نیوجرسی‘ امریکہ سے آئے دوست المان چوہدری اور ان کے بھائی ارسلان چوہدری کے ساتھ باتیں کرتے کرتے احساس ہوا کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ تقدیر کے کچھ اپنے اصول ہیں۔ سمجھ نہیں آتی‘ ان پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔
بات میرے ایک دوست سے چلی تھی جس کے دو بچے کینیڈا میں جاب کرتے ہیں۔ ایک دن مجھے فون آیا کہ کہاں ہو۔ پہلی دفعہ دوست کو شدید افسردہ دیکھا۔ آنکھوں میں کچھ نمی تھی جسے وہ سگریٹ کے دھوئیں میں چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔میں کچھ پریشان ہوا۔ بولے: کچھ خاص نہیں۔ کیا ملا ہمیں؟ بچوں کو باہر پڑھایا اب وہ وہیں نوکری کرتے ہیں۔ میں اور میری بیوی یہاں پاکستان میں تنہا ان کی خیریت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ وہاں وہ انگریزوں کی نوکری کرتے ہیں جو ان کا لہو نچوڑ لیتے ہیں۔ ایک بیٹا لندن میں ہے۔ پچھلے دنوں آکسفورڈ سٹیشن پر بم کی اطلاع آئی تو جان نکل گئی۔ فوراً فون کیا۔ اس وقت کیا کیا سوچتے تھے کہ بچے باہر پڑھیں گے‘ ترقی کریں گے‘ لیکن یہ پتا نہ تھا کہ اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ جب ہم بوڑھے ہوں گے تو وہ ہمارے قریب نہیں ہوں گے۔
وہ بولتارہا اور میں خاموش‘ ایک باپ کو اپنے دل کی بھڑاس نکالتے دیکھتا رہا۔ اس نے کہا: چند سال بعد میں نے ریٹائر ہو جانا ہے۔ ابھی تو دفتر ہے‘ کچھ دل لگا جاتا ہے۔ بعد میں کیا کروں گا، سارا دن اکیلے؟
مجھے پاکستان کے ایک بڑے صحافی ایچ برکی صاحب یاد آئے۔ ان کے دو بچے بھی امریکہ پڑھے اور پھر وہیں بس گئے۔ وہ بھی طویل تنہائی کا شکار تھے۔ روزانہ اسلام آباد میں ضیاء الدین صاحب، احمد حسن علوی صاحب اور دیگر کے پاس شام کا وقت گزارتے۔ آخری عمر میں وہ بیمار ہوگئے، ہسپتال میں کچھ دن رہے۔ ایک بیٹا امریکہ سے آ گیا۔ وہ فوت ہوئے تو ان کی تدفین کے بعد بچوں نے اسلام آباد میں واقع ان کا خوبصورت گھر‘ جس میں انہوں نے زندگی کے آخری پل گزارے تھے، فروخت کیا اور واپس امریکہ لوٹ گئے۔ شاید آج بھی گھر میں لگے پھلوں کے درخت برکی صاحب کو مس کرتے ہوں جن کا پھل وہ اکثر دفتر میں ہم سب کے لیے لاتے تھے۔
کیا یہی سب کچھ ہمارے جیسوں کی قسمت میں لکھا ہے جن کے بچے باہر پڑھنا چاہتے ہیں؟ ان میں سے بہت سارے واپس نہیں لوٹیں گے کیونکہ یہ معاشرہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔
لاہور شہر سے تعلق رکھنے والے المان چوہدری نے افسردہ آہ بھری اور بولے: اپنے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ المان ایک خوبصورت دل والے انسان ہیں۔ ہر اوورسیز کی طرح وہ بھی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ایک ملاقات میں آپ کے دل کو بھا جائیں۔ ایک سلجھا ہوا خوبصورت انسان۔ وہ بھی اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کو اطلاع دی گئی لیکن امریکہ میں برفانی طوفان کی وجہ سے فلائٹ نہ مل سکی۔
اس سے قبل المان کے والد ‘جو لندن میں پڑھتے تھے‘ کو بھی ساری عمر دکھ رہا کہ وہ پاکستان میں اپنے والد کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ انہیں تو پتا ہی چھ ماہ بعد لگا تھا، پاکستان سے انہیں بتایا ہی نہ گیا تھا۔
اس دوران وہ امریکہ میں المان چوہدری کے پاس آئے تو وہیں دل کا آپریشن کرایا۔ آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل بولے: المان مجھے کچھ ہوگیا تو کم از کم یہ تسلی ہوگی کہ تم میرے پاس ہو۔ میں اپنے باپ کے پاس نہ تھا۔کچھ برس بعد وہی ہوا جس کا خدشہ ہمیشہ سے ان کے والد کے دل میں تھا کہ جس دن وہ فوت ہوں گے‘ المان ان کے پاس نہیں ہو گا۔ لاہور میں ان کا انتقال ہوا اور المان امریکہ میں تھے۔ المان امریکہ سے ہی بھائی کے ذریعے‘ فون پر آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ جب مٹی ڈالنے لگے تو المان نے بھائی سے کہا کہ میرے حصے کی بھی ڈال دو۔
دونوں بھائی المان اور ارسلان چپ بیٹھے تھے۔ میں نے کہا: المان بھائی عجیب بات ہے۔ ہم سب کے اپنے اپنے پچھتاوے ہیں لیکن تقدیر کے اپنے کھیل ہیں۔ چلیں! آپ تو امریکہ میں تھے۔ میرے بارے میں کیا کہیں گے؟ میں تو اپنے گائوں میں تھا، پھر بھی باپ کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا تھا؟ المان اور ارسلان‘ دونوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔
میں نے کہا: میرے والد سخت بیمار تھے۔ انہیں میرے دو بھائی ملتان کے ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے۔ بابا کو محسوس ہوا کہ ان کا اخری وقت آن پہنچا ہے، میں ان کا لاڈلا تھا، انہوں نے میرا نام لے کر میرے بھائیوں کو کہا کہ اسے بلائو، میں اسے آخری دفعہ ملنا چاہتا ہوں۔ میری عمر اس وقت دس‘ گیارہ برس تھی۔ ان دنوں بس ملتان سے لیہ‘ پورا دن لگا کر پہنچتی تھی۔ گائوں سے ہمارے ایک رشتہ دار‘ محمد صادق بابا کا حال احوال پوچھنے ملتان آئے ہوئے تھے۔ انہیں کہا گیا کہ روفی کو لے آئو۔ وہ پورا دن بس کے سفر کے بعد شام کو گائوں پہنچے۔ اگلی صبح منہ اندھیرے مجھے ملتان بھیجا گیا۔ دوپہر تک ہم ملتان پہنچے تو پتا چلا کہ بابا تو رات ہی فوت ہو گئے تھے۔ ان دنوں فون بھی نہ تھے کہ ہمیں اطلاع ہی ہو جاتی۔ ہم ملتان پہنچے تو بھائی میت کے ساتھ گائوں پہنچ گئے۔ ہم دوبارہ لیہ کے لیے روانہ ہوئے اور جب گائوں پہنچے تو بابا دفن ہو چکے تھے۔ مجھے آج تک خلش ہے کہ بابا آخری دفعہ مل کرکیا کہنا چاہتے تھے۔
ایک اور قصہ سنیں۔ جب 2013ء میں نعیم بھائی کی اسلام آباد میں اچانک طبیعت خراب ہوئی تو بھائی انہیں ہسپتال لے گیا۔ وہ خود چل کر ہسپتال گئے، وہاں رات گئے جونیئر ڈاکٹر ہوتے ہیں اور علاج کی پوری سہولتیں تک میسر نہیں تھیں۔ وہ بیڈ پر لیٹے تو ہارٹ فیل ہو گیا۔ ہسپتال کے پاس دل کو جھٹکے دینے کے آلات تک نہ تھے۔ مجھے افسوس رہا کہ اگر چھوٹا بھائی قریب ہی واقع کلثوم ہارٹ ہسپتال‘ جہاں دل کے علاج کی بہتر سہولتیں تھیں، لے جاتا تو شاید وہ بچ جاتے۔
پھر 4 دسمبر 2015ء کو جب میں اپنے گائوں میں بلدیاتی الیکشن کے موقع پر موجود تھا تو نصرت بتول کا فون آیا۔ بولیں ہم ڈاکٹر ظفرالطاف کو کلثوم ہسپتال لے آئے ہیں۔ یہ بات کریں۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوا۔ ڈاکٹر صاحب لائن پر تھے۔ بولے: ہاں بھائی! کدھر بھاگ گئے ہو۔ میں نے کہا :سر گائوں آیا ہوں ‘خیریت ہے‘ کیا ہوا؟ بولے: یار کچھ نہیں دو تین الٹیاں آئی تھیں۔ یہ سب مجھے پکڑ کر یہاں ہسپتال لے آئے ہیں۔ کب آ رہے ہو؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا: سر! کل الیکشن ہے۔ پرسوں‘ سوموار کو لوٹوں گا۔ آپ کہتے ہیں تو آج ہی آ جاتا ہوں۔
بولے: کوئی خاص بات نہیں، سوموار کو ضرور آ جانا۔ دو تین مذاق کیے اور فون بند ہوگیا۔ میں نے ان کے بھتیجے رافع الطاف کو فون کیا۔ وہ بولا: ڈاکٹر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ میں نے دل کو تسلی دی کہ ڈاکٹر صاحب دل کے ایک اچھے ہسپتال میں ہیں۔ وہ نہیں ہو گا جو نعیم بھائی کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے ہسپتال کے مالک کو فون کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ صبح سب ڈاکٹر اُن کا معائنہ کریں گے اور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔
اگلی صبح ابھی پولنگ سٹیشن پر ہم کزنز گپ شپ لگا رہے تھے کہ بیوی کا فون آیا۔ کہنے لگی: میرے اندر تو حوصلہ نہیں۔ رافع سے بات کریں... سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔
المان بھائی! میری بیوی کو دو سال علاج کے بعد پاکستانی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ شاہین صہبائی کا بیٹا عاصم صہبائی امریکہ میں مشہور کینسر سپیشلسٹ ہے۔ شاہین صہبائی نے کہا: امریکہ لے آئو۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی نے چھ ماہ ان کا علاج کیا اور اللہ نے تندرستی بخشی۔
اسلام آباد کلب میں شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ المان چوہدری اور میں‘ اپنے اپنے پیاروں کا بوجھ اٹھائے کیفے سے باہر نکل آئے۔ طویل خاموشی کے دوران کہیں دور سے ایک خیال ابھرا کہ ہم سب انسانوں کے پاس اپنے اپنے غم، پیاروں سے جدائی، وچھوڑے کے دکھ، گہرے پچھتاوے اور نہ ختم ہونے والی اداس تنہائیاں ہیں...!