہیں۔ وہ سارا دن مقدمے سنتے ہیں اور ایک بھی خالص ملزم نہیں ملتا۔کسانوں کے دماغ بھی بگڑ گئے ہیں۔ وہ اپنے کھیت میں گنا لگاتے ہیں۔ دن رات کر کے اسے پروان چڑھاتے ہیں۔ ٹریکٹروں پر لادتے ہیں اور پھر شوگر مل کے سامنے جا کر آگ لگا دیتے ہیں۔اس کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ صرف مل مالکان فائدے میں رہتے ہیں۔ اور جہاں تک کسان کی چالاکی ہے‘اس نے کپاس چھوڑ کر‘ گنا لگانا شروع کر دیا ہے۔ پہلے اس نے کبھی کپاس کو آگ نہیں لگائی تھی۔ اب گنے کو آگ لگا کے سوچتا ہے کہ اگلی فصل کوئی اور لگائوں گا۔ (ختم)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved