تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     11-03-2013

بھارتی مسلمانوں کا زوال

ستیا جیت رے کا شاہکار ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ بھارت میں مسلمانوں کے طبقہِ اشرافیہ کے زوال کی دکھ بھری کہانی سناتا ہے۔ جب انگریزوںنے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا اور 1856ء میں اودھ کے قریب پہنچ گئے تو اس وقت ریاست کا والی شطرنج کی بساط میں الجھا ہوا تھا۔ شطرنج مغلوں کا پسندیدہ کھیل تھا۔ اُس وقت برِصغیر کے مسلمان حکمرانوں نے بیرونی دنیا میں برپا ہونے والی ترقی اور تبدیلی سے دوری کا راستہ اپنایا؛ چنانچہ اُن کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والے ادبی تہوار میں جن بہت سی نئی کتابوں کی نمائش کی گئی اُن میں ’’Muslims in Indian Cities‘‘ بھی شامل تھی۔ اس کتاب میں شامل مضامین بھارت کے مختلف شہروں میں مسلمانوںکے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کتاب کو لورنٹ گیئر (Laurent Gayer) اور کرسٹوفی جیفرلٹ (Christophe Jaffrelot) نے مرتب کیا ہے۔ اس کتا ب کا مطالعہ اُن تکلیف دہ حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے جو مسلمانوںکی پسماندگی کے ذمہ دار ہیں۔ کتاب کے دیباچے میں سچار کمیٹی‘ جسے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھارتی مسلمانوں کی زبوں حالی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا تھا، کی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ موجود ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف 8 فیصد مسلمان شہری علاقوں میں روایتی معاشی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ 31 فیصد مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور اُن کا شمار انتہائی پست طبقوں میں ہوتا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوںکی اوسط آمدنی کی شرح میں کمی کا رجحان پایا جاتا ہے: 1987ء میں ان کی آمدنی اوسط ہندو آمدنی کا 77.5 فیصد تھی جبکہ 1999ء میں یہ کم ہو کر ہندو آمدنی کا 75 فیصد رہ گئی۔ روایتی طور پر بھارت کے مسلمان شہری علاقوں میں رہتے ہیں کیونکہ مغل دور میں سلطنت کے مراکز شہروں میں تھے اور مغلوںنے شہروںکی خوبصورتی پر ہی توجہ دی تھی۔ جب بادشاہوںسے جاگیر ملتی تو بھی مسلمان شرفا شہروں سے دور دیہات میں جانے سے ہچکچاتے کیونکہ اُن کی قوت کا مرکز شہروں میں تھا؛ چنانچہ اُن زمینوں پر کام کرنے کے لیے مزارعین کو پکڑتے اور زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نوابین بڑی شان و شوکت سے شہروں میں رہتے، جیسا کہ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ میں دکھایا گیا۔ ولیم ڈالرمپل نے اپنی کتاب ’’The Last Mughal‘‘ میں بھارتی مسلمانوں کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: 1857ء کی بغاوت کے بعد مسلمانوںکے اشرافیہ طبقے کا بہت زیادہ خون بہایا گیا۔ اگرچہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر انگریزوںکے خلاف مزاحمت کی تحریک کے حق میں نہیں تھے لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں کو اس غدر کا ذمہ دار قرار دیا گیا؛ چنانچہ وہ انگریزوںکی انتقامی کاروائیوں کا شکار بنے۔ دہلی کے ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، توپ کے گولوں سے اُڑا دیا گیا اور اُن کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ حکمران خاندان کے افراد، جیسا کہ بہادر شاہ ظفر کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اُن میں سے بہت سے غربت کی زندگی میں فوت ہوئے۔ اس صدمے کو دل میں بسائے جب مسلمانوں نے دوبارہ زندگی کی راہوں پر قدم رکھا تو اُن کو پتہ چلا کہ اب ترقی کے لیے مغربی تعلیم کی ضرورت ہے جبکہ اُن معروضی حالات میں وہ اس سے گریزاں تھے۔ چنانچہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ اس ذہنیت کو علی گڑھ یونیورسٹی قائم کرتے ہوئے سر سید احمد خان نے کسی حد تک تبدیل کرنے کی کوشش کی؛ تاہم مسلمان برطانیہ کے اقتدار چھننے کے زخم کو کبھی نہ بھول سکے۔ نفسیاتی طور پر بہت سے روایتی مسلمانوںکا خیال تھا کہ جدید تعلیم حاصل کرنا فاتح قوم کی راہوں کو اپنانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف ہندووںکے سامنے ایسی کوئی ’’رکاوٹ‘‘ نہ تھی چنانچہ وہ تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہو گئے۔ اس پس منظر میں مسلمان علما، خاص طور علمائے دیوبند، نے اس زوال کی وجہ مغل حکمرانوں کی طرف سے ہندوئوں کو نوازنے اور اُن کا طرزِ زندگی اپنانے کی پالیسی کو قرار دیا۔ اُنھوں نے نعرہ لگایا کہ مسلمان صرف اُسی صورت میں کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر سکتے ہیں جب وہ ’’اصل‘‘ اسلام کی طرف لوٹ جائیں۔ اُن کا آج بھی پیغام یہی ہے۔ اُس کے بعد انگریز راج مستحکم ہو گیا تو مسلمانوںکے بڑے خاندانوںنے مغربی زندگی کی قدریں اپنا لیں لیکن عوام کی اکثریت پرانے نظریات پر کاربند رہی۔ وہ اپنے لڑکوں کو سکولوںکی بجائے مدرسوں میں بھیجتے جبکہ لڑکیوںکو گھروں میں بند رکھتے۔ اس کے برعکس ہندوئوںنے اعلیٰ تعلیمی نظام قائم کر لیا اور اس سے اُن کی ترقی کے راستے کھل گئے۔ جب تقسیم ہند کا وقت آیا تو بہت بڑی تعداد میں مسلمان قائدین اور ہنرمند افراد نئی مملکت، پاکستان، کی طرف ہجرت کر گئے۔ جو بڑی تعداد میں مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے وہ غیرتعلیم یافتہ اور مفلوک الحال تھے۔ اس دوران اُن کی وفاداری بھی تقسیم ہو چکی تھی، اس لیے وہ بھارت‘ جس پر اب ہندوئوں کی حکومت تھی، میں مہاجرین بن کر رہ گئے۔ بہت کم مسلمانوںنے ہندی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی، چنانچہ ہندو اکثریت کے ملک میں اُن کی ترقی کے راستے مسدود ہو گئے۔ اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی تنائو اور جنگوں نے مسلمانان ہند کو نقصان پہنایا کیونکہ وہ بھارت میں رہتے ہوئے اپنے دل میں پاکستا ن کے لیے وفاداری کا جذبہ رکھتے تھے۔ آج بھی بھارت کے مسلمانوں کی نوجوان نسل، جو اگرچہ پاکستان سے دور ہے، ہندو معاشرے میں ضم نہیںہو پائی ہے کیونکہ اُن کے درمیان مذہبی تفاوت پایا جاتا ہے۔ تاہم آج جب وہ پاکستان میں ہونے والی پُرتشدد کارروائیاں دیکھتے ہیں تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُن کے آبائواجداد نے ہجرت نہیںکی۔ بھارت میں 2011ء میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کا ابھی اعلان نہیںکیا گیا ہے۔ بہت سے حلقوں میں سوچ پائی جاتی ہے کہ اس کی وجہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں گمان سے زیادہ اضافہ ہو جانا ہے۔ معروف اخبار’’دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق بھارت میں مسلمانوںکی آبادی اب 177 ملین کے قریب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کُل آبادی کا 14.6 فیصد ہیں۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اگرچہ بھارت میں مجموعی طور پر بچوں کی شرح افزائش میںکمی ہو رہی ہے، مسلمان اس کمی کا شکار نہیں ہیں۔ بہرحال ایک حقیقت اب برصغیر کے افق پر اُبھر رہی ہے کہ بابری مسجد، گجرات میں ہونے والے قتلِِ عام اور ممبئی حملوں جیسے سانحات کے باوجود اب بھارت کے مسلمان ہندو معاشرے میں ضم ہو رہے ہیں۔ ایسا آزادی کے بعد سے پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حیدر آباد میں ہونے والے حالیہ بم حملے کے ہندو مسلم فسادات شروع نہیں ہوئے، اگرچہ شک ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے جنگجوئوںکا ہاتھ ہے جو خود کو انڈین مجاہدین کہتے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والی جدوجہد، جو قوم پرستی، نہ کہ مذہبی جذبات کی عکاسی کرتی ہے، کے علاوہ اب بھارت میں رہنے والے مسلمان نسبتاً سکون سے ہیں۔ اگرچہ اُن پر ابھی خوشحالی کے دروازے نہیںکھلے ہیں۔ کم از کم وہ فرقہ ورانہ دھشت گردی کے اُس طرح شکار نہیں ہیں جس طرح پاکستان کے مسلمان ہیں۔ لاہور میں ہونے والا حالیہ دلخراش سانحہ، جس میں عیسائیوں کے سیکڑوں گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا، اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ یہاں اقلتیں کس قدر غیرمحفوظ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی مسلمان ہم سے بہتر حالت میں ہو جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved