تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-12-2017

گنا کاشتکاروں کے مصائب اور کرسمس مشاعرہ

کل اپنے بزرگ عزیز اور گہرے دوست میاں محمد زمان کے انتقال پر تعزیت کیلئے اوکاڑہ جانا ہوا۔ آفتاب اقبال بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں واقع پتوکی شوگر ملز کے باہر قطاروں میں لاتعداد ٹرالیاں گنوں سے بھری ملی ہیں۔ باریابی کیلئے جانے کب سے کھڑی تھیں اوریہ معمول کی بات ہے۔ کبھی مل کے باہر داخلے کی اجازت کے لئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے اور کبھی معاوضے کی وصولی کے لئے اور کبھی کرشنگ وقت پر شروع نہ ہونے سے۔ ظلم در ظلم یہ بھی ہے کہ گنے کا طے شدہ ریٹ 150 روپے من ہے لیکن ادائیگی 120 روپے کے حساب سے کی جاتی ہے۔ مل تک بارپانے کیلئے مڈل مین یعنی آڑھتی کو پچیس فیصد الگ دینا پڑتا ہے چنانچہ مذکورہ مسائل کے حل کیلئے انہیں ریلیاں نکالنا پڑتی ہیں جن پر اکثر اوقات کان نہیں دھرا جاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ پنجاب میں اکثرو بیشتر شوگر ملیں شریف برادران کی ہیں جبکہ سندھ میں کم و بیش ساری ملیں زرداری صاحب کو زیب دے رہی ہیں اور گنا کاشت کرنے والے کاشتکاروں کے حالات دونوں جگہ ایک جیسے ہیں اور یہ دونوں حکمران عوام اور کسان دوست ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں!
واپسی پر راستے ہی میں کرسچین سکول میں برپا ہونے والا کرسمس مشاعرہ بھی پڑتا تھا جو ڈاکٹر لیاقت اور شاعر اعجاز احمد نازؔ ہر سال کرواتے ہیں۔ اسے بھی بھگتایا۔ چیدہ چیدہ شرکاء میں مہمان خصوصی نذیر قیصر اور سٹیج پر تشریف فرما معززین و حضرات میں ڈاکٹر جواز جعفری‘ علی اصغر عباس اور عمرانہ مشتاق شامل تھیں۔ سب نے اپنا اپنا رنگ خوب جمایا۔ میں داد پانے والے اشعار نوٹ تو نہیں کر سکا تاہم نذیر قیصر اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے پاس جو لکھا ہوا کلام تھا وہ میں نے درخواست کر کے ان سے حاصل کر لیا۔ سو فی الحال وہی پیش کر رہا ہوں۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ نذیر قیصر شاعری نہیں‘ جادوگری کرتا ہے۔ جس کا اندازہ آپ کو ان کے اشعار سے ہو جائے گا:
آدمی آسماں تھا‘ دُھول ہوا
پھر خدا بھی بہت ملول ہوا
حرف سے کونپلیں نکل آئیں
میرا لکھا پڑا قبول ہوا
ٹھنڈی میٹھی ہوائیں آنے لگیں
پہلی بارش کا خط وصول ہوا
آیتِ صبح و شام کا مجھ پر
شاعری کی طرح نزول ہوا
............
مٹی کی تختی پر حرف بنانا ہے
پھر اس حرف کو چھو کر پھول بنانا ہے
آسمان تک پہلے پتنگ اڑانی ہے
ڈور لپیٹ کے پھر اسے واپس لانا ہے
اس کی آنکھیں میری ماں سے ملتی ہیں
پہلی بار اسے میں نے پہچانا ہے
یونہی نہیں کھلتا یہ طلسمی دروازہ
پہلے تم نے اپنا نام بتانا ہے
اس بستی میں کوئی نہیں سوتا قیصرؔ
ہم نے یہاں خوابوں کا باغ لگانا ہے
شاہدہ دلاور شاہ نے بھی ہم سب کو حیران کر دیا۔ ذرا دیکھئے:
پھول شاخوں پر نہیں‘ گلدان کمرے میں نہیں
اس کی نسبت سے جڑا سامان کمرے میں نہیں
آسمانوں کی طرف شاید سفر آغاز ہے
جسم بستر پر پڑا ہے‘ جان کمرے میں نہیں
میں صحیفوں کو سنبھالوں گی تو آخر کس طرح
رحل ہے ٹوٹی ہوئی جزدان کمرے میں نہیں
خشت کی دیوار چاروں اور چنوا دی گئی
کھڑکیاں‘ دروازے‘ روشندان کمرے میں نہیں
سبز پرچم سر پہ اپنے باندھ کر سوتے ہو تم
پھر بھی کہتے ہو کہ پاکستان کمرے میں نہیں
وہ کہ جس کے حسن کے چرچے بہت ہیں شہر میں
اُس کے ملنے کا کوئی امکان کمرے میں نہیں
پھل جھڑی یادوں کی خاکستر نہ کردے شاہدہؔ
میں تو کمرے میں ہوں‘ میرا دھیان کمرے میں نہیں
............
چھت سر پہ نہیں اور نہ دیوار سلامت
پھر بھی یہ یقیں ہے کہ ہے گھر بار سلامت
ہر بار نشانے پہ ہمیں رکھتا ہے کوئی
گھر لوٹ کے آ جاتے ہیں ہر بار سلامت
اس سر کے نگوں ہونے سے کٹ جانا ہی بہتر
سر اپنا سلامت ہے تو دستار سلامت
جتنے بھی اڑے لوٹ کے آئے نہ پرندے
ہیں پیڑ پہ بیٹھے ہوئے دو چار سلامت
دن رات دعا کرتی ہوں میں شاہدہؔ دل میں
سب پھول کھلیں اور رہے مہکار سلامت
آج کا مطلع
دل کی تختی سے مٹایا ہوا تُو
یاد آتا ہے بھلایا ہوا تُو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved