تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     21-12-2017

پاک امریکہ تعلقات نازک موڑ پر

تعلقات اونچ نیچ کے مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ دو مرتبہ امریکہ کو ہماری مدد کی افغانستان میں ضرورت پڑی تو دوستی ہو گئی۔ 1990ء کی دہائی میں جب سوویت یونین کی افواج افغانستان سے جا چکی تھیں تو پاکستان کئی امریکی پابندیوں کا شکار ہوا، ان میں سب سے نمایاں پریسلر ترمیم تھی جس کی رو سے امریکی صدر کو امداد دینے سے پہلے سرٹیفکیٹ دینا ہوتا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے۔
صدر ٹرمپ کی اگست والی تقریر دراصل پاکستان کے لیے وارننگ تھی کہ مغربی سرحد کے آس پاس پاکستان میں افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، پاکستان ان کا خاتمہ کرے ورنہ نتائج کے لیے تیار رہے۔ امریکی صدر کا یہ دعویٰ کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے حقائق کے برعکس تھا۔ پاکستان نے ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا خاصی حد تک صفایا کر دیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد یا تو ہتھیار ڈال چکے ہیں یا افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج پندرہ سال میں افغان طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکیں۔ آج افغانستان کا تقریباً پچاس فیصد علاقہ طالبان کے زیرِ اثر ہے۔
پچھلے دنوں امریکہ سے کئی اہم شخصیات نے پاکستان کے پے در پے دورے کئے۔ ڈومور کا مطالبہ بھی ہوتا رہا، کچھ بہت ہی دلچسپ بیان بھی سننے میں آئے۔ مثلاً امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ اب بھی پاکستان ہمارا اہم پارٹنر ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں پاکستانی لیڈرشپ سے بات چیت کو انجوائے نہیں کرتا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں بہت سے مسائل ہیں اور اب پاکستان امریکہ کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنے کو تیار نہیں۔ ساتھ ہی امریکہ نے یہ بھی کہا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز پاکستانی علاقے کے کسی حصے پر قبضہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ بات یا ڈراوا بھی عجیب ہے۔ اب ایک لمحے کو فرض کریں کہ حقانی نیٹ ورک یہاں موجود ہے تو کیا حقانی نیٹ ورک پاکستان کے چند کلومیٹر علاقے پر بھی قبضہ کرنا چاہے گا؟ ایسا تو انہوں نے بدترین حالات میں بھی نہیں کیا۔ دوسری جانب پاکستانی طالبان کی تنظیم منتشر ہو چکی ہے اور طاقت کمزور تر‘ یہ امریکی بیان دراصل پاکستان کے لیے ایک اور وارننگ تھی کہ اپنا قبلہ درست کر لو ورنہ...!
امریکی صدر ٹرمپ بہت سیماب صفت انسان ہیں۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ، اُن کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کب کیا کر دیں۔ دوسری جانب امریکہ کے وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس بھی اپنی سخت گیری کے لیے مشہور ہیں، انہیں ان کے کولیگ 'میڈ ڈاگ میٹس‘ کا لقب دے چکے ہیں اور یہ بات میں محض اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ پوری تحقیق کے بعد لکھ رہا ہوں۔ امریکہ کے دفاعی بجٹ میں خاصا اضافہ ہوا ہے جبکہ وزارت خارجہ کا بجٹ کم ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ عسکری قوت سفارت کاری سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
دوسری جانب امریکہ میں انڈین لابی بہت مؤثر ہو گئی ہے اور اس کے اسرائیلی لابی سے بھی دوستانہ تعلقات ہیں۔ افغانستان میں انڈیا کا بڑھتا ہوا کردار اسی دوستی اور تعاون کا شاخسانہ ہے۔ اسرائیل کی شدید خواہش ہے کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل نہ ہو سکے۔ اسرائیل یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام مزید ترقی نہ کر سکے۔ اسی وجہ سے اسرائیل امریکہ سے درپردہ سفارش کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں انڈیا کو اہم رول دیا جائے۔ انڈیا اور امریکہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ہمارا سی پیک پروگرام دراصل سکیورٹی نوعیت کا ہے؛ لہٰذا چین اور پاکستان دونوں کے گرد دائرہ تنگ کرنا ضروری ہے۔ اب اگر امریکہ افغانستان میں اپنے ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوس بھیجے گا تو وہ دور سے پہنچانے جائیں گے جبکہ انڈیا کے لیے یہ کام آسان تر ہے۔
تو کیا پاکستان امریکہ سے کُٹی کر لے‘ اس سے بولنا چھوڑ دے؟ میں قطعاً اس آپشن کے حق میں نہیں ہوں۔ ٹھیک ہے کہ ہمارے چین کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں لیکن اپنے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنا بھی دانشمندانہ فعل نہیں ہو گا۔ امریکہ اب بھی ہماری برآمدات کے لیے سب سے اہم ملک ہے۔ اقوام متحدہ‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں امریکی اثر و رسوخ سب کو معلوم ہے۔ یورپ اور نیٹو ممالک کے ساتھ امریکی تعاون دونوں کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ امریکی تعلیمی اداروں اور ریسرچ کا معیار اب بھی ٹاپ پر ہے۔ امریکہ میں پاکستان اوریجن کے لاکھوں لوگ آباد ہیں جو ہماری طاقت بن سکتے ہیں۔ یہ جو آپ اور ہم روزانہ گوگل سے انواع و اقسام کی معلومات چند سیکنڈز میں حاصل کر لیتے ہیں‘ اس کا ہیڈ کوارٹر بھی امریکہ میں ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ پاکستان کے قطعاً حق میں نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے پاس شیل گیس کے ذخائر موجود ہیں مگر پتھروں سے گیس نکالنے کی ٹیکنالوجی صرف امریکہ کے پاس ہے۔ دوسرے ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ عالمی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے اور صدر ٹرمپ بھی وائٹ ہائوس کے دائمی باسی نہیں ہوں گے۔
امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت تین زاویوں سے ہے۔ پاکستان اکیس کروڑ آبادی والا درمیانے سائز کا ملک ہے‘ جس کے پاس ایٹمی طاقت بھی ہے اور اس کا محل وقوع بھی اہم ہے۔ دس ہزار امریکی افواج کے لئے افغانستان میں غذائی و دیگر مواد اور اسلحہ کی سپلائی کے لیے پاکستان ہی مختصر ترین راستہ ہے۔ افغانستان میں امن کی تلاش میں پاکستان پہلے بھی تعاون کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا بشرطیکہ امریکہ اسے بہت زیادہ زچ نہ کرے۔
ایک چیز جو پاکستان کو امریکہ اور انڈیا کو بار بار واضح کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ سی پیک صرف اور صرف اقتصادی منصوبہ ہے۔ ہاں البتہ! اگر افغانستان کے راستے‘ انڈیا کی مداخلت پاکستان میں جاری رہتی ہے تو یہ پروجیکٹ سکیورٹی کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور چین دونوں نہیں چاہیں گے کہ ان کے خالصتاً اقتصادی تعاون کے لیے تیار کئے گئے انفراسٹرکچر کو کوئی بھی تیسرا ملک میلی نظر سے دیکھے۔
اور لیجئے! امریکہ کی جانب سے ایک مزید وارننگ آ گئی ہے۔ وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کردہ فارن پالیسی بیان میں کہا گیا ہے پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں محتاط رہے۔ دراصل امریکہ انڈیا کی ترجمانی کر رہا ہے‘ جسے پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بہت برے لگتے ہیں، جن کی وجہ سے انڈیا کا کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن بیکار ہو گیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع پنٹاگون نے اپنی کانگرس کے لیے ششماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گرد موجود ہیں اور اگر پاکستان نے ان کے خلاف ایکشن نہ لیا تو یکطرفہ کارروائی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں لیکن امریکی وارننگ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی غلط ہو گا۔ اب ہمارے ہاں کسی جیش کسی لشکر اور کسی نیٹ ورک کی گنجائش نہیں۔ حکومت کو بیرون ملک پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے انفارمیشن سٹرٹیجی بنانا ہو گی۔ مگر ہماری انفارمیشن وزیر تو نوازشریف کے دفاع میں مصروف ہیں۔ اب اندرونی جنگوں کو ختم کیجئے۔ بیرونی خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ وزارتوں کی بجائے وطن کی فکر کریں۔ ورنہ ...ع
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved