''کہاں جائے گی تنہائی ہماری‘‘ یہ کاشف حسین غائر کی غزلوں کا مجموعہ ہے جسے آصف فرخی کے ادارے شہرزاد نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب کوثر کاشف‘ حورین بانو اور سید محمد حسین کے نام ہے۔ دیباچے میں ممتاز نقاد اور شاعر شمیم حنفی لکھتے ہیں :
''کاشف حسین غائر کی شاعری غیر متوقع کی تلاش کا دُوسرا نام ہے۔ ان کے بہت سے شعروں نے مجھے حیران اور میرے وجدان کو سرشار کیا ہے۔ ایسے شعر محض اتفاقاً نہیں کہے جاتے۔ ان کے لیے حسیت میں گہرائی‘ نظر میں تازہ کاری اور تخلیقی سرشت میں استحکام کا ہونا ضروری ہے۔ کاشف حسین غائر کا امتیازی وصف یہ ہے کہ شعر کہتے وقت ان کی تمام حسیں بیدار رہتی ہیں۔ وہ صرف شاعر نہیں ہیں۔ وہ مصور‘ مجسمہ ساز‘ قصہ گو‘ جادوگر‘ مغنی... کچھ بھی ہو سکتے تھے۔ وہ صرف لفظوں سے نہیں کھیلتے اور صرف پرانی زمینوں میں راستے تلاش نہیں کرتے۔ نئے راستے بناتے ہیں اور نت نئے‘ نامونوس اور اچنبھے میں ڈالنے والے تجربوں سے گزرتے ہیں۔ نئی دنیائیں ڈھونڈ نکالتے ہیں اور نئے راگ الاپتے ہیں۔ اس لیے اُن کے اشعار اور‘ کبھی تو پُوری کی پُوری غزلیں ہمارے احساسات کو ہر طرف سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ہمیں ان سے حیرت کے ساتھ ساتھ بصیرت اور انبساط کی ایک ہمہ گیر کیفیت پر مبنی تجربہ بھی ملتا ہے...‘‘
شمیم حنفی بھارت کے اُن معتبر اور صائب الرائے نقادوں میں شامل ہیں جن کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ انہوں نے نہایت درست طور پر اس شاعری کو غیر متوقع کی تلاش کا دوسرا نام قرار دیا ہے۔ اصل بات یہ بھی ہے کہ شاعر چھوٹا‘ بڑا یا اچھا بُرا نہیں ہوتا‘ وہ بس ہوتا ہے۔ غائر کے بارے یہ کہنا کافی ہے کہ یہ شاعر ہے اور یہ بات 95 فیصد شعراء کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ میرے خیال میں اس کے دماغ میں ایک ایسا فرما فٹ ہے جس سے وہ شعر نکل ہی نہیں سکتا جو اُس کے معیار پر پُورا نہ اُترتا ہو۔ آپ کو اس کتاب میں کوئی بھرتی کا شعر شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ اور‘ کسی ایک بھی شعر کے بارے میں آپ کو یہ گمان گزرے کہ یہ شعر ہلکا ہے اور کتاب میں نہیں ہونا چاہیے تھا‘ تو اُسے دوبارہ پڑھیں اور آپ کو اپنے خیال پر نظرثانی کرنا پڑے گی کیونکہ اگر ایک سٹار بیٹسمین کم سکور بھی بنائے تو وہ اس میں اپنی کلاس کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ شعر بھی بتاتا ہے کہ وہ اسی شاعر کا شعر ہے! ذرا ان کے تیور دیکھیے :
پہلے مجھ کو بھیڑ میں گم کر دیا گیا
پھر مجھے آواز دی جاتی رہی
کوئی آوارہ گرد ہی ہو گا
جس نے یہ راستا بنایا ہے
لوگ اس کے سائے میں بیٹھے تھے‘ اور
زندگی گرتی ہوئی دیوار تھی
مجھ سے ناراض پرندو‘ تمہیں معلوم نہیں
میں نے یہ جال بنایا ہے شکاری کے لیے
عجیب بات ہے کاشف حسین اِس دل میں
کہ دُکھ بھی رہتے ہیں اور چارہ گر بھی رہتا ہے
دروازے کو دستک زندہ رکھتی ہے
جیسے دل کو دھک دھک زندہ رکھتی ہے
بنتا جاتا ہے یہ گھر شہر خموشاں کی طرح
شور کرتا ہوں تو بیکار نہیں کرتا میں
کتاب کے آخر میں درج سرور الہدیٰ‘ شعبہ اردو‘ جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی لکھتے ہیں :
''شاعری کی طاقت یہ ہے کہ شاعر کے غیاب میں اس کی شاعری پر گفتگو ہو۔ شمیم حنفی صاحب نے لکھنے کے ساتھ گفتگو کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اصل میں ادبی کلچر بنیادی طور پر گفتگو ہی کا پروردہ ہوا۔ غائر بلکہ کسی بھی اچھے شاعر یا قلم کار پر گفتگو کرنا ان کے لیے جلسے یا سیمینار منعقد کرنے سے زیادہ اہم ہے‘‘۔
اس شاعر کے کچھ اور شعر دیکھیے‘ ویسے تو یہ کتاب ایسے شعروں سے بھری پڑی ہے اور انتخاب بجائے خود ایک مشکل کام ہے :
دل میں تیری محبت بڑھتی جاتی ہے
ویرانے کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
بس ایک دن اُسے زنجیر خود رہا کرے گی
یہ قیدی ایسے تو آزاد ہونے والا نہیں
گزشتگاہ میں ہمارا شمار ہونے میں
اب اور وقت ہے کتنا غُبار ہونے میں
یہ قید خانہ بھی اک شب میں کتنا پھیل گیا
اب اور دیر لگے گی فرار ہونے میں
کتاب میں لاپروائی کی بھی کچھ مثالیں ملتی ہیں جن سے اجتناب کیا جا سکتا تھا‘ مثلاً ایک مصرعہ ہے ع
کسی کسی پہ ہی ہوتا ہے منکشف غائر
اس میں ''ہی‘‘ اور ''ہو‘‘ کے ملنے سے عیب تنافر کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
کسی کسی ہی پہ ہوتا ہے منکشف غائر
ایک اور مصرعہ ہے ع
خزاں ہو دھوپ یا بارش کھڑے رہیں گے درخت
اس میں ''یا‘‘ کی الف بُری طرح سے گرتی ہے۔ ایسے حالات میں ''کہ‘‘ کا استعمال موجود ہے یعنی ع
خزاں ہو دُھوپ کہ بارش کھڑے رہیں گے درخت
اسی طرح اس مصرعے میں بھی عیب تنافر کا تاثر پیدا ہو گیا ہے ع
لُطف کچھ اور ہی ہے ایسے اکیلے پن کا
اس کی یہ صورت بھی ہو سکتی تھی ع
لُطف ہے اور ہی کچھ ایسے اکیلے پن کا
یہ کتاب پڑھ کر غزل کے مستقبل پر میرا ایمان مزید تازہ ہو گیا ہے! مُبارک ہو!!
آج کا مقطع
تعلق جو توڑا تھا خود ہی‘ ظفرؔ
تو پھر کس لیے بیقراری ہے یہ