یہ شہرئہ آفاق کتاب محقق‘ نقاد اور فکشن رائٹر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے مرتب کی ہے۔ اسے دوست پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 1200 روپے رکھی ہے۔ انتساب تنبیہ الغافلین قاضی عبدالودود کے نام ہے۔ سرورق اور تزئین محمد حنیف رامے کی ہے۔ بڑی تقطیع پر چھاپی گئی یہ کتاب‘ ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اظہار تشکر اور مقدمہ‘ دونوں مرزا حامد بیگ کے قلم سے ہیں۔ ابتدا میں میر امّن دلی والے کے احوال و آثار بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد پس نوشت کے عنوان سے رشید حسن خاں سے معاملہ ہے۔
پس سرورق آراء کے مطابق: آپ نے ''باغ و بہار‘‘ کو توجہ اور پوری احتیاط سے مرتب کیا ہے۔ سلیقے سے حواشی اور تعلیقات (پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن)۔
آپ نے ''باغ و بہار‘‘ کے متن کی تحقیق و تصحیح میں جو محنت کی ہے‘ وہ غیر معمولی ہے۔ اہل نظر کو یہ فیصلہ کرنے میں دُشواری نہیں ہو گی کہ آپ نے تدوین متن کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے (پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد فاروقی‘ نئی دہلی)۔
پس سرورق ہی درج عبارت کے مطابق :
پروفیسر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی مرتب کردہ ''باغ و بہار‘‘کا مآخذی نسخۂ فیض اللہ کلکتہ 1843ء اپنے متن‘ املا‘ پیرا بندی اور اوقاف نگاری کے اعتبار سے بے مثل ہے۔ اس نسخے کی اشاعت اول 1839ء کے بعد مئی 1843ء تک تین ایڈیشن نکلے۔ اس نسخے کے نقش ثانی مطبوعہ اواخر 1843ء سے معلوم ہوا کہ 1839ء تا مئی 1843ء کے دورانیہ میں مولوی فیض اللہ فورٹ ولیم کالج کے دیگر مولویان کے ساتھ مل کر اس پر نظرثانی کا کام کرتے رہے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مرتب کردہ یہ وہی نظرثانی شدہ ایڈیشن 1843ء ہے جو فورٹ ولیم کالج کی بیضوی مہر اور لائبریرین کے ہاتھ کی ایک مختصر تحریر کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی لائبریری نیو کیمپس لاہور کے اورینٹل سیکشن کے گوشۂ حافظ محمود شیرانی میں محفوظ ہے۔ تصحیح متن کے حوالے سے جملہ مرتبینِ ''باغ و بہار‘‘ نے مقابلہ متون کے ذریعے جو کچھ نتائج برآمد کئے اور اُس پر بھی کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچے۔ وہ سارا کچھ نسخہ فیض اللہ 1843ء میں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ وہ یوں کے ایل ایف سمتھ کے نسخہ کلکتہ 1813ء پی ایس روزاریو کے نسخہ کلکتہ 1854ء ڈنکن فاربس کے نسخۂ لندن 1859,1857,1873,1860 ,1851,1849,1844 ء قاضی محمد اسماعیل مدرس فورٹ ولیم کالج کے نسخۂ کلکتہ 1854ء مولوی سید محمد حسن لکھنوی کے نسخۂ کانپور 1855ء ایڈورڈ بی ایسٹ وک کے بزبان انگریزی ترجمہ 1859ء مونیئر ولیمز کے رومن نسخہ لندن 1859ء میجر ڈی سی فلٹ کے نسخہ کلکتہ 1905,1854ء مولوی عبدالحق کے انتخابی نسخہ 1931ئ، ممتاز حسین کے نسخہ کلکتہ 1958ئ، ابوالخیر کشفی کے نسخہ کلکتہ 1964ئ، ڈاکٹر ممتاز منگلوری کے انتخابی نسخہ 1966ء اور ڈنکن فاربس کے پیش کردہ متون 1846ء اور 1873ء پر مبنی رشید حسن خاں کے انتخابی نسخہ 1992ء سے بعداز موازنہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ثابت کر دیا کہ نسخۂ فیض اللہ کلکتہ 1843ء کے مرتبین نے اس متن کی تدوین میں میرامّن کے خطی نسخے یا تصدیق شدہ نقل کو بنیاد بنایا۔ یہی سبب ہے کہ ''باغ و بہار‘‘ کا اس سے بہتر متن قدیم و جدید مطبوعہ نسخوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا (ادارہ)۔
اس کے بعد باغ و بہار‘ باغ و بہار کا ماخذ‘ قصۂ چہار درویش‘ فارسی ازمرزا رفیع النجب‘ باغ و بہار کی اسلوبی ساخت‘ تحقیقِ متن: چند معروضات‘ ہمارا ماخذی نسخہ فیض اللہ کلکتہ 1843ء کے عنوانات سے مضامین ہیں جس کے بعد ''باغ و بہار‘‘ : مقدمہ جان ہارتھوک گلکرسٹ‘ میرامّن دلی والے : مونو گراف از مرزا حامد بیگ‘ نقل عرضی کی‘ ازمیر امّن دلی والے۔ تیسرے حصے میں دیباچہ باغ و بہار ازمیر امّن دلی والے۔ شروع قصے کا‘ سیر پہلے درویش کی‘ سیر دوسرے درویش کی‘ سیر تیسرے درویش کی‘ چوتھے درویش کی سیر۔ خاتمۂ کتاب۔ اس کے بعد حواشی : بابت مقابلۂ متون اور فرہنگِ باغ و بہار۔ اس کے بعد ضمیمہ جات کے عنوان کے تحت تصاویر اور مختلف تحریروں کے عکس ہیں۔ پس سرورق مرتب کی تصویر ہے۔
شروع قصے کا
اب آغاز قصے کا کرتا ہوں۔ ذرا کان دھر کے سنو اور منصفی کرو۔سیر میں چار درویش کی یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ آگے رُوم کے مُلک میں کوئی شہنشاہ تھا‘ کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اُس کی ذات میں تھی۔ نام اُس کا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ جس کو استنبول کہتے ہیں‘ اس کا پایہ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت آباد‘خزانہ معمور‘ لشکر مُرفہ‘ غریب غرباء آسودہ۔ ایسے چین سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید اور رات شب برأت تھی اور جتنے چور چکار‘ جیب کُترے‘ صبح خیز‘ اُٹھائی گیرے‘ دغا باز تھے‘ سب کو نیست و نابود کر کر نام و نشان اُن کا اپنے مُلک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مسافر‘ جنگل میدان میں سونا اُچھالتے چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا کہ تمہارے مُنہ میں کَ دانت ہیں اور کہاں جاتے ہو...
یہ تھا کتاب کی نثر کا نمونہ جسے نہایت اعلیٰ گٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے جو اس تحفہ کتاب کے شایان شان بھی ہے۔ سرورق کے علاوہ کتاب میں محمد حنیف رامے کی بنائی ہوئی متعدد تصاویر نے بھی اسے مزین کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس کارنامے پر دِلی مبارکباد!
آج کا مطلع
ابھی کچھ دیر اُس کو یاد کرنا ہے
ضروری کام اُس کے بعد کرنا ہے
..................