تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     24-12-2017

محرومیوں کا ازالہ

ایک مثالی معاشرہ ایسے معاشرے کو ہی کہا جا سکتا ہے جس میں بالادست خوشحال اور بااثر لوگوں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود لاچار، مجبور اور مفلوک الحال طبقات کی بحالی کا بھی بہتر انداز میں انتظام کیا گیا ہو۔ جب ہم اپنے گرد و نواح میں دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت سے لوگ محرمیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ محرومیاں مادی اور کبھی نفسیاتی اور طبعی نظر آتی ہیں۔ معاشرے کے محروم اور دبے ہوئے طبقات کی بحالی کے لیے ہم سب کو مل کر مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان معاملات کو صرف حکومت کے ذمے لگا کر معاشرہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدا برآ نہیں ہو سکتا۔ جب ہم اپنے معاشرے پر بغور نظر ڈالتے ہیں تو وہ طبقات جن کو ہماری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے‘ وہ درج ذیل طبقات میں نظر آتے ہیں:
1۔اقلیتیں: گو پاکستان میں اقلیتیں بحمدللہ بہترین انداز میں اپنی زندگی گزار رہی ہیں اور ملک میں ان کے ساتھ جبر والا معاملہ نہیں کیا جاتا؛ تاہم پھر بھی اس حوالے سے معاملات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256 میں ارشاد فرمایا ''دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اقلیتی طبقے سے وابستہ کسی بھی فرد کو جبراً دائرۂ اسلام میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے بعض ناخوشگوار واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان المناک حادثات پر ملک کے تمام سیاسی اور دینی رہنماؤں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ان حملہ کرنے والے عناصر کو انسانیت کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی دشمن قرار دیا۔ پاکستان ہمارا ملک ہے جس میں بسنے والے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا بھی حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ اس حوالے سے منفی عزائم رکھ کر پاکستان اور مسلمانوں کے تاثر کو اقوام عالم کی نظروں میں خراب کرنا چاہتے ہیں‘ ان کو قرار واقعی سزا دینا انتہائی ضروری ہے۔ اقلیتوں کی جان، مال، عزت اور املاک کا تحفظ بھی معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کی املاک، جان، مال اور عزت کی طرح اہم اور ضروری ہے۔
2۔ خواتین: ہمارے معاشرے میں خواتین کے استحصال کے حوالے سے بھی مختلف قسم کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ بعض ناخواندہ گھرانوں میں بہو کو لونڈی سمجھ لیا جاتا ہے اور تیل چھڑک کر آگ لگانے یا منہ پر تیزاب پھینکنے کے شرمناک واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں۔ یہ تمام قابل مذمت افعال اسلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرمایا: اور ان کے ساتھ زندگی بسر کرو اچھے طریقے سے۔ نبی کریمﷺ نے ایسے شخص کو بہترین قرار دیا جو اپنے اہل خانہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہے۔ نبی کریمﷺ خود کائنات کے رہبر و رہنما ہیں اور صحابہ کرامؓ آپﷺ کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز سمجھتے اور آپﷺ کے احترام میں کسی بھی قسم کی کمی کو گوارا نہ کرتے تھے۔ لیکن اس مقامِ بلند کے باوجود نبی کریمﷺ امور خانہ داری میں امہات المومنینؓکا ہاتھ بٹاتے اور ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی والا معاملہ فرماتے۔ بعض ناخواندہ لوگ عورت کی تعلیم کو معیوب سمجھتے ہیں حالانکہ تعلیم حاصل کرنا جتنا مردوں کا حق ہے‘ اتنا ہی عورتوں کا بھی ہے۔ بعض قبائلی علاقوں میں بسا اوقات عورت کو وَنی کر دیا جاتا ہے اور اس کی قرآن کے ساتھ شادی کرکے اس کو عمر بھر کے لیے شریکِ زندگی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ باتیں کسی بھی طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض گھروں میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیا ن تفریق کی جاتی ہے اور ایسے لوگ بیٹے کو مستقبل کا سہارا جب کہ بیٹی کو بوجھ تصور کرتے ہوئے‘ اس کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں اور اس بے اعتدالی کا مظاہرہ روز مرہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ تقسیمِ وراثت تک برابر نظر آتا ہے۔ ہمارے علماء کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام کو اسلام کی تعلیمات پر غور و خوض کرنے کی دعوت دینی چاہیے۔ تعلیم، بود و باش، رہن سہن، خوراک اور وراثت کے اعتبار سے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کے حقوق مقرر کیے ہیں وہ اس کو ہر صورت ملنے چاہئیں۔
3۔ بوڑھے والدین: ہمارے معاشرے میں بعض لوگ بوڑھے والدین کے ساتھ بھی ناروا سلوک کرکے‘ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی دنیا و عاقبت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ جوانی، سرمائے اور اچھی سماجی حیثیت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے والدین کی بے ادبی کرنا ان لوگوں کا شعار بن جاتا ہے۔ ایک عرصہ قبل اولڈ ہاؤسز کا تصور صرف یورپ کی سطح تک محدود تھا لیکن اب اس قسم کی مثالیں ہمارے معاشرے میں بھی مل جاتی ہیں کہ بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے گلے سے اتار کر اولڈ ہاؤسز میں جمع کرا دیا گیا۔ یقینا ایسے لوگ بدنصیب اور بدبخت ہیں جو اپنے لیے نیک دعاؤں، تمناؤں اور اچھے احساسات کے مراکز کو خود اپنے ہاتھوں سے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا مقامات پر والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23،24 میں ارشاد فرمایا ''اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو‘ دونوں میں سے ایک یا دونوں، تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی، اور مت ڈانٹ ان دونوں کو، اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحم دلی سے، اور (کہہ) اے میرے رب! رحم فرما ان دونوں پر، جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے پچپن میں‘‘۔
4۔مریض اور معذور: ہمارے معاشرے میں مریض اور معذور لوگ بھی ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ زندگی کی مشغولیات اور معیشت کی دوڑ میں کئی مرتبہ ہمیں اپنے ذاتی معاملات اور گرد و نواح سے بالکل فرصت نہیں ملتی؛ چنانچہ ہم بہت سے‘ موذی، جسمانی اور نفسیاتی امراض کے شکار لوگوں کی بحالی کے لیے خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے وسائل سے نوازا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اضافی وسائل کو زندگی کی سہولیات سے بڑھ کر تعیشات کی نذر کر دیتے ہیں۔ لیکن اپنے گرد و نواح میں موجود نفسیاتی اور جسمانی امراض کے شکار لوگوں کے لیے ان کے وسائل میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح بہت سے لوگ فارغ تو ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے فارغ اوقات کو فضول قسم کی مجالس، گپ شپ، انٹرنیٹ اور موبائل پر ضائع کر بیٹھتے ہیں اور اپنے گرد و نواح میں پائے جانے والے محروم، مفلوک الحال اور مریض لوگوں کی خبرگیری یا ان کی بحالی کے لیے کچھ بھی کردار ادا نہیں کر پاتے۔ ہمیں اپنے گھر بار کے ساتھ ساتھ گرد و پیش پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر ہر شخص اپنے گرد و نواح پر نظر رکھے اور مجبور اور مریض لوگوں کی بحالی کے لیے اپنے وسائل اور وقت میں سے کچھ حصہ صرف کرے تو جہاں اس سے دکھی انسانیت کی خدمت ہو سکتی ہے، وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت بھی ہمارے شامل حال ہو سکتی ہے اور اس کے فضل وکرم سے کڑے وقت میں انسان کی معاونت کرنے والے لوگ بھی میسر آ سکتے ہیں۔
5۔ قیدی: ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بہت سے لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں کاٹتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات بھی سننے اور دیکھنے کو ملے ہیں کہ بہت سے لوگ عمر قید جیسی طویل اور مشقت والی سزا کاٹنے کے باوجود فقط وکالت اور پولیس کے کمزور نظام کی وجہ سے عرصۂ دراز تک جیل کی کوٹھریوں میں وقت گزارنے پر مجبور رہے۔ بہت سے قیدیوں کے رشتہ دار، لواحقین اور ورثاء ان کی بحالی کے لیے مال اور اثر و رسوخ کی کمی کی وجہ سے کماحقہٗ کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معاونت کرنے کے لیے بھی معاشرے کے تمام طبقات بشمول ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور قیدیوں کاتمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنا چاہیے تاکہ جو قیدی اپنی سزا کو پورا کر چکے ہوں‘ ان کی باعزت رہائی کا احسن طریقے سے انتظام کیا جا سکے۔
6۔ بچے: ہمارے معاشرے میں بہت سے نادار اور مفلس خاندانوں کے بچے اپنے خاندان کی معاشی بدحالی کی وجہ سے پر مشقت کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ بچے ہمارے اپنے بچوں کی طرح تعلیم، لباس اور خوراک کی سہولیات کے مستحق ہیں اور ان کی بحالی کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بچوں کو اضافی جسمانی مشقت سے بچانے کے لیے اپنے وسائل اور وقت کا استعمال کرنا چاہیے۔ بعض لوگ اس اعتبار سے لائق تحسین ہوتے ہیں کہ وہ گھریلو ملازمین کی کفالت بھی اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ان کے اپنے بچے ہوں؛ چنانچہ ان کے پاس کام کرنے والے بچے اخلاق اور طبیعت کے اعتبار سے بہت سلجھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ایسے بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان بچوں کا لباس، چہرے کی پریشانی اور آنکھوں میں غم کی لہریں ان کی بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔
7۔ محنت کش: ایک مثالی معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں محنت کش طبقات کی بحالی کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ محنت کش اپنی جسمانی صلاحیتوں سے زیادہ کام کرتے ہیں لیکن اُن کو اس جسمانی مشقت کا صحیح اور پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ فیکٹریوں، لوہے کی بھٹیوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے والے محنت کشوں کا کم ازکم اتنا مشاہرہ ضرور مقر ر ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی جملہ ضروریات اور لوازمات کو باآسانی پورا کر سکیں۔
ایک مثالی معاشرے کے قیام کے لیے حکومت اور معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک فلاحی اور مثالی معاشرہ بن سکے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved