اندرون لاہور کے ''جم پل‘‘ نصرت جاوید نے صحافت کا آغاز اپنے آبائی شہر ہی سے کیا تھا‘ اسلام آباد سدھار جانے کا آئیڈیا تو فیضؔ صاحب نے دیا۔ ایک ملاقات میں کہا‘ میاں! صحافت تو دارالحکومت میں ہوتی ہے۔ کراچی کو مملکت خداداد کا پہلا دارالحکومت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دنیا کی چھٹی بڑی مملکت کے عظیم بانی بھی یہیں آسودہ خاک ہوئے۔
راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کئے جانے والے وزیراعظم لیاقت علی خاں کی آخری آرام گاہ کے لیے بھی کراچی ہی کا انتخاب ہوا۔ ڈکٹیٹر شپ کے اندھیروں میں جمہور کی حکمرانی کا چراغ جلانے والی مادر ملت بھی اپنے عظیم بھائی کے مزار میں ابدی نیند سو رہی ہیں۔ مختلف قومی تحریکوں میں بھی کراچی کا کردار تاریخ کا شاندار باب ہے۔ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے‘ ''لہور‘ لہور‘‘ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی اسے شمالی ہند میں ایک خاص سیاسی اہمیت حاصل تھی‘ یہ خطے کی علمی و ادبی اور ثقافتی و صحافتی سرگرمیوں کا بھی اہم ترین مرکز رہا۔ مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجتماع کے لیے بھی لاہور ہی کا انتخاب کیا گیا تھا۔
مشرق کے سب سے بڑے شاعر اور مارچ 1940ء کی تاریخی قرارداد سے بھی 9 سال پہلے خطبہ الہ آباد میں برصغیر میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا تصور دینے والے اقبالؒ نے بھی لاہور ہی کو اپنا مسکن بنایا۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی کی ''عسکریت‘‘ کا مرکز بھی لاہور تھا۔ اگست 1941ء میں سید مودودی کی جماعت اسلامی کی بنیاد بھی لاہور ہی میں رکھی گئی۔ بعد میں مولانا اور ان کے رفقا نے پٹھانکوٹ کو ''دارالسلام‘‘ بنا لیا اور تقسیم کے بعد 1947ء میں ہجرت کے لیے لاہورہی کا انتخاب کیا۔ نماز عصر کے بعد 5۔اے ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا کی کھلی نشست تشنگانِ علم و تحقیق کے علاوہ سیاسی کارکنوں کے لیے بھی آسودگی خاطر کا ذریعہ ہوتی۔ نوابزادہ نصراللہ خاں کے سیاسی ڈیرے کا اپنا لُطف تھا۔ مشرقی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر حسین شہید سہروردی کے لیے بھی لاہور ہی تشکیل و راحت کا وسیلہ ہوتا‘ سرزمین بنگال سے تعلق رکھنے والے اس طرح دار رہنما کے لیے مغربی پاکستان میں بھی عزت و احترام کے فراواں جذبات پائے جاتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں سمیت اِدھر کے کتنے ہی لیڈر سہروردی کی عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ 1970ء کی انتخابی مہم میں شیخ مجیب الرحمن بھی سنہرے ریشے کی سرزمین سے محبت کا پیغام لے کر لاہور آیا۔ (اور ''حب الوطنی‘‘ سے مغلوب کچھ نوجوانوں نے گول باغ میں اس کا جلسہ الٹ دیا) بھٹو نے ''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ اور ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کا اعلان بھی لاہور میں مینار پاکستان کے زیرسایہ ہی کیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو صاحب کی فسطائیت کے خلاف پہلی جاندار آواز بھی لاہور کی پنجاب یونیورسٹی ہی سے بلند ہوئی تھی۔ جنوبی پنجاب کے قصبے مخدوم رشید سے آنے والا جاوید ہاشمی آمریت کے خلاف جواں جذبوں کا ترجمان بن گیا تھا۔ بھٹو اقتدار میں پہلے سیاسی شہید ہونے کا اعزاز اگرچہ ڈیرہ غازی خاں کے مرد درویش ڈاکٹر نذیر احمد کو حاصل ہوا۔ (جون 1972ئ) لیکن لاہور نے قرض چکانے میں تاخیر نہ کی‘ بھٹو صاحب کے اقتدار کی پہلی سالگرہ پر یوم سیاہ مناتے ہوئے خواجہ رفیق نے پنجاب اسمبلی کے پہلو میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ؎
میرے چارہ گر کو نوید ہو‘ صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘ وہ حساب آج چکا دیا
پنجاب اسمبلی کے حلقہ 6 کے ضمنی انتخاب میں شمالی لاہور کا تاج پورہ میدان لاشوں سے پٹ گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پریس ایڈوائس کے ذریعے اخبارات میں اس خبر کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پھر 9 اپریل 1977ء کو تحریک نظام مصطفی میں صرف ایک دن میں بیس سے زائد لاشیں۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران لاہور میں اضطراب کی کوئی بڑی لہر نہ اُٹھی۔ بھٹو کی پھانسی پر بھی لاہور سرد رہا۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک بھی لاہور میں رنگ نہ جما سکی۔ البتہ 10 اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی وطن واپسی پر جیالوں نے گزشتہ سارے قرض اتار دیئے تھے۔
قارئین سے معذرت کہ آدھے سے زیادہ کالم تو ''جملہ معترضہ‘‘ ہی لے گیا۔ ہم عرض یہ کرنا چاہتے تھے کہ 1958ء کے مارشل لاء کے ساتھ فوجی حکمران نے کراچی کے ہنگاموں سے دور مارگلہ کے پہاڑوں کے درمیان اپنے لیے جائے سکون و اطمینان کا انتخاب کیا‘ اسلام آباد اب مملکت خداداد کا ''سرکاری‘‘ دارالحکومت قرار پایا تھا ''سیاسی‘‘ اب خبریں اسلام آباد سے پھوٹتی ہیں۔ ''باوثوق ذرائع‘‘ سے افواہیں بھی یہیں جنم لیتی ہیں۔
جمعرات اور جمعہ کے ہمارے دو دن اسلام آباد میں گزرے۔ ہم پاکستان میڈیا کلب کی طرف سے میڈیا کے معاملات پر ایک ڈسکشن کے لیے مدعو تھے۔ رفاہ یونیورسٹی کے تعاون سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سینما ہال میں یہ سیشن خاصا دلچسپ رہا۔ لاہور سے جناب سجاد میر‘ عطاء الرحمن اور حبیب اکرم بھی موجود تھے۔ جس کے جی میں جو آیا‘ بے دھڑک کہہ گزرا۔ میڈیا کے ''انڈسٹری‘‘ بن جانے کی بات بھی ہوئی جس میں اصل اہمیت ''ریٹنگ‘‘ کی بن گئی ہے۔ اس حوالے سے ''سیٹھ‘‘ اور ''میڈیا پرسنز‘‘ کے تعلقات کار کا معاملہ بھی زیربحث رہا۔ اینکرز اور پروڈیوسرز کے ریلیشن شپ کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔ ''سکرپٹ‘‘ اور ''ایجنڈا‘‘ بھی موضوعِ بحث بنا۔ فیض آباد دھرنا اور 25 نومبر کے آپریشن کے حوالے سے میڈیا کے کردار اور پیمرا کی طرف سے آزاد میڈیا پر ''چھبیس‘ ستائیس گھنٹے کی‘‘ پابندی کے حق اور مخالفت میں بھی دلائل تھے۔
اُدھر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پوسٹ ماڈرن ازم اور میڈیا کے موضوع پر دو روزہ سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس گراں قدر کاوش کی اپنی اہمیت اور افادیت تھی۔ (بدقسمتی سے ہم اس میں شرکت سے محروم رہے)
جمعرات کی شام میجر عامر سے فون پر رابطہ ہوا‘ ان کا حکم تھا کہ ڈنر ان کے ہاں ہو گا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانی انٹیلی جینس کے اس اساطیری کردار کے ہاں کھانے پر کام و دہن کے ساتھ لذتِ فکر و دانش کا بھی وافر اہتمام ہوتا ہے اور اس شب تو وہاں اربابِ فکر ودانش اور اہلِ خبرونظر کی کہکشاں جگمگارہی تھی۔ سبھی نام لکھنے بیٹھوں تو کالم کا باقی ماندہ اسی کی نذر ہو جائے گا۔ باقی احباب سے معذرت کے ساتھ‘ میاں ابراہیم موسیٰ بھی تھے۔ آج کل امریکہ میں پڑھاتے ہیں برصغیر کے دینی مدارس ان کا خاص موضوع ہیں "What is Madrasa" کے نام سے ان کی گراں قدر تصنیف کا ترجمہ بھار کے ممتاز عالمِ دین مولانا وارث مظہری کے کیا۔ اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ اور الشریعہ کادمی گوجرانوالہ کے تعاون سے یہ کتاب اب پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر درویش‘ اسلامی نظریاتی کی کونسل کے نئے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہمارے بڑے بھائی خورشید احمد ندیم بھی کونسل کے نئے ارکان میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر حسن الامین اور عمار خاں ناصر بھی اپنے خاص اسلوب اور انداز کے ساتھ موجود تھے اور سلیم صافی کی تو میجر عامر کے ہاں ''شریک میزبان‘‘ کے طور پر موجودگی لازم ہوتی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میجر عامر کے لیے ایک جذباتی موضوع رہا کہ وہ خود بھی اس کا حصہ رہے ہیں۔ اس مسئلے پر میجر عامر بول رہا ہو تو ''وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ والی کیفیت ہوتی ہے۔ ہمارے عطاء الرحمن اس حوالے سے کچھ تحفظات رکھتے ہیں‘ جس کے جواب میں میجر عامر کے اپنے دلائل تھے۔
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات ہوئی تو ان میں سے بیشتر کے خیال میں سینیٹ میں آرمی چیف کی دو ٹوک گفتگو‘ نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کی سینیٹ سے بھی منظوری کے بعد سیاسی افق پر شکوک و شبہات کے بادل بہت حد تک چھٹ گئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی طرف سے آئندہ وزیراعظم کے طور پر شہباز شریف کی غیر رسمی نامزدگی مسلم لیگ نون کے لیے نیک فال کی حیثیت رکھتی ہے۔
رائو تحسین کی وزارت اطلاعات میں افسری اور ہماری صحافت لاہور میں اکٹھے شروع ہوئیں۔ وہ ''ڈان لیکس‘‘ کی پاداش میں ان دنوں او ایس ڈی ہیں۔ اسلام آباد کلب میں نرم نرم سی دھوپ میں ان کے ساتھ برنچ کا اپنا لطف تھا۔