تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-12-2017

ہوشیار باش!

جب اس طرح کے لیڈر ہوں، ہمیں جو ملے ہیں تو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ پوری قوم کو اور ہمہ وقت!
سیاستدانوں کے باب میں ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے: ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔ خاص طور پہ وہ، اقتدار ہی جن کی ترجیح ہو اور اقتدار کا مقصد زریابی و من مانی۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے بھائی کو وزیرِ اعظم نامزد کرنے کا جو اعلان کیا ہے، آخری فیصلہ نہیں، وہ ایک سیاسی تدبیر ہے۔ خود نااہل، صاحبزادی کے نااہل ہونے کا امکان اور پارٹی میں مزاحمت۔ فی الحال اور کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ کوشش اب بھی یہی ہو گی کہ کسی طرح عدلیہ کو بے دست و پا کرکے خود نااہلی سے نجات پا لیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف برتے گئے حربوں کی طرح، اب بھی ہر ممکن جوڑ توڑ کیا جائے گا۔ عوامی تحریک اس کی ظاہری سطح ہے۔ اندر خانہ بہت کچھ برپا ہے۔ کارندوں کے ذریعے فضا ہموار کرنے کی کوشش۔ اطلاع یہ ہے کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کے دورۂ پاکستان میں بھی اسی پر مشورہ ہوا۔ ضرورت پڑی تو پیسہ پانی کی طرح بہایا جائے گا۔ نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو یا محمد خان جونیجو نہیں۔ اور طرح سے وہ بروئے کار آتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں افراد کے مفادات ان سے وابستہ ہیں۔ نظامِ زر و ظلم کی چھوٹی بڑی جونکیں، جو خلقِ خدا کے خون پر پلتی ہیں۔ اسی لیے عدالت نے ''مافیا‘‘ اور ''گاڈ فادر‘‘ کہا۔ حدیبیہ کیس کی سماعت کے دوران ایک معزز جج نے کہا: پاناما کیس یعنی جسٹس کھوسہ کے ریمارکس کا حوالہ بھی دیا گیا تو اسے توہینِ عدالت قرار دیا جائے گا۔ 
ججوں کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں مگر سپریم کورٹ کے ایک تاریخی فیصلے کا حوالہ بھی اگر ناگوار ہو تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں؟ میرؔ صاحب کے شعر پہ تھوڑا سا زیادہ غور کیجیے۔
حیرتِ گل سے آب جو ٹھٹکا 
بہے بہتیرا ہی بہا بھی جائے
عمران خان دلاور اور مستقل مزاج ہیں‘ مگر وہ شاطر ہے اور نہ شاطروں کو سمجھنے والا۔ پہلے سے بہتر مشورہ اسے میسر ہے لیکن اب بھی نواز شریف اینڈ کمپنی کی چالوں کو وہ سمجھ نہیں رہا۔ کب سے انسانوںکی خرید و فروخت کا کاروبار وہ کرتے آئے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری کے لیے سیاست جز وقتی کھیل ہے اور وہ بھی واویلا۔ ان سب کو چوکس رہنا ہو گا، جو ملک کو دلدل سے نکالنے کے آرزومند ہیں۔ میڈیا گروپ ہیں، جو نون لیگ کی جیب میں پڑے ہیں۔ سینکڑوں اخبار نویس ہیں‘ دن رات جو کارِ خیر میں لگے رہتے ہیں۔ 
پینتیس برس ہوتے ہیں، ایک وفاقی سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ فرض شناس اور مرنجاں مرنج۔ ایرانی انقلاب کا غلغلہ تھا۔ علی شریعتی کی ولولہ انگیز تحریریں ذوق و شوق سے پڑھی جاتیں۔ شریعتی کا ایک اقتباس سنایا۔ بولے: زندگی ایک ڈھب پہ بیت رہی ہے۔ جھیل میں پتھر نہ پھینکئے۔ 
روسی شاعر نے کہا تھا ''شام ڈھلے جھیلوں پہ چلا جاتا ہوں۔ کنکر پھینکتا اور لہروں میں تمہارا نام سنتا ہوں‘‘ اپنے آپ میں مگن، پتھر نہیں، پانی میں وہ کنکر پھینکتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ آدمی انقلاب سے ڈرتا ہے۔ نامعلوم کے اندیشے اس کے شعور اور لاشعور میں کلبلاتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات سے اب تک مسلم برصغیر اندیشوں میں جی رہا ہے۔ بیچ میں ایک بندۂ خدا جناح اٹھے تھے۔ پھر سے قوم تاریخ کے چوراہے پر سو گئی۔ فکری ژولیدگی اس کے سوا۔ لبرل، سیکولر اور ملّا۔ لبرل جو لبرل نہیں، سیکولر جو سیکولر نہیں، اکثر مغرب کا کارندہ۔ ملّا جو دراصل ملّا بھی نہیں۔ آموختہ دہراتا ہے۔ روحانی بالیدگی نہیں، دنیا کی چمک دمک اس کی غایت ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن، سمیع الحق مدظلہ العالی، علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری ۔ رہے سینیٹر سراج الحق تو خود بھی انہیںمعلوم نہیں کہ ان کی منزل کیا ہے۔ 
کاروباری طبقہ موثر ہے۔ 60 لاکھ دکاندار حالات کو جوں کا توں رکھنے کے تمنائی ہیں۔ پھر ان کے شاطر لیڈر، ایوان ہائے صنعت و تجارت۔ کھرب پتی صنعت کار، دونوں ہاتھوں سے جو دولت سمیٹتے ہیں۔ پاکستانی کاروباریوں اور لیڈروں کے کم از کم 500 بلین ڈالر سمندر پار پڑے ہیں۔ قومی معیشت میں کھپ جائیں تو جل تھل ہو جائے۔ عمران خان اور اس کے ساتھی دانا ہوتے تو یقین پیدا کرتے کہ کاروبار کی زیادہ آزادی بخشیں گے۔ بس یہ کہ ٹیکس دینا ہو گا۔ ان کے ضمیر کا بوجھ ہلکا ہو گا۔ دنیا بھر کے شرفا کی طرح آبرو مندانہ زندگیاں وہ بسر کر سکیں گے۔ خان اور اس کے ساتھیوں کا مشغلہ کتھارسس ہے۔ دل شاد کیا، خوش کام ہوئے اور چل نکلے۔ کائیاں فضل الرحمٰن ہیں، گانٹھ کے پکّے۔
قومی سلامتی کے ضمن میں نواز شریف پر شکوک ہیں۔ لوٹ مار کے الزامات بھی۔ معاشرے میں تبدیلی کی تمنا بھی ہے۔ ایسے جج بھی ہیں، جن کا ضمیر ہی نہیں، شعور بھی بیدار ہے۔ بہترین کوششوں کے باوجود اخبار نویسوں میں ایسے بھی ہیں ، سرکاری ٹی وی کی نوکری یا دربار میں رسائی جن کی منزل نہیں۔ سب سے بڑھ کر نئی نسل کا جوش و خروش، جس کی آنکھوں میں عصرِ رواں کی بغاوتوں کا غرور ہے۔ مگر یہ کافی نہیں۔ مگر دانش درکار ہے اور ایک مکمل لائحہ عمل۔ اخلاقی طور پر معاشرہ پست ہو چکا۔ اچھے بھلے بھی بھلا دیتے ہیں کہ رزق اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، فرماں روائوں کے نہیں۔ 
ایک بھرپور معرکہ، آٹھ ماہ کی طویل انتخابی مہم۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ایک دن گارے اور پتھروں سے بنے اپنے حجرے سے نکلے اور فاروقِ اعظمؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ فیصلہ کن معرکے کے لیے وہ ایران کا قصد رکھتے تھے۔ کہا: جنگ ایک ہنڈولا ہے، جو کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اسلام کا کیا ہو گا؟ خالد بن ولیدؓ ہی موزوں رہیں گے۔ فقط جذبات سے نہیں، جنگیں حکمت سے لڑی جاتی ہیں۔ کاروبارِ حکومت ہی نہیں، صنعت و تجارت، دینیات، سیاست اور شعر و ادب ہر کہیں۔ ایک غالبؔ، ایک ساحر لدھیانوی۔ ایک قائدِ اعظم اور ایک آصف علی زرداری۔ 
عمران خان حسبِ معمول تھکا دینے والی ورزش میں جتے تھے۔ اچانک بولے: میں جان گیا کہ اپنی انا پال کر خدمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ روحانیت کبھی اس میں جاگ پڑتی ہے لیکن پھر خوشامدیوں کے جلو میں میٹھی نیند سو جاتی ہے۔ انا بیدار ہوتی ہے، انتقام کا ولولہ اور اقتدار کی بھوک۔ آدمی کو اپنی اصلاح کرنا ہوتی ہے، خود کو لگامیں پہنانا پڑتی ہیں۔ ادنیٰ خواہشات کو اسیر کرنا ہوتا ہے۔ کتاب درکار ہوتی ہے، صحبتِ سعید چاہئے اور اہلِ علم سے رہنمائی۔ ادنیٰ آدمیوں میں سورما بھی آخر کار ادنیٰ ہو جاتا ہے ۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ 
امیدیں کس سے وابستہ ہیں؟ افواج اور عدلیہ سے ؟ ان میں سے اکثر کو ہم جانتے ہیں ۔ ان کی اپنی مجبوریاں ہیں اور ایسے وہ کوئی شہسوار بھی نہیں ۔ پوری قوم کو جاگتے رہنا ہو گا۔ سیاست کے نقب زن ڈاکوئوں کے مانند نہیں ہوتے ۔ ہزار ہنر اور ہزار شیوہ رکھتے ہیں۔ 
اخلاقی ، روحانی اور علمی تحریک درکار ہے ۔ جان بوجھ کر قوم ناخواندہ رکھی گئی ۔ میٹرو ٹرین اور بسوں کے لیے چار سو ارب ۔ تعلیم کے لیے پچاس ارب ۔ تعلیمی ادارے برباد، ہسپتال برباد، کھیت ویران ، قلب و نظر کے چراغ بجھے ہوئے۔ روشنی علم اور کردار سے ہوتی ہے ۔ حکمران کے حسنِ نیت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ صداقت شعار اور سادہ اطوار ۔ خوف و خطر اور تعصبات سے بے نیاز۔ بے شک عمران خان معیار پہ پورے نہیں اترتے ۔ شہباز شریف تو اس ترازو میں رکھے ہی نہیں جا سکتے۔
جب اس طرح کے لیڈر ہوں، ہمیں جو ملے ہیں تو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ پوری قوم کو اور ہمہ وقت!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved