تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-12-2017

آپ ؐکے آخری لمحات

وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرمؐ امّ المومنین حضرت میمونہ ؓکے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ ''میری بیویوں کو جمع کرو‘‘۔ آپ ؐنے دریافت کیا: ''کیا تم سب اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہؓکے ہاں گزار لوں؟‘‘
اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ پائے ۔ جناب علی ابن ابی طالب اور فضل بن عباس ؓآگے بڑھے ۔آپ ؐ کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ عائشہؓکے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت اصحاب کرام ؓنے حضورؐ کو اس حال میں دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ آپ ؐکو کیا ہوا؟ آپ کو کیا ہوا ؟ وہ مسجد میں جمع ہونے لگے ۔ اس طرح ایک بڑا ہجوم ہوگیا ۔
عالی جناب ؐکا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔سیدہ عائشہ صدیقہؓ بعدازاں فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اس قدر پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ ''میں رسول اللہﷺ کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کہ آپ ؐکا ہاتھ محترم اور پاکیزہ تھا‘‘۔ یہ ورد سنائی دے رہا تھا کہ ''لا الہ الا اللہ... بیشک موت کی اپنی سختیاں ہیں‘‘۔
اسی اثناء میں مسجد کے اندر شور بڑھنے لگا۔
آپ ؐنے دریافت فرمایا: یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا :یا رسول اللہ ؐ! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان کے پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھ نہ سکے، آپ ؐپر سات مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب سہارے سے اٹھا کر منبر پرلائے گئے۔ یہ رحمۃللعا لمین ؐکا آخری خطبہ تھا ۔ فرمایا: اے لوگو...! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ ؐ۔
ارشاد فرمایا: اے لوگو...! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، کوثر ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ اے لوگو...! مجھے تم پر تنگ دستی کا خوف نہیں بلکہ دنیا کی فراوانی کااندیشہ ہے تم اس میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے والے لگ گئے، اور یہ دنیا تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔ پھر مزید ارشاد فرمایا ''اے لوگو...! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو‘‘۔ ''اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں‘‘۔ مزید فرمایا: اے لوگو! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اُسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اُسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔جناب ابوبکر ؓ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے ،رونے لگے ۔گریہ کرتے ہوئے آپ ؓاٹھ کھڑے ہوئے اور رسول اکرم ؐکی بات قطع کر کے پکارنے لگے... ''ہمارے باپ دادا آپؐ پر قربان، ہماری مائیں آپؐ پر قربان، ہمارے بچے آپؐ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپؐ پر قربان...‘‘۔
نبی کریمؐ نے فرمایا : اے لوگو! ابوبکر کو چھوڑ دو ۔تم میں سے کوئی ایسا نہیں ، جس نے ہمارے ساتھ بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے ۔ ان کا بدلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے ۔
ارشاد فرمایا: اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اے لوگو! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔ پھر آپ ؐ کو سہارا دے کر گھر لے جایا گیا۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓخدمت اقدس میں حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ ؐ مسواک کو دیکھنے لگے ،طلب نہ کر پائے۔ سیّدہ عائشہ سمجھ گئیں۔عبدالرحمن ؓسے مسواک لے کر آپ ؐ کے دہن مبارک میں رکھ دی لیکن حضورؐاسے برت نہ پائے ۔سیّدہ ؓ نے حضورؐسے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھرآپ ؐ کو لوٹا دی ۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓتشریف لائیں ۔آتے ہی رو پڑیں کہ آپ ؐ اٹھ نہ سکے۔ معمول یہ تھا کہ جب بھی تشریف لاتیں تو حضور ؐان کے ماتھے پر بوسہ دیا کرتے۔فرمایا '' فاطمہ! قریب آ جائو...‘‘پھر آپ ؐنے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓاور زیادہ رونے لگیں۔ دوبارہ ارشاد فرمایا: اے فاطمہ! قریب آئو۔دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو چہرے پر رونق لوٹ آئی۔
سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں :وصال کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا : وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر مطمئن ہوگئیں ؟سیدہ ؓ نے کہا :پہلی بار آپ ؐنے فرمایا: ''فاطمہ! میں آج رات کوچ کرنے والا ہوں‘‘۔ میں رو دی۔ جب روتے دیکھا تو فرمایا : فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔پھر آنحضرت ؐنے سب کو گھر سے باہر جانے کا حکم دے کر فرمایا: عائشہ! میرے قریب آجائو۔آپ ؐ نے اپنی زوجہ مطہرہؓ کے سینے پر ٹیک لگائی ،ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔
جبریل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ! مَلَکُ الموت دروازے پر کھڑے اذن چاہتے ہیں۔ آج سے پہلے انہوں نے کبھی کسی سے اجازت نہ مانگی تھی ۔فرمایا ''جبریل! اسے آنے دو‘‘مَلک الموت آپ ؐ کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ! مجھے اللہ نے آپ کی خواہش معلوم کرنے بھیجا ہے ۔ آپ دنیا ہی میں رہنا چاہتے ہیں یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟فرمایا: مجھے اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔مَلک الموت آنحضرتﷺ کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے پاکیزہ روح! اے محمد بن عبداللہ کی روح! اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو! راضی ہو جانے والے پروردگار کی طرف‘ جو غضبناک نہیں!
پھر آپ ؐ کا ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک سیدہ ؓ کے سینے پر بھاری ہونے لگا۔فرمایا : میں سمجھ گئی کہ آپ ؐکا وصال ہو گیا۔اور تو کچھ سمجھ نہ آیا،اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا ''رسول اللہ کا وصال ہوگیا۔ رسول اللہ کا وصال ہوگیا!‘‘
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ علی کرم اللہ وجہہ جہاں کھڑے تھے‘ وہیں بیٹھ گئے، ہلنے کی طاقت نہ رہی۔ عثمان بن عفان ؓمعصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ سیّدنا عمر ؓنے تلوار بلند کی اور کہا ''خبردار! جو کسی نے کہا رسول اللہؐ وفات پا گئے ہیں۔میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔! میرے آقا تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے گئے ہیں، جیسے موسی ؑ اپنے رب سے ملنے گئے ۔ وہ لوٹ آئیں گے۔‘‘
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دو عالمﷺ کے سینہ مبارک پر سر رکھ کر رو دیئے، کہا :
وآآآ خلیلاہ، وآآآ صفیاہ، وآآآ حبیباہ، وآآآ نبیاہ
ہائے میرا پیارا دوست...! ہائے میرا مخلص ساتھی...! ہائے میرا محبوب...! ہائے میرے نبی...!
پھر آنحضرتؐ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: یا رسول اللہ! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا ''جو شخص محمدﷺ کی عبادت کرتا ہے‘ سن رکھے کہ آنحضرتؐ کا وصال ہو گیا ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے‘‘۔
سیّدنا عمرؓ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ بعد میں کہا : پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔ آپ ؐ کی تدفین کر دی گئی تو سیدہ فاطمہ ؓ نے سوال کیا ''تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرۂ انور پر مٹی ڈالو...؟‘‘
پھر کہا ''یا ابتاہ، اجاب ربا دعاہ، یا ابتاہ، جنۃ الفردوس ماواہ، یا ابتاہ، الی جبریل ننعاہ‘‘۔
ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔


Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved