عزت مآب میاں شہباز شریف‘ مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ‘ وزیراعظم نامزد ہو چکے ہیں۔ خبر کے مطابق ان کے منصب کا فیصلہ خود‘ نواز شریف نے کیا ہے۔ ایک تقریب میں صحافی نے شہباز شریف سے پوچھا کہ ''کیا آپ وزارتِ عظمیٰ کے لئے مسلم لیگ (ن ) کے اگلے اُمیدوار ہیں؟‘‘ جس پر وزیراعلیٰ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ''اللہ آپ کی زبان مبارک کرے‘‘۔ شہباز شریف کئی اعتبار سے انتہائی خوش نصیب ہیں۔ اول یہ کہ وہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اگر بڑے بھائی ہوتے تو ابھی تک لوہے کا کاروبار ہی کر رہے ہوتے۔ یہ نواز شریف کی برکت تھی کہ وہ فوراً ہی وزیراعلیٰ بن گئے اور ایسے بنے کہ ان کا مجموعی عرصہ اقتدار‘ نواز شریف سے زیادہ ہے۔ ابھی نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے اتفاق سے سارے انتخابات میں‘ درجہ بدرجہ حصہ لیا اور خوب عزت کمائی۔ پاکستان میں جو شخص‘ جتنی زیادہ دولت کماتا ہے‘ اسی نسبت سے اپنی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ خدا نے میاں صاحب کو اتنی دولت سے نواز دیا ہے کہ تین مرتبہ ‘مزید وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر نواز شریف صاحب شرمیلے انسان ہیں۔ وہ اپنی موجودہ دولت کی مالیت بتانے سے ابھی تک گریزاں ہیں۔ ذہن میں یقینا یہی سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی حقیر سی رقم‘ جو اب تک میں جمع کر پایا ہوں‘ اسے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اگر وہ‘ وزارتِ عظمیٰ کی مزید تین مدتیں کھڑکا لیں تو پھر ان کا مقابلہ دنیا کے امیر ترین حکمرانوں سے ہو سکتا ہے۔
اب بھی بہت وقت پڑا ہے۔ پتا نہیں اقتدار کے مزید کتنے زمانے آئیں گے؟ انہوں نے اپنے بردارِ خورد بلکہ ''خورد برد‘‘ کوخانہ پری کے لئے‘ کریز پر بھیجا ہے‘ جیسے بچپن میں ہم اچانک‘ اپنے کسی قریبی دوست کو بلا کر کہتے کہ میں ''قدرت کی کال‘‘ سے ابھی فارغ ہو کر آتا ہوں۔ تم ٹک ٹک کرتے رہنا، وکٹ نہ گرنے پائے۔ میاں صاحب بھی کم و بیش اسی طرح ''قدرت کی کال‘‘ پر کچھ دیر کے لئے گھر جا رہے ہیں‘ جیسے ہی ان کا متبادل کھلاڑی آئوٹ ہوا‘ وہ پاکستان کے کسی بھی پنجاب ہائوس میں پہنچ کر‘ ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر‘ شہبازشریف کو طلب کریں گے اور بتائیں گے کہ ''میں کریز پر واپس آ چکا ہوں۔ تمہاری بے وقوفی سے پاکستان کے متعدد صوبے‘ اپنی خود مختاری سنبھال کے بیٹھ چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ تم مزید صوبوں کو خود مختار کر دو‘ اپنا کوئی ''نکا جیہا‘‘ صوبہ لے کر چین سے یا چین میںبیٹھ جائو۔ پورا پاکستان اب میں سنبھالوں گا۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارا کنبہ اب کافی وسیع ہو چکا ہے۔ جتنی بھی صوبائی حکومتیں بنیں گی‘ ہمارے خاندان کے افراد کم ہی پڑیں گے‘‘۔
ظاہر ہے کہ وزراتِ عظمیٰ کی کرسی تو‘ نواز شریف کے سائز کے مطابق بنوائی گئی ہے۔ اسی وجہ سے نواز شریف نہ تو اپنا وزن کم کرتے ہیں اور نہ بڑھنے دیتے ہیں۔ خود کو بڑی احتیاط سے کرسی کے سائز کے مطابق رکھتے ہیں تاکہ موقع آئے تو دو چار فٹ کی دوری سے ہی چھلانگ لگا کر‘ کرسی پر تشریف فرما ہو جائیں۔ نئی تبدیلی میں مریم نواز‘ پنجاب کی وزیراعلیٰ بن جائیں گی۔ شریفوں کے پورے خاندان میں مریم بی بی‘ پہلی عالمگیر سیاسی خاتون ہیں جن کا
تعارف‘ ایک نامور امریکی اخبار میں شائع ہوا۔ وہ دنیا کی ایک درجن ممتاز خواتین میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان کا نمبر البتہ صحیح جگہ پر نہیں رکھا گیا۔ لیکن جب میاں صاحب‘ واپس اپنی کرسی پر براجما ن ہو چکے ہوں گے تو وہ ایک ہی چٹکی میں‘ مریم بی بی کو دنیا کی بارہ خواتین میں صف اول پر لے آئیں گی۔ اس اعزاز کے ساتھ‘ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ان کے ہاتھ لگ جائے گی۔ حمزہ شہباز شریف کو صوبہ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ یا گورنر ی دی جا سکتی ہے۔ حسن نواز‘ کے پی اور حسین نواز بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنا دئیے جائیں گے۔ رہ گئے شہباز شریف تو انہیں وزارتِ اعلیٰ کا طویل تجربہ حاصل ہے۔ اگر انہیں گلگت بلتستان کی وزارتِ اعلیٰ دے دی جائے تو وہ اپنی مہارت اور تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ایک عالمی معیار کی کرکٹ ٹیم تیار کریں گے۔ اس کے بعد اپنے بڑے بھائی کو‘ جو اس کھیل کے بے حد ماہر اور شوقین ہیں‘ دعوت دے کر ان کی ٹیم گلگت بلتستان بلائیں گے اور میاں صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ جہاز پر وہاں پہنچیں گے۔ شہباز شریف زبردست تعمیراتی مزاج کے مالک ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو گلگت بلتستان میں نقل و حمل کی بہترین سہولتیں فراہم کر دیں گے۔ چار کلومیٹر کا رن وے بنا کر وہاں ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ تیار کر دیں گے اور اسی ایئرپورٹ سے جیٹ طیارے میں بیٹھ کر اسلام آباد واپس آ جائیں گے۔ میاں صاحب‘ اسحاق ڈار کی صحت یابی تک لندن میں قیام کر لیں گے۔ شریفوں کے خاندان کے لئے یوں تو بہت سی گنجائشیں پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن خاندان شریفیہ کی نفری اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ تمام بڑی اسامیاں‘ خاندان کے تمام بچوں کے لئے پوری نہیں ہو سکیں گی۔ تب تک مریم بی بی پنجاب میں سے پانچ سات صوبے نکال لیں گی اور اس طرح خاندان شریفیہ کے سارے افراد برسر روزگار یا برسر اقتدار ہو جائیں گے۔