تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-12-2017

توبہ

1997ء کے موسمِ سرما میں یہ واقعہ گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال میں پیش آیا تھا۔ محمد عبدالحمید نامی ایک نیا استاد سکول آیا تھا۔ وہ دوسرے استادوں سے مختلف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے شاگرد اپنا دماغ استعمال کرنا سیکھیں۔ پہلی بار اس نے نصابی سرگرمیوں سے ہٹ کر کچھ ایسے کام طالبِ علموں سے کرائے، جن سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا۔ مثلاً ایک روز اس نے اعلان کیا کہ آج کے ٹیسٹ میں پاس ہونے والے طلبہ کے علاوہ جو طالبِ علم اپنی غلطی کی کوئی بہتر توجیہہ پیش کر ے، اسے بھی معاف کر دیا جائے گا۔ استاد بچوں کی دلیل دینے کی صلاحیت (Reasoning Skill) بڑھانا چاہتا تھا۔ یہ پیشکش صرف ایک ہی دن تک محدود تھی کہ بچّے کام کرنے کی بجائے عذر تراشنے کو مستقل عادت نہ بنا لیں۔ استاد نے کہا کہ جو پاس نہ ہوا اور اپنی غلطیوں کی کوئی توجیہہ بھی پیش نہ کر سکا تو اسے سزا دی جائے گی۔ 
اس روز پرچہ بہت مشکل تھا۔ بہت سے بچّے فیل ہوئے۔ اب انہیں عذر تراشنا اور استاد کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا تھا۔ عبدالقادر نے کئی جگہ مولانا محمد علی جوہر کا ذکر کرتے ہوئے غلطی سے محمد علی جناح لکھ دیا تھا۔ اس نے یہ توجیہہ پیش کی کہ نام میں مماثلت کی وجہ سے ایسی غلطی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ عبدالحمید صاحب نے اس کی یہ غلطی معاف کر دی۔ اسی طرح ثاقب کی یہ بات بھی انہوں نے مان لی کہ 1946ء کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے غلطی سے 1945ء لکھا جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ ثاقب نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ الیکشن 1946ء ہی میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ وہ تو ایک تاریخ ساز الیکشن تھا۔ ثاقب نے کہا: ماسٹر صاحب، تین جگہ میں نے 1946ء ہی لکھا ہے۔ ایک جگہ غلطی سے 1945ء لکھنا قابلِ معافی ہونا چاہئے۔ اسے بھی معاف کر دیا گیا۔ 
ایک بچہ ہر جگہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی جگہ گاندھی جی کا نام لکھتا رہا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو کمال چالاکی سے اس نے کہا، دونوں ہندو لیڈر تھے۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام لکھ دینا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ استاد ہنس پڑا۔ 
یہ تو وہ غلطیاں تھیں، جن کی کوئی عمدہ توجیہہ پیش کی جا سکتی تھی۔ ایک بچّے نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے کہا کہ اس کی یادداشت کمزور ہے؛ لہٰذا اسے سزا نہ دی جائے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی چار غلطیاں بھی معاف کر دی گئیں۔ بچّے اب اس ساری صورتِ حال سے محظوظ ہو رہے تھے۔ خاص طور پر وہ، جن کی غلطیاں معاف کر دی گئی تھیں۔ 
انسانی ذہن ایسے حالات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا مدّ مقابل غیر معمولی طور پر مہرباں ہے۔ ایک بچّے نے یہ بہانہ کیا کہ اس کے والدین پورا دن اس سے گھر کے کام کراتے رہتے ہیں۔ اسے پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا؛ لہٰذا آج اس کی چھ غلطیاں بھی معاف کر دی جائیں۔ ماسٹر صاحب نے اسے بھی بخش دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ آج سب بخش دئیے جائیں گے۔ سب دیکھ چکے تھے کہ اس روز ماسٹر صاحب رحم پہ تلے ہوئے تھے۔
پھر آخری بچّے کی باری آئی۔ اس کا نام عنایت تھا۔ اگر وہ بھی اپنی غلطیوں کی کوئی توجیہہ پیش کر دیتا تو یہ کلاس معمول کے انداز میں ختم ہو جاتی۔ ماسٹر صاحب نے ہاتھ آگے بڑھایا کہ عنایت اپنا پرچہ انہیں دکھائے۔ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری تھیں اور خوف کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا۔ پرچہ اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا: کتنی غلطیاں؟ بمشکل تمام وہ سرگوشی میں بولا ''میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔ ماسٹر صاحب مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘ 
ماسٹر صاحب کو یوں محسوس ہوا، آسمان سے جیسے ایک برق ان کے دل پہ نازل ہوئی ہے یا ایک زوردار دھماکے نے ان کا وجود پرزے پرزے کر دیا ہے۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور اس کے الفاظ دہرانے لگے ''میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔ مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘ وہ یہ جملہ دہراتے۔ پھر عنایت کی طرف دیکھتے۔ بچّوں نے دیکھا کہ ماسٹر صاحب بھی اسی طرح کانپنے لگے، جیسے عنایت کانپ رہا تھا۔ انہوں نے کہا ''اگر غلطیاں اتنی زیادہ ہوں کہ بچائو کی کوئی صورت نہ ہو تو انسان کیا کرے؟ کیا ایک راستہ پھر بھی کھلا ہوتا ہے؟‘‘
دفعتاً ماسٹر صاحب ہوش میں آنے لگے۔ ان کے اوسان بحال ہوئے۔ انہوں نے عنایت سے کہا کہ وہ کوئی ایک وجہ تو بتائے۔ کوئی عذر تراشے۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا تھا کہ وہ اسے معاف کرنا چاہتے تھے۔ روتے، کانپتے بچّے نے کہا، اس کے پرچے میں کوئی ایک لفظ بھی درست نہیں۔ اب بھلا وہ کیا عذر تراشے۔ اس نے کہا کہ ماسٹر صاحب اگر معاف کرنا چاہیں تو کسی عذر کے بغیر بھی معاف کر سکتے ہیں۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب کو ایک اور جھٹکا لگا۔ عنایت نے مکمل طور پر خود کو ماسٹر صاحب کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔ 
جب عنایت سزا کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ خیال کا رہوار ماسٹر صاحب کو روزِ محشر رب ذوالجلال و الاکرام کی عدالت میں لے گیا تھا۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے عنایت کے ہاتھ سے گرنے والا پرچہ دراصل ان کا نامہء اعمال ہے۔ ایک ایک کرکے انہیں اپنی زندگی کی تمام غلطیاں، ایک ایک گناہ یاد آ رہا تھا۔ چشمِ زدن میں انہوں نے اپنی پوری زندگی پہ ایک نگاہ دوڑا لی تھی۔ انہیں ایسا لگا کہ ان کے نامہء اعمال میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ سب کچھ ہی تو غلط ہے۔ انہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ خدا کے حضور اپنے دفاع میں کہنے کے لیے ایک لفظ بھی ان کے پاس موجود نہیں۔
ہر انسان پہ ایک وقت ایسا آتا ہے، جب اس کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت مکمل طور پر وہ رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد ہوتا ہے۔ معصوم سے بچّے کی زندگی میں وہ وقت ابھی نہیں آیا تھا لیکن عنایت کی وجہ سے ماسٹر صاحب پہ قیامت کی وہ گھڑی طلوع ہو چکی تھی۔ حشر سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور وہ پیش ہو چکے تھے۔ وہ عنایت کے شکر گزار تھے۔ ایک طالبِ علم کی وجہ سے استاد پہ توبہ نازل ہوئی تھی۔ ایک ہی پل میں ایک معمولی انسان آدم بن گیا تھا۔ آدم، جو وقتی طور پر پھسل جاتا ہے لیکن اس کے بعد پھر پلٹ جاتا ہے۔ جب اسے پلٹنے کا راستہ نہ ملے تو آنسو بہاتا ہے عذر نہیں تراشتا؛ تاآنکہ بخشش کا ایک نیا در اس کے لیے تراش دیا جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح، جیسے اس روز طالبِ علم نے خود کو استاد کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔ استاد نے خود کو رحمتِ پروردگار کے سپرد کر دیا تھا۔ یہ توبہ کی گھڑی تھی۔ توبہ، جس کے سوا کوئی شاہ کلید بنی نوع انسان کے پاس موجود نہیں، جس سے رحم و کرم کے در کھولے جا سکیں۔ بچوں سے استاد نے کہا ''جب سب دروازے بند ہو جائیں تو پھر انسان کے پاس عذر تراشنے کا نہیں بلکہ صرف توبہ کا راستہ ہوتا ہے۔‘‘
(مرکزی خیال ایک سوشل میڈیا پوسٹ سے مستعار لیا گیا)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved