میرے اس مضمون کو سنبھال کر رکھ لیجئے دن اور تاریخ ذہن میں رکھ لیں کہ '' میاں نواز شریف اپنی زندگی میں کبھی بھی میاں محمد شہباز شریف کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر دیکھنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔ 2014 میں جب ڈاکٹر طاہر القادری نے پہلے لاہوراور پھر اسلام آباد میں دھرنا دیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب میاں نواز شریف نے میاں شہباز سے کہا آپ کے استعفیٰ دینے سے ہمارے گھر کا اقتدارمحفوظ ہو جائے گا لیکن میاں شہباز شریف کے خاندان نے ا س کی سخت مخالفت کی اورمیاں شہباز پر واضح کر دیا کہ ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے کیونکہ ماڈل ٹائون آپریشن آپ کے نہیں بلکہ (مبینہ طور پر)اسلام آباد سے ایک بیوروکریٹ کے حکم پر ہوا تھا۔ کیا اس بیوروکریٹ کے سخت احکامات اس وقت کے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس خان بیگ کو نہیں ملے‘ ان کے انکارپر بلوچستان سے مشتاق سکھیرا کو پلک جھپکتے میں آئی جی پنجاب کیوں اور کس نے بنا یا گیا۔۔۔کیا اس وقت پنجاب یا مرکز میں پولیس کے سینئر لوگ موجود نہیں تھے کہ ایک جونیئر کو آئی جی پنجاب بنا دیا گیا؟۔
یاد کیجئے وہ منظر جب لاہور کے الحمرا ہال میں سیا سی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے ابھی اپنی صاحبزادی مریم صفدر کا نام لیا ہی تھا کہ آدھے سے زیا دہ ہال حمزہ حمزہ کے پر جوش اور مسلسل نعروں سے اس طرح گونجنے لگا کہ انہیں بے بسی سے اپنی تقریر روکنی پڑی ۔۔۔۔ یہ ایک ایسا غیر متوقع دھچکا تھا جس کا کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے میاں نواز شریف کا کوئی ترجمان صرف اتناہی بتا دے کہ کیپٹن صفدر اور حمزہ شہباز کی آخری بات چیت کب ہوئی ہے؟۔
کیا شہباز شریف اس سے لا علم ہو سکتے ہیں وہ سب کچھ جانتے ہیں لیکن خاندان کیلئے قربانی دینے کا جذبہ شہبازمیاں میں سب سے زیا دہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت کچھ کرنے کے با جود کچھ نہیں کر سکتے؟۔ اس اعلان کے بعد کیا یہ ممکن ہے کہ شہباز میاں ایک بار پھر لالی پاپ پر اس لئے للچا جائیں گے کہ ان کے بھائی کو فوج اور عدلیہ کے خلاف تحریک کے لئے پنجاب کی قوت چاہئے یا پنجاب کے وسائل چاہئیں؟۔ جلسوں اور ریلیوں میں دکھانے کیلئے پنجاب پولیس کے سول ڈریس میں ہزاروں کی تعداد میں مجھے کیوں نکالا کی طرح اسلام آباد سے لاہور تک ساتھ ساتھ رہنے والی نفری چاہئے؟۔
جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کی بات ہے تو سب جانتے ہیں کہ ان کا زیادہ زور ترقیاتی پراجیکٹس پر ہے اور اسی لئے پنجاب میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں برائے نام ہی ہیں۔ چند ایک دانش سکول انہوں نے بنائے تھے، کوئی جا کر دکھائے آج ان کا کیا حال ہے۔ شروع شروع میں شہباز شریف بڑے بلند دعوے اور اعلان کرتے تھے کہ انہوں نے دانش سکول بنا کر غریبوں کے لئے انقلاب کھڑا کر دیا ہے لیکن آہستہ آہستہ جب ان پر تنقید ہوئی اور انہوں نے یہ منصوبہ ناکام ہوتے دیکھا تو خود ہی اس کا ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ آج کتنا ہی عرصہ گزر چکا ہے کہ وہ دانش سکول کا نام لینا چھوڑ چکے ہیں۔ا سی طرح ہسپتالوں کا بھی یہی حال ہے۔ دراصل بات شہبازشریف کی مرضی کی ہے۔ اگر وہ چند ماہ میں انڈر پاسز‘ میٹرو منصوبہ اور قلیل عرصے میں اورنج لائن ٹرین مکمل کرسکتے ہیں تو پھر اگر وہ چاہتے تو اس میدان میں بھی کارکردگی دکھا سکتے تھے لیکن چونکہ یہ ان کی ترجیحا ت میں شامل نہیں اس لئے انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
میاں شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی کیلئے خدمات کا اگر ذکر کیا جائے تو اس کیلئے ایک کتاب کی ضرورت ہے لمبی چوڑی تفصیل میں جانے کی بجائے صرف اتنا ہی بتا نے پر اکتفا کروں گا کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں جب میاں نواز شریف لاہور کے حلقہ95 سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے تو میں نے خود میاں شہباز شریف کو رات گئے سیڑھی پر چڑھے دیواروں پر اپنے بڑے بھائی کے انتخابی پوسٹر چپکاتے ہوئے دیکھا۔ پہلے وہ'' لیوی‘‘ کو اشتہار اورا نتخابی پوسٹر پر لگاتے اور پھر ان کے ساتھ کھڑا ہوا شخص سیڑھی پکڑتا اور وہ پوسٹر لگاتے۔ اب دیکھئے کہ چھوٹے بھائی کے بیٹے حمزہ حمزہ کے نعرے جیسے ہی الحمرا ہال میں گونجے تو وہ ویڈیو آج بھی نکال کر دیکھی جا سکتی ہے کہ حمزہ کے نعروں سے ان کی طبیعت مکدر ہو گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنی لندن روانگی کو وقت سے پہلے ترتیب دے دیا۔ الحمرا ہال میں کی گئی اس گستاخی کا انہوں نے لندن میں بار بار ذکر کیا۔۔۔ اور میڈیا کے بہت سے حضرات جانتے ہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران حمزہ شہباز کا میڈیا ٹرائل کرایا جاتا رہا ان کے خلاف مریم صفدر کا میڈیا سیل ایسے لوگوں سے بلا واسطہ رابطے کرتا رہا جو نواز لیگ پر شدید تنقید کرتے دیکھے جا رہے ہیں؟۔ یہ سب کچھ کیوں اور کس لئے؟۔
یہ ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہو سکتا کہ میاں شہباز شریف کو اپنے بھائی کے اس وعدے پر یقین آ گیا ہے؟۔کیونکہ ابھی تو چند ماہ ہی ہوئے ہیں جب پنجاب ہائوس میں سب کے سامنے کہا گیا کہ '' خاقان عبا سی صرف چارماہ کیلئے ہیں اس کے بعد شہباز شریف ہی وزیر اعظم ہوں گے؟‘‘۔ کہاں گیا وہ وعدہ ۔۔۔کیا اس کیلئے کوئی لمبی چوڑی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟۔ لیکن وعدہ فردا پر مبارک بادیںوصول کرنے والے شہباز میاں کا بھول پن دیکھئے کہ جیسے ہی میاں محمد نواز شریف نے اپنے بھائی کے متعلق یہ اعلان کیا کہ اگلے وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے تو اسی لمحے میاں شہباز شریف کے میڈیا سیل کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے دو شاہکار ایک ساتھ دیکھنے میں آئے ۔سب سے پہلے ایک انتہائی نامعلوم اخبار کی خبر کو بریکنگ نیوز بناکر دکھایا جانے لگا کہ '' شہباز شریف پر کرپشن کا الزام لگانے والی چینی کمپنی کو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے‘‘ اور میاں شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم کے پروموٹ کرنے کیلئے ان کی رونمائی اس طرح دیکھنے میں آئی کہ جیسے ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کے اپنا سفارت خانہ یرو شلم منتقل کرنے کے اعلان کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد کو دنیا کے 9 ممالک کے مقابلہ میں 128 ممالک نے سینہ تان کر منظور کیااورا مریکہ اپنی تمام دھمکیوں اور رعب دبدبے کے ساتھ شکست کھا گیا۔ جیسے ہی قرار داد مسترد ہوئی تو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر میاں شہباز شریف کے نام سے دھڑا دھڑا ٹکرز چلنا شروع ہو گئے جس میں وہ اس قرار داد کی منظوری کو پاکستان سمیت دنیا کی جیت قرار دیتے ہوئے بتاتے ہوئے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جیسے وہ سرکاری طور پر پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہوں۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹو 1970 کے انتخابات سے پہلے جب کبھی اپنے پنجاب اور سندھ کے دورے کے دوران تھک جاتے کیونکہ اس وقت نہ تو سڑکیں اتنی بڑی اور آرام دہ ہوتی تھیں اور نہ ہی گاڑیاں اس لئے وہ اپنی تھکاوٹ دور کرتے ہوئے جب ''اپنے موڈ‘‘ میں ہوتے پارٹی کے ایک اہم آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے کہ انتخاب جیتنے کے بعد تمہیں وزیر خارجہ بنائوں گا ۔۔ ہم سب کو ذرا دکھائو کہ تم کس طرح چلو گے‘ کس طرح تم امریکی صدر سے ملاقات کرو گے اور پھر اپنے ساتھیوں کو کن اکھیوں سے اشارے کرتے ہوئے اس کی چال پر دل ہی دل میں قہقہے لگاتے۔