تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-12-2017

کیا آپ خوش بخت ہیں؟

دنیا میں طبقاتی تقسیم وہاں پہنچ چکی ہے‘ جہاں آج کے دور کے امیر اور غریب دو علیحدہ علیحدہ برادریاں ہیں۔ پہلی برادری غریبوں پر راج کرتی ہے اور اُن کی نسلوں کو تاراج بھی۔ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے مختلف براعظموں میں نہیں بلکہ مختلف ملکوں کے اندر بھی امیری اور غریبی کے جزیرے بنا دئیے ہیں۔ اِس لیے دولت مندوں کی دنیا میں غربت کی تعریف اور ہے‘ لیکن جہاں غریب رہتے ہیں‘ اُس خدا کی بستی میں غربت کی تعریف الگ ہے۔ پنجابی زبان کے کسی شاعر نے اِس پورے نظریے کو یوں دو مصرعوں میں قید کر کے رکھ دیا:
ہِکناں نوُں توں اینا دیویں بس بس کرن زبانوں 
ہِکناں نوُں توں کچھ نہ دیویں ایویں ای جانڑ جہانوں 
کسی زمانے میں انگریز کی عطا کردہ زمینوں والے جاگیر دار ہوا کرتے تھے۔ اِن دنوں جاگیر داری سرمایہ داری کے پیٹ سے نکلتی ہے اور چور بازاری کے لہو پر پلتی ہے۔ آموں کے گزشتہ سیزن میں ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ کھیت جہاں کبھی دنیا کے سب سے میٹھے اور رسیلے آم اُگا کرتے تھے‘ وہاں اب سیاسی اور حکومتی کارندوں کی پاٹنرشپ سے پلاٹستان بن چکے ہیں۔ 
جس طرح ہماری کرنسی عالمی منڈی میں افغانستان سے بھی نیچے گِر گئی ہے‘ صحت کے شعبے میں ہم بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں‘ تعلیم میں یوگنڈا اور ایتھوپیا کے برابر آ چکے ہیں‘ اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی زوال پذیر ہیں۔ ہمارے ملک کے حکمران بیماری کا علاج کیا‘ تشخیص بھی نہیں بلکہ صرف چیک اَپ یعنی جانچ پڑتال کے لیے لندن جاتے ہیں‘ جبکہ عام لوگ بہتر علاج کے لیے بھارت جا رہے ہیں‘ جہاں پر مریضوں کے علاج کی بجائے اُن کی معاشی مرمت کی جاتی ہے۔ ملک کے حکمران سمجھتے ہیں کہ روشن پاکستان بنانے کا واحد راستہ چائینہ کی دو نمبر کمپنیوں کے ذریعے ایک نمبر میگا کمیشن حاصل کرنے میں سے نکل سکتا ہے۔ یہاں غربت، تربت والوں کا مسئلہ ہے حکومت کا نہیں۔ جس طرح دنیا میں دہشت گردی‘ اور پاکستان میں غربت کی کوئی معروف مصدقہ یا تسلیم شدہ تعریف یا پیمانہ 70 سالوں میں دریافت نہیں ہو سکا‘ اسی طرح خوش بختی یا اچھی قسمت کا مفہوم بھی سب کا اپنا اپنا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اچھی قسمت یہ ہے کہ رمضان کے 30روزوں میں مہنگائی کے ذریعے غریبوں کا بینڈ بجائو۔ پورا سال نہ بکنے والا مال نکالو‘ اور رمضان شریف کے آخری عشرے میں ''ہٰذا مِن فضلِ رَبی‘‘ کے ذریعے مقدسات اور زیارات کے سفر کے لیے چل نکلو۔ 
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم خوش بخت یا خوش قسمت ہیں؟ معیشت کی دنیا کے بے لاگ تجزیے کہتے ہیں کہ اگر آپ کی ہانڈی میں کھانا موجود ہے، پہننے کے لیے کپڑے ہیں، رہنے کو چھت اور سونے کی جگہ دستیاب ہے‘ تو آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ آپ کرۂ ارضی پر75 فی صد لوگوں سے زیادہ امیر ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی بینک اکائونٹ ہے اور اُس میں پیسے پڑے ہیں اور آپ کے پاس والٹ/ بٹوہ موجود ہے تو آپ خوش بخت ہیں‘ کیونکہ آپ دنیا کے ٹاپ 8 فی صد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خوش بختی جانچنے کا صرف ایک یہی پیمانہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ صبح بیماری کی بجائے بستر پر سے صحت مند اُ ٹھتے ہیں‘ تو آپ اُن لاکھوں لوگوں سے زیادہ خوش بخت ہیں جو اس ہفتے زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ 
اگر آپ پُرامن ملک میں زندگی گزار رہے ہیں‘ اور آپ نے جنگ کے خطرات کا تجربہ نہیں کیا، تنہائی میں قید و بند کی مصیبت نہیں کاٹی، کبھی ظلم و تشدد کا شکار نہیں ہوئے، اور اگر آپ نے بھوک کی تکلیف نہیں سہی تو آپ دنیا کے 500 ملین لوگوں سے خوش قسمت نکلے۔ اگر آپ یہ تحریر پڑھ سکتے ہیں تو آپ پھر بھی کم از کم اُن 300کروڑ لوگوں سے زیادہ خوش بخت ہیں جو سرے سے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ 
کچھ ایسے خوش بخت لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے لبوں پر قہقہے اور دل میں خواہ مخواہ لڈو پھوٹتے رہتے ہیں۔ اِن میں بھاری اکثریت اُن غریبوں کی ہے‘ جو نہیں جانتے کہ اُن کے ملک کے ائیر پورٹ اور سرکاری عمارتیں، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان کی عمارتوں جیسے اہم ترین قومی اثاثے جو اُن کے بزرگوں نے خون پسینے کی کمائی سے بنوائے تھے‘ اب ہماری ملکیت نہیں رہے‘ بلکہ اِن کا مالک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ہے یا پھر وہ ہیں جنہوں نے نا اہل شریف کے سمدھی والے یورو بانڈ خرید رکھے ہیں۔ چاہے وہ افریقی ہوں یا امریکی ہوں، انگلستانی یا پھر ہندوستانی۔
ایشیاء میں کوئی دوسرا ملک ایسا میرے علم میں نہیں جس نے اپنی قوم کی عزت کے نشان ادارے گِروی رکھ کر اربوں کے نہیں کھربوں کے قرضے لیے ہوں‘ اور پھر ان قرضوں کو جنہیں ہماری نسلوں نے واپس بھی کرنا ہے‘ بڑی شاندار ترقی کا نام دیا ہو۔
چند دن پہلے ایک خاتون وزیر صاحبہ اسی شاندار ترقی کو کارپٹ کے نیچے دبانے کے لیے ایک وکیل کے لاء چیمبر میں گئیں۔ سرکاری وکیل صاحب کے بقول موصوفہ کو آج کل گلوبل سٹیزن شپ کی تلاش ہے۔ یورپی وکیلوں کے لیے گلوبل سٹیزن شپ ''جیک پاٹ‘‘ ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے وکیلوں کے ایک بڑے کنسورشیم نے مجھے اس سکیم پر تفصیلی بریفنگ دی‘ جس کے ذریعے بے شمار مغربی اور امریکی ملکوں کے پاسپورٹ 5 تا 9 کروڑ سے 15 تا20 کروڑ کے خرچے پر کسی امیگریشن یا اُن ملکوں میں سٹے کیے بغیر مل جاتا ہے۔ اِس کا سب سے بڑا فائدہ وہی ہے جو خلیج کے عرب ملکوں میں اقامے کا ہے۔ آپ مطلوبہ رقم کسی بینک یا پراپرٹی میں گلوبل سٹیزن شپ والے ملک کے اندر رکھ دیں۔ سرخ پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑیں‘ اور دنیا کے 127 بڑے ملکوں میں ویزے کے بغیر اُتریں ائیر پورٹ پر ٹھپہ لگوائیں‘ اور فاسٹ ٹریک سے گزر کر موج اُڑائیں۔
موج مارنے سے یاد آیا‘ سیانے کہہ گئے ہیں کہ عقل نہیں تو موج ہی موج ہے۔ نئے دور کے سائیں لوگ یہاں عقل کی بجائے عزت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی جو عزت پاکستان میں ہے اور پاکستان سے ہے وہ عطاء کی انتہا بھی ہے اور ہماری خوش قسمتی کا آخری لینڈ مارک بھی۔ الحمدللہ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم خوش بخت یا خوش قسمت ہیں؟ معیشت کی دنیا کے بے لاگ تجزیے کہتے ہیں کہ اگر آپ کی ہانڈی میں کھانا موجود ہے، پہننے کے لیے کپڑے ہیں، رہنے کو چھت اور سونے کی جگہ دستیاب ہے‘ تو آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ آپ کرۂ ارضی پر75 فی صد لوگوں سے زیادہ امیر ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی بینک اکائونٹ ہے اور اُس میں پیسے پڑے ہیں اور آپ کے پاس والٹ/ بٹوہ موجود ہے تو آپ خوش بخت ہیں‘ کیونکہ آپ دنیا کے ٹاپ 8 فی صد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خوش بختی جانچنے کا صرف ایک یہی پیمانہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ صبح بیماری کی بجائے بستر پر سے صحت مند اُ ٹھتے ہیں‘ تو آپ اُن لاکھوں لوگوں سے زیادہ خوش بخت ہیں جو اس ہفتے زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved