25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے۔ اسی دن ہمارے قائد اعظم محمد علی جناحؒ پیدا ہوئے، اور یہی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کا جنم دن ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اس لحاظ سے منفرد تھی کہ حضرت مریم کی شادی نہیں ہوئی تھی، گویا صنف مخالف نے انہیں چھوا تک نہ تھا۔ اس سے مسیحی مذہبی رہنمائوں نے جو جو نکتے نکالے ہیں وہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہمارے لئے اس میں انتہائی حیرت کا پہلو یوں نہیں کہ اگر حضرت آدم ؑاور اماں حوّا ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہو سکتے ہیں‘ تو حضرت عیسیٰؑ باپ کے بغیر جنم کیوں نہیں لے سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے اور اس کی قدرت ہماری سوچ کی چار دیواری میں محدود نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے نام لیوا آج بہت بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ امریکہ اور یورپ پر ان کا جھنڈا لہراتا ہے۔ یہ اور بات کہ انہوں نے مذہب کو سیاست سے خارج کر دیا ہے اور مملکت چلانے میں آزاد ہیں۔ ان کے منتخب ادارے ہر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جہاں مغربی دنیا میں طلاق کا تصور نہیں تھا‘ وہاں اب شادی ایک غیر ضروری رسم بنتی جا رہی ہے۔ اس کے بغیر بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہا جا سکتا‘ اور بے دھڑک بچے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ ہم جنس شادیاں رچا رہے ہیں اور ان پر انگلی اٹھانے والے نکّو بن رہے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک دلچسپ مقدمہ انہی دنوں زیر سماعت ہے۔ ایک بیکری پر دو حضرات اپنی شادی کے لئے کیک بنوانے پہنچے، تو مالک نے ان کے لئے کیک بنانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ہم جنسی شادی کے خلاف ہے، اور اسے اپنے مذہبی عقیدے سے متصادم سمجھتا ہے۔ اس پر یہ جوڑا برہم ہو کر عدالت میں پہنچ گیا کہ اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ زیریں عدالت سے یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے، اور پورے امریکہ کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر کیک شاپ کے مالک سے یہ درخواست کی جاتی کہ وہ اس جوڑے کو اپنی طرف سے مبارکباد کا پیغام بھیجے تو اس کا عقیدہ متاثر ہو سکتا تھا۔ اب جبکہ وہ مارکیٹ میں بیٹھا کیک تیار کر رہا ہے، ایسے میں کسی بھی شہری کو سودا بیچنے سے انکار کرنا اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے مترادف ہے۔ ممکن ہے اس دکاندار کو اس ہتک عزت پر زرِ تلافی ادا کرنا پڑ جائے۔ ووٹ کی طاقت سے بننے والے قوانین کے سامنے وہاں کا مذہب ٹھہر نہیں سکتا۔ اس کے باوجود حضرت عیسیٰ ؑ کا جنم دن پورے عالم عیسائیت میں انتہائی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ سو، تمام مسیحی برادران وطن کو مبارک۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ عنفوان شباب ہی میں لندن چلے گئے تھے۔ وہ کئی برس وہاں مقیم رہے، اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ان کی آمدنی اور خرچ کی تفصیل آج بھی محفوظ ہے۔ ایک بار کرسمس کے موقع پر ان کی لینڈ لیڈی کی نوجوان بیٹی نے کرسمس ٹری کے نیچے کھڑی ہو کر کہا کہ آپ مجھے بوسہ دیں۔ نوجوان جناح نے یہ کہہ کر اس آفر کو ردکر دیا کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کے لندن میں قیام کے دوران کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا جس پر اخلاقی اعتبار سے اعتراض کیا جا سکے۔ انہوں نے ایک ''زاہدِ خشک‘‘ کی زندگی گزاری، اور کسی بھی سکینڈل نے ان کے روز و شب کوآلودہ نہیں کیا... ہندوستان واپس آ کر بھی انہوں نے اخلاقی اقدار کی ہمیشہ پاسداری کی۔ خلوت اور جلوت میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ جھوٹ بولا نہ دھوکہ دیا۔ عوام کی طاقت ہی کو اپنی طاقت بنایا، اور ووٹ کے بل پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی تخلیق میں کامیاب ہوئے۔ اگر مسلمان قوم اپنے ووٹ کی طاقت ان کو فراہم نہ کرتی تو انگریز اور کانگریس کے جبڑوں سے وہ اسے نکالنے میں کامیاب نہ ہو پاتے۔ ان کی سالگرہ مناتے ہوئے اہل پاکستان ان کے افکار و تصورات کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں اور ووٹ کی طاقت پر ان کا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ یہ طاقت اسلامی اقدار کے تابع ہے... ان کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف آج ووٹ کی طاقت اور اس کے تقدس کی بحالی کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں سپریم کورٹ نے پارلیمانی سیاست کے لئے نا اہل قرار دے رکھا ہے۔ اس فیصلے کے بعد انہیں وزیر اعظم ہائوس خالی کرنا پڑا، لیکن وہ خالی ہاتھ یوں نہیں ہیں کہ ان کا ووٹ بینک اس سے (زیادہ) متاثر نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ بنیادی طور پر اپیل کی عدالت ہے، اس کے فیصلے حتمی اور آخری ہوتے ہیں۔ یہ جب تک ان پر خود نظر ثانی نہ کرے، اس وقت تک ان کا وجود برقرار رہتا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری نے دستور کی دفعہ 184 (3) کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا۔ یہ دفعہ بنیادی حقوق کی پاسداری کے لئے سپریم کورٹ کو براہ راست درخواستیں وصول کرنے یا سووموٹو اقدام کی اجازت دیتی ہے۔ ماہرین آئین و قانون کی بڑی تعداد اسے اجتماعی معاملات کے لئے خاص سمجھتی ہے۔ اس کا دائرہ انفرادی معاملات تک بڑھانے سے دستور کی بنیادی روح متاثر ہوئی ہے کہ ابتدائی سماعت ہی انتہائی سماعت بن جاتی ہے۔ متاثرہ فرد کو اپیل کا حق میسر نہیں ہوتا اور یوں اس کے بنیادی حقوق پر کند چھری پھر جاتی ہے۔ پارلیمنٹ اس دفعہ کا اطلاق واضح کرنے کے لئے قانون سازی کر سکتی تھی، لیکن ایسا کیا نہیں جا سکا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تحریک انصاف اور شیخ رشید نے جو ہنگامہ اٹھایا‘ اس کے نتیجے میں انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ کرپشن کے جو الزامات لگائے گئے، ان میں سے کسی کا بھی تعلق 2013ء کے انتخابات کے بعد کے معاملات سے نہیں تھا۔ برسوں پہلے کے قصے اچھالے گئے۔ ہنوز ان میں سے کسی کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا، سب زیر سماعت ہیں لیکن اپنے بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو اثاثہ قرار دے کر اور اس اثاثے کو امیدوار قومی اسمبلی کے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں کارروائی کر ڈالی گئی۔ پہلا فیصلہ آخری یوں بن گیا کہ اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ وہ حق جو دہشت گردوں اور قومی مجرموں کو بھی حاصل ہے اور جس پر سپریم کورٹ خود زور دیتی رہی ہے۔ نواز شریف حکومت سے تو ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ووٹ کی طاقت نے ان کی نشست کے ضمنی انتخاب میں ان کے مخالفین کو چکرا کر رکھ دیا۔ اب وہ نظام عدل کی اصلاح کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لئے وہ شہباز شریف کو اپنا جانشین مقرر کر چکے۔ اب ان کے بقول ان کا ایجنڈا اقتدار نہیں اقدار کا حصول ہے۔ وہ مستقبل کے وزرائے اعظم کو وزیر اعظم کے منصب کو غیر منتخب اداروں کے غیظ و غضب سے بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ووٹ کی طاقت بار بار آزمائش سے گزری ہے، بار بار اس کا انکار کیا گیا ہے، اور بار بار اس نے اپنے آپ کو منوایا ہے ؎
وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
صبح ہے شام سے پہلے، صبح ہے شام کے بعد
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]